ایران بدل رہا ہے؟

بشیر واثق  اتوار 15 ستمبر 2013
ایرانی حکام عالمی سطح پر اپنے سافٹ امیج کے لئے کوشاں۔ فوٹو: فائل

ایرانی حکام عالمی سطح پر اپنے سافٹ امیج کے لئے کوشاں۔ فوٹو: فائل

ایران میں حکومت کیا بدلی، یوں لگتا ہے جیسے بہت کچھ بدلنے والا ہے، آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے؟۔

انسانی معاشروں میں تبدیلی کا عمل بتدریج ہوتا ہے، ماہرین عمرانیات کا کہنا ہے کہ معاشرے کے رسوم ورواج اور ثقافت کو بدلنا کچھ آسان نہیں ہوتا، اگر ان کو فوری ختم کرنے یا بدلنے کی کوشش کی جائے تو سخت ردعمل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جبکہ بتدریج آنے والی تبدیلی حالات کے مطابق ہوتی ہے بلکہ یوں کہا جائے کہ وہ حالات کا تقاضا ہوتا ہے تو غلط نہ ہو گا ، مگر یہ تبدیلی اتنی آہستگی سے ہوتی ہے کہ افراد کو محسوس ہی نہیں ہوتا، یوں کسی قسم کے ردعمل کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ معاشرے میں کوئی بہت بڑی تبدیلی ہنگامی طور پر آجاتی ہے ، ایسی تبدیلی عموماً کسی چیز کے ردعمل کے طورسامنے پر آتی ہے ، تاہم اس کے لئے بھی فضا کافی عرصے سے تیار ہو رہی ہوتی ہے ، جیسے کسی ملک میں جمہوری انقلاب برپا ہوتا ہے اور عوام فوجی حکومت کے خلاف سڑکوں پر آجاتے ہیں، انقلاب کی یہ فضا کافی عرصہ سے تیار ہو رہی ہوتی ہے۔

اسی طرح چند سال قبل ہمارے معاشرے میں والدین کا ادب اس حد تک کیا جاتا تھا کہ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے بچے والدین کا ادب کرنے کی بجائے ان سے خوفزدہ ہیں ، خوفزدہ اس لئے کہا کہ فرض کریں اگر والد بازارسے گزر رہا ہوتا تھا تو اس دوران اگر بچوں نے دور سے والد کو آتے ہوئے دیکھ لیا تو وہ وہاں سے یوں رفو چکر ہو جاتے تھے جیسے وہاں موجود ہی نہیں تھے، اب بچے والدین سے ڈرنے کی بجائے ان کے ساتھ کھیلتے کودتے ہیں ، گویا احترام دوستی میں تبدیل ہو گیا ہے تاہم بچے اب بھی دوستی کے باوجود والدین کا احترام ضرور کرتے ہیں یعنی ان کا حکم مانتے ہیں مگر ڈر کی وجہ سے نہیں ، احترام کی وجہ سے۔ انقلاب کا برپا ہونا اقتدار کی تبدیلی ہے جبکہ والدین کا بچوں کو دوست بنانا روایت میں تبدیلی ہے، انقلاب آنابظاہر اچانک ہوتا ہے مگر اس کے پیچھے ایک طویل جدو جہد ہوتی ہے اور اس کا ردعمل بھی شدید ہو سکتا ہے مگر روایت میں تبدیلی بہت آہستہ اور بتدریج ہونے کی وجہ سے غیر محسوس ہوتی ہے اس لئے اس کا بہت کم لوگوں کو احساس ہوتا ہے۔

ایران میں پہلی تبدیلی اس وقت دیکھنے میں آئی جب 1979ء میں عوامی انقلاب کے ذریعے امام خمینی نے شاہ ایران رضا شاہ پہلوی کی حکومت کا تختہ الٹ کر اقتدارسنبھال لیا اور شاہ ایران کو جلاوطن ہونا پڑا۔ امام خمینی کا یوں اقتدار میں آجانا کوئی اچانک نہیں تھا بلکہ اس کے لئے سالہا سال تک فضا تیا رکی گئی تھی، امام خمینی اور ان کے رفقاء نے ایک طویل عرصہ تک اپنی تقریروں اور تحریروں کے ذریعے عوام میں تبدیلی لانے کے لئے جدوجہد کی، اس دوران امام خمینی کو پندرہ سال تک جلاوطنی کی زندگی گزارنا پڑی۔

عوام بھی بادشاہی نظام حکومت سے تنگ آ چکے تھے اس لئے عوام کی اکثریت نے ان کی آواز پر لبیک کہا اور سڑکوں پر نکل آئے ، شاہ ایران کو تما م تر طاقت رکھنے کے باوجود اقتدار چھوڑنا پڑا۔

امام خمینی کے اقتدار سنبھالتے ہی دنیا بھر کی نظریں اس انقلاب پر لگ گئیں۔ ایران کے نئے حکمرانوں کا لب و لہجہ کسی قسم کی لاگ لپٹ رکھے بغیر بڑا دوٹوک اور دبنگ تھا جو عالمی سپر پاور امریکا کو سخت ناگوار گزرا، یوں عالمی سازش کے ذریعے ایران کو جنگ میں جھونک دیا گیا ، شاید اس کی وجہ ایرانی حکومت کی حکومت کرنے کے طور طریقوں سے نا آشنائی بھی تھی ، ورنہ ایسے حالات میں ڈپلومیسی کا تقاضا تو یہی تھا کہ جنگ سے بچا جائے اور ملک میں برپا ہونے والے انقلاب کی طاقت کو ملک و قوم کی تعمیر و ترقی میں صرف کیا جائے ، مگر یہ ساری طاقت جنگ میں جھونک دی گئی ۔ اس کے ساتھ ساتھ ایران کو مزید کمزور کرنے کے لئے اس پر طرح طرح کی پابندیاں عائد کر دی گئیں۔

ایران عراق جنگ ختم ہو گئی مگر ایران پر لگائی جانے والی پابندیاں بڑھتی ہی چلی گئیں۔ دوسری طرف ایران میں منتخب حکومتوں کا لب و لہجہ بھی سخت اور جارحانہ ہی رہا یعنی اگر کسی ملک نے کوئی پالیسی بیان جاری کیا ہے جس میں ایران کے حوالے سے کوئی بات کہی گئی ہوتی تو اس کے جواب میں ہمیشہ سخت ردعمل دیکھنے میں آیا، خاص طور پر ایران کے سابق صدر محمود احمدی نژاد اپنے سخت موقف کے حوالے سے بہت زیر بحث رہے ہیں ، کبھی ان کی طرف سے بیان آتا کہ امریکا اور اس کے اتحادی مشرق وسطیٰ میں قابض ہیں ، کبھی وہ کہتے امریکا اپنی فوجی طاقت کی وجہ سے دنیا پر غلبہ حاصل کر رہا ہے اور چھوٹی قوموں کو محکوم بنا رہا ہے، کبھی وہ اسرائیل کو نشانہ بناتے ہوئے بیان داغ دیتے کہ اسرائیل کی مشرق وسطیٰ میں کوئی جڑیں نہیں اسے تباہ کر دیں گے،اسرائیل کینسر کی طرح ہے جو پورے وجود کو کھا جاتا ہے اس لئے اس کا خاتمہ ضروری ہے، اسرائیل کو دنیا کے نقشے سے مٹا دینا چاہیے۔

جب ایران کے خلاف کسی قسم کی کاروائی کے بارے میں کسی طرف سے بیان آتا تو اس کا جواب کچھ یوں آتا، ایران کے خلاف کاروائی کرنے والوں کو منہ توڑ جواب دیا جائے گا، ایران پر حملہ کرنے والوں کے ہاتھ سوائے افسوس کے کچھ نہیں آئے گا۔ خاص طور پر نیوکلیر پروگرام کے حوالے سے ایران کا ہمیشہ سے ہی موقف بڑا سخت رہا ہے اور کسی بھی قسم کے معائنہ کمیشن کو اجازت نہ دینے کا عندیہ دیا جاتا رہا مگر پھر عالمی برادری کے دبائو پر معائنے کی اجازت دینا پڑی مگر بیانات ہمیشہ ہی سخت آتے رہے، یوں معائنہ کرانے کا بھی خاطر خواہ فائدہ جو عالمی برادری کی طرف سے حمایت کی شکل میں مل سکتا تھا نہ مل سکا۔

ایک حیران کن پہلو یہ ہے کہ ایرانی حکومت کی طر ف سے سخت موقف کی عوام کی طرف سے بھی ہمیشہ ہی حمایت کی جاتی رہی ہے بلکہ ایسے موقف نا صرف ایرانی عوام بلکہ مسلم ممالک کے دیگر عوام میں مقبولیت حاصل کرتے رہے، یوں عالمی سطح پر ایرانی حکومت کا تاثر ہمیشہ ہی ہارڈ لائنر سٹیٹ کا رہا ہے ۔

اس سال جون میں ہونے والے الیکشن میں توقع تو یہ کی جارہی تھی کہ قدامت پرست سوچ رکھنے والی سابق حکومت جسے سپورٹ کرے گی وہی امیدوار جیت جائے گا مگر نتیجہ اس کے بالکل برعکس رہا ، صدارتی الیکشن میں جن چھ امیدواروں نے حصہ لیا ان میں حسن روحانی، محمد باقر قالیباف، سعید جلیلی، محسن رضائی، علی اکبر ولائتی اور محمد غرضی شامل تھے ، ان میں سب سے زیادہ یعنی ایک کروڑ، چھیاسی لاکھ سے زائد ووٹ حسن روحانی نے حاصل کئے، دوسری پوزیشن محمد باقر قالیباف نے حاصل کی جنھوں نے ساٹھ لاکھ ، ستتر ہزار ووٹ حاصل کئے ، یوں معتدل مزاج کے حامل حسن روحانی نے کل ڈالے گئے ووٹوں کے نصف سے تھوڑے زیادہ ووٹ حاصل کئے جبکہ قدامت پسند سوچ کے حامل محمد باقر قالیباف نے صرف سولہ فیصد ووٹ حاصل کئے۔

حسن روحانی کی کامیابی ایرانی عوام کی سو چ میں واضح تبدیلی کا اشارہ ہے۔ اور پھر ہوا بھی ویسے ہی ، جیسے ہی حسن روحانی کی کامیابی کا اعلان کیا گیا دنیا بھر میں ان کی کامیابی کو سراہا گیا ، جس کی وجہ حسن روحانی کا معتدل مزاج ہونا ہے۔ ایرانی عوام نے حسن روحانی کی جیت کا بھرپور جشن منایا ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور حسن روحانی کے حق میں نعرے بازی کی جبکہ قدامت پرست اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کسی قسم کا ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا۔

حسن روحانی کی اعتدال پسندی ان کے بیانات سے بھی عیاں ہوتی ہے جب انھوں نے الیکشن کے فوری بعد ایک بیان میں اپنی کامیابی کو اعتدال پسندی کی جیت قرار دیا ، ان کا کہنا تھا کہ اللہ کا شکر ہے کہ ایران میں ایک بار پھر سوجھ بوجھ اور اعتدال پسندی چھا گئی ہے،یہ انتہا پسندی کے خلاف عقل ، پختگی اور اعتدال پسندی کی جیت ہے ۔ انھوں نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ انھیں صدر منتخب کئے جانے کی وجوہات میں سے ایک وجہ ملک کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی تھی تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایران اپنے اصولوں سے دست بردار ہو جائے گا، انھوں نے مغربی ممالک کے ساتھ جاری تنائو کو کم کرنے کے لئے سنجیدہ مذاکرات کے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے پیش رو محمود احمدی نژاد کے سخت رویے سے دور رہیں گے۔

ایران کی خارجہ پالیسی نعرے بازی سے متاثر نہیں ہو گی لیکن ہم لوگ پر زور طریقے سے اپنے قومی مفادات کا دفاع کریں گے۔ انھوں نے کہا کہ ایران جوہری پروگرا م پر بامعنی مذاکرات کے لئے تیا ر ہے، اس دونوں فریقوں کے تحفظات کو دور کیا جا سکتا ہے، یہ معاملہ بات چیت سے حل ہو سکتا ہے دھمکیوں سے نہیں،ایران اپنے جوہری پروگرام پر زیادہ شفافیت دکھانے کے لئے تیار ہے مگر یورینیم کی افزودگی بند نہیں کرے گا کیونکہ اس سلسلے میں بین الاقوامی معیارات کا مکمل خیال رکھا جاتا ہے۔

انھوں نے ایران پر لگائی گئی پابندیوں کے حوالے سے کہا کہ اگر آپ ایک تسلی بخش رد عمل چاہتے ہیں تو آپ کو پابندیوں کی زبان میں بات نہیں کرنی چاہیے بلکہ آپ کو احترام کے ساتھ مخاطب ہونا چاہیے۔ اسی طرح شام پر امریکی حملے کی دھمکی کے باوجود ایرانی حکام نے اپنا رویہ معتدل رکھا اور کہا کہ شام پر امریکی حملے سے خطے اور عالمی سکیورٹی پر منفی اثرات مرتب ہوں گے ۔

سابق دور اور موجودہ دور کا موازنہ کیا جائے تو خارجہ پالیسی میں نمایاں فرق نظر آتا ہے کہاں تو ایران کے جوہری پروگرام کے بارے میں بات کرنے والوں کو منہ توڑ جواب دینے کی باتیں کی جاتی تھیں اور کہاں خود بامعنی مذاکرات کی دعوت دی جا رہی ہے ، شام پر حملے کی صورت میں خدشات کا اظہار مثبت انداز میں کیا گیا ہے ، دھمکی دینے والا رویہ اب نظر نہیں آتا یعنی ایرانی رویے میں تبدیلی آ گئی ہے ۔

بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ایرانی عوام نے معتدل پسند حسن روحانی کو اس لئے ووٹ دیا کیونکہ سابق حکومتوں کے سخت رویے کی وجہ سے ایران عالمی برادری سے کٹ چکا ہے اور اس پر لگائی پابندیوں کی وجہ سے عوام کو بہت سے مسائل کا مسلسل سامنا ہے ،ایک ایرانی ماہر معاشیات کا کہنا ہے کہ ایرانی معیشت بلیک ہول جیسی صورتحال سے دوچار ہے جس سے اسے کوئی بہت بڑا جھٹکا یا دھکا ہی نکال سکتا ہے، اس وقت ایران کا ہر شعبہ زندگی بحران سے دوچار ہے، ہیلتھ ، تعلیم، عدلیہ ، بینکنگ غرض کوئی شعبہ بحران سے بچا ہوا نہیں ہے ، بے روزگاری کی شرح میں خوفناک اضافہ ہو ا ہے، پچاس لاکھ سے زائد نوجوان ڈگریاں ہاتھوں میں لئے روزگار کی تلاش میں سرگرداں ہیں اور اگلے پانچ سالوں میں یہ تعداد دوگنی ہو جائے گی ۔

اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ایران میں اعتدال پسندوں کے آگے آنے کی ایک وجہ ایران کی معاشی مشکلات بھی ہیں جس کا وہ گزشتہ تیس سال سے سامنا کر رہا ہے ،گو ایران تیل کی دولت سے مالا مال ہے مگر عالمی پابندیوں کی وجہ سے وہاں پر ہر شعبہ زندگی متاثر ہو رہا ہے ،ایرانی عوام کی اکثریت نے مسائل کے اس گرداب سے نکلنے کے لئے معتدل مزاج رہنما کا انتخاب کیا ، اسی لئے ایران کی خارجہ پالیسی میں واضح پالیسی نظر آتی ہے اور سخت رویے پر نظر ثانی کی جا رہی ہے، تاہم کچھ غیر ملکی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حسن روحانی اور ان کی کابینہ کا تعلق قدامت پرستوں کے ٹولے سے ہی ہے اس لئے وہ ایران کے سابق موقف کو برقرار رکھیں گے تاہم ان کا رویہ معتدل ہے ۔

غیر ملکی مبصرین کی رائے اپنی جگہ پر مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ ایرانی عوام اب تبدیلی چاہتے ہیں حسن روحانی کی جیت اس کا آغاز ہے ، تاہم یہ ضرور ہے کہ وہ کسی کے سامنے جھکنا نہیں چاہتے اور قوموں کی زندگی میں یہ مقام بڑا اہم ہوتا ہے ، کیونکہ جھک جانے والی قومیں دوبارہ بڑی مشکل سے سراٹھاتی ہیں ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔