کبوتر کی پیغام رسانی سے الیکٹرانکس پیغام رسانی تک

مختار احمد  بدھ 24 جولائی 2019
کبوتر کی پیغام رسانی سے الیکٹرانکس پیغام رسانی تک ’’ڈاک‘‘ نے لمبا سفر طے کیا۔ (تصویر: فائل)

کبوتر کی پیغام رسانی سے الیکٹرانکس پیغام رسانی تک ’’ڈاک‘‘ نے لمبا سفر طے کیا۔ (تصویر: فائل)

خط، چٹھی بھیجنے یا پیغام رسانی کی تاریخ بھی کچھ عجیب سی ہے۔ پہلے خطوط یا پیغام بھیجنے کےلیے پالتو کبوتروں کو باقاعدہ طور پرتربیت دے کر پیغام بھیجنے کےلیے استعمال کیا جاتا تھا۔ وہ کبوتر دور دراز تک اڑان بھر کر پیغام پہنچانے کا کام کرتے تھے۔ انہیں صرف گھروں میں پیغام پہنچانے کےلیے ہی نہیں بلکہ میدان جنگ میں پیغام رسانی کےلیے بھی استعمال کیا جاتا تھا۔ اس کے بعد پیغام رسانی کے اس سلسلے کو مختلف انداز میں اپنایا گیا، جس کی ایک تفصیلی تاریخ ہے۔

اگر پیغام بھیجنے کی تاریخ کو دیکھا جائے تو اس نظام کا آغاز خود اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم سے لے کر اپنے تمام انبیاء کو پیغامات بھیج کر کیا۔ یہاں تک کہ آخری نبی حضرت محمدؐ پر پورا قرآن وحی کی صورت میں حضرت جبرائیل کے ذریعے نازل کیا گیا۔

انسان جسے اللہ نے اشرف المخلوقات بنایا، اس نے وقت کے حساب سے ڈاک کے نظام میں تبدیلیاں پیدا کیں۔ اگر لفظ پوسٹ پر غور کیا جائے تو یہ لفظ فرانسیسی زبان کے لفظ پوسٹی سے ماخوذ ہے، جس کے معنی ایک مخصوص جگہ کے ہیں۔ اگر ڈاک کی تاریخ کی بات کریں تو ڈاک کا آغاز 2000 قبل ازمسیح میں ایک چینی بادشاہ نے کیا تھا۔ اس نے گھوڑوں اور خچروں کی مدد سے ڈاک کو ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کا کام کیا۔ مگر ڈاک کا مکمل نظام البرید کے نام سے حضرت عمرؓ نے شروع کیا، جسے دیگر خلفائے راشدین اور صحابہ کرام نے بتدریج آگے بڑھایا۔

اس نظام کو شیر شاہ سوری نے 1540-1545 تک مزید وسعت دی اور سندھ سے بنگال تک ڈاک کا ایک مکمل نظام تشکیل دیا۔ اس نظام کے تحت تھوڑے تھوڑے فاصلے پر تازہ دم گھوڑے پڑائو تبدیل کرتے ہوئے خطوط کو اپنی منزل مقصود تک پہنچاتے تھے۔

مورخین کہتے ہیں کہ ملکہ برطانیہ الزبتھ نے بھی 1566-1590 تک شاہی میل کا ایک باقاعدہ نظام بھی بنایا تھا۔ جہاں تک سندھ کی بات ہے تو یہاں انگریزوں نے باقاعدہ طور پر اس نظام کو آگے بڑھانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ جس کے تحت ایک انگریز کمشنر سر بارٹلے فریئر نے نہ صرف مکمل نظام ڈاک بنایا بلکہ 1852 میں ایک ڈاک ٹکٹ بھی جاری کیا، جوکہ سرخ رنگ کا تھا اور اس پر سندھ ڈسٹرک ڈاک درج تھا۔ اس ڈاک ٹکٹ کی قیمت آدھا آنے مقرر کی گئی تھی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ڈاک کا نظام قائم ہونے سے قبل سندھ میں بھی کبوتروں، پیادوں، گھوڑوں، خچروں کے ذریعے خطوط بھیجنے کا سلسلہ قائم تھا، جوکہ بارٹلے کے نظام کے بعد مزید ایڈوانس ہوگیا۔ بعد ازاں برصغیر پاک و ہند میں پوسٹ آفس ایکٹ 1898 کے تحت ڈاک کا جدید نظام قائم کیا گیا۔

جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو ابتدا میں برطانیہ کے ہی ڈاک ٹکٹ پر پاکستان کی اسٹیمپ لگا کر کام چلایا جاتا رہا۔ 9جولائی 1948 کو پاکستان زندہ آباد کے نعروں سے مزین ٹکٹ چھاپا گیا اور اس کے بعد گویا ملک میں ڈاکخانوں کی قطاریں لگ گئیں اور خطوط لکھنے والے لوگوں کی تعداد میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا۔

1947 میں ملک بھر میں ڈاکخانوں کی تعداد جو 3036 تھی، وہ بڑھ کر 12339 ہوگئی، جبکہ کراچی میں بھی ڈاکخانوں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ دیکھنے میں آیا۔ جس کے تحت کراچی میں اس وقت 6 جی پی اوز، 10ہیڈ پوسٹ آفس 4 ڈویژن اور لگ بھگ 300 ڈاکخانے قائم ہیں۔

کراچی میں بھی ڈاکخانوں کی تاریخ نئی نہیں، بلکہ 19 ویں صدی کی ہے۔ یہاں بھی مختلف طریقوں سے پیغام رسانی کا کام کیا گیا، مگر انگریزوں کی آمد کے بعد یہاں باقاعدہ طور پر ڈاکخانے قائم کیے گئے۔ آج جہاں میری ویدر ٹاور موجود ہے اس کے پچھلے حصے میں پتھروں کی ایک دو منزلہ عمارت موجود تھی۔ اس سے ڈاک کے نظا م کو چلایا جاتا تھا۔

1901میں موجودہ جی پی او، جوکہ آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع ہے، میں ٹیلی گراف آفس کے ساتھ انگریزوں کے دور کی بنائی گئی پرانی عمارتوں کو ٹیلی گراف اور پوسٹ آفس (جوکہ پہلے ایک ہی ہوا کرتے تھے) استعمال کیا گیا۔ ان میں سے کچھ قدیم عمارتیں آج بھی اپنی زبوں حالی کے ساتھ اپنے ماضی کی داستاں سنارہی ہیں۔

آج گوکہ ٹیلی گراف، جس کے ذریعے لوگ تار (ٹیلی گرام) بھیجا کرتے تھے، جبکہ پوسٹ آفس کا کام لوگوں کو خطوط اور مراسلے پہنچانا ہوتا تھا، یہ دونوں محکمے اس وقت سے لے کر اب تک وزارت مواصلات کے زیر نگرانی رہے، مگر اب الگ الگ کام کرتے ہیں۔ آج بھی یہ دونوں اہم محکمے پرانے میکلوڈ روڈ اور آج کے آئی آئی چندریگر روڈ پر ساتھ ساتھ واقع ہیں۔

کراچی جسے ایک گنجان شہر کہہ سکتے ہیں، یہاں ڈاک کی کھپت سب سے زیادہ ہوا کرتی تھی۔ لوگ صبح بیدار ہوتے اور دروازوں پر کھڑے ہوکر ڈاکیے کا انتظار کیا کرتے تھے۔ اگر ڈاکیا کوئی خوشخبری والا خط لے آتا تو لوگ اس کی تواضع کرتے اور انعام واکرام سے بھی نوازتے تھے۔ اگر کسی محلے میں کوئی ٹیلی گرام آجاتا تو پورے علاقے میں ایک کہرام مچا ہوتا تھا کہ کوئی بری خبر آئی ہے، کیونکہ لوگ اس وقت صرف کسی کی موت کی صورت میں ٹیلی گرام بھیجا کرتے تھے۔

اس زمانے میں (جوکہ زیادہ پرانا نہیں) پوسٹ آفس ہر شخص کی ضرورت تھا، مگر آج اس کی جگہ انٹرنیٹ اور موبائل نے لے لی ہے، جبکہ ملک بھر میں متعدد نجی کوریئر کمپنیز بھی ڈاک اور پارسل کی ترسیل کا کام انجام دے رہی ہیں۔ جس سے محکمہ ڈاک کافی پیچھے چلا گیا ہے۔ لوگوں نے جدید ٹیکنالوجی سے اپنے مراسلات اور پیغامات بھیجنے شروع کردئیے ہیں۔ جسے دیکھ کر یہی محسوس ہوتا ہے کہ اب شاید محکمہ ڈاک کی ضرورت نہیں۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔

کیونکہ محکمہ ڈاک اب بھی ملک بھر میں ڈاک کی ترسیل کا وہ واحد ادارہ ہے، جس کے ڈاکخانے چھوٹے چھوٹے گاؤں اور قصبوں میں بھی قائم ہیں۔ یہاں تک کہ اگر کسی کو فوجی بھائیوں کو ان کی چھاؤنی یا سیاچن گلیشیئر پر پیغام بھیجنا ہو تو صرف محکمہ ڈاک ہی یہ کام سرانجام دے سکتا ہے۔

محکمہ ڈاک میں بڑے پیمانے پر ہونے والی کرپشن کے باعث یہ ادارہ اس وقت 8 ارب روپے کے خسارے کا شکار ہوکر سفید ہاتھی بن چکا ہے اور روزانہ روبہ زوال ہورہا ہے۔ افسران اور ملازمین کی غفلت اور گھوسٹ ملازمین کی بڑی تعداد گھر بیٹھ کر تنخواہیں وصول کررہی ہیں، جس کی وجہ سے محکمے کے اندر چیک اینڈ بیلنس کا کوئی نظام نہیں ہے۔ جس کا نجی کوریئر کمپنیز خاطر خواہ فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک کے مختلف علاقوں، گائوں دیہات، جہاں تک ان کی رسائی نہیں ہے وہاں ڈاک، پارسل کےلیے خود بھاری نرخ لے کر سستے داموں بھیجنے کےلیے محکمہ ڈاک کا سہارا لے کر کروڑوں روپے کا منافع کمارہی ہیں۔ محکمے میں کرپشن بھی عروج کو پہنچ چکی ہے، جس کے تحت کبھی لوگوں کے پارسلوں کی چوری، سامان بدلنے کی شکایت، کہیں یوٹیلٹی بلز نہ ملنے کی شکایات عام ہیں، جس پر اب تک قابو نہیں پایا جاسکا۔

اس بات کے پیش نظر اندیشہ ہے کہ چند سال میں یہ محکمہ نہ صرف مکمل طور پر ختم ہوجائے گا، بلکہ لوگ، محکمہ ڈاک کے باوردی ڈاکیوں کو مکمل طور پر بھول کر نجی کوریئر کمپنیوں پر اعتماد کرتے ہوئے پیغام رسانی کےلیے ان کے جدید نظام کو اپنالیں گے۔ جس سے نہ صرف ڈاک کا یہ قدیم ادارہ مکمل طور پر بند ہوجائے گا بلکہ اس میں کام کرنے والے اور اس سے وابستہ لاکھوں لوگ بے روزگار ہوجائیں گے۔

لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت فوری طور پر اس محکمے کی جانب توجہ دے کر نہ صرف خسارے سے باہر لائے، بلکہ کوریئر کمپنیوں کی طرح زیادہ سے زیادہ الیکٹرانک نظام متعارف کرائے۔ تاکہ اس محکمے کے کھوئے ہوئے وقار کو بحال کرنے کے ساتھ اسے ایک بار پھر پیروں پر کھڑا کیا جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مختار احمد

مختار احمد

مختار احمد کا تعلق صحافت ہے اور اِس وقت کراچی کے ایک اخبار سے وابستہ ہیں۔ آپ ان سے ای میل ایڈریس [email protected] پر بھی رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔