چند معروضات

مزمل سہروردی  پير 22 جولائی 2019
msuherwardy@gmail.com

[email protected]

نظام تفتیش کو ٹھیک کیے بغیر ملک میں نظام انصاف بھی ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ اس بات کا اعتراف چیف جسٹس پاکستان نے بھی کر لیا ہے۔ کراچی میں تمام صوبوں کے آئی جی صاحبان کے ساتھ پولیس اصلاحات پر کانفرنس میں خطاب میں انھوں نے درست تفتیش کی اہمیت پر تفصیل سے بات کی ہے۔ انھوں نے نظام عدل کی طرح پولیس کو آزاد کرنے کی بات بھی کی ہے۔

میں چیف جسٹس پاکستان سے مکمل طور پر متفق ہوں کہ جب تک تفتیش کا نظام ٹھیک نہ ہو انصاف ممکن نہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ چیف جسٹس پاکستان نے جھوٹی گواہیوں کی حوصلہ شکنی کے لیے بھی اقدمات کیے ہیں۔ جھوٹے گواہوں کو سزا دینے کے احکامات دیے گئے ہیں۔ ماتحت عدلیہ کو جھوٹے گواہوں کی گواہیاں قبول نہ کرنے کے احکامات دیے گئے ہیں۔ چیف جسٹس پاکستان کی یہ بات بھی درست ہے کہ جب گواہ کی ایک بات جھوٹی نکل آئے تو اس کی باقی سچی باتوں پر بھی اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ عدالتیں آدھے سچ اور آدھے جھوٹ کو قبول نہیں کر سکتی ہیں۔

اس لیے جھوٹ سامنے آنے کے بعد سچ بھی جھوٹ ہی سمجھا جاتا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان کی یہ بات بھی درست ہے کہ قتل اور دیگر مقدمات میں بھائی بیٹے اور دیگر قریبی عزیزوں کو گواہ جان بوجھ کر بنایا جاتا ہے۔ حالانکہ وہ نہ تو موقع پر موجود ہوتے ہیں اور نہ ہی انھیں واقعہ کا کچھ علم ہوتا ہے۔ جھوٹے گواہوں کی نامزدگی سے مقدمہ میں جھوٹ کی آمیزش ہو جاتی ہے۔ جہاں سے سچا مقدمہ بھی جھوٹا ہو جاتا ہے۔

کئی سال پہلے میں نے اس وقت کے پنجاب کے آئی جی مشتاق سکھیرا سے ایک بار پوچھا تھا کہ کیا وجہ ہے قتل کے مقدمات میں مجرم بری ہو جاتے ہیں۔ کیوں  قتل کے مقدمات میں مجرمان کو سزا کی شرح بہت کم ہے۔ کیوں قاتل بری ہو جاتے ہیں۔ کیوں بے گناہ کو سزا ہو جاتی ہے اور گناہ گار بچ جاتے ہیں۔ انھوں نے تب مجھے کہا کہ مجرمان کے بری ہونے کی بنیادی وجہ غلط ایف آئی آر کا اندراج ہے۔ مدعی سچے قتل کی جھوٹی ایف آئی آر درج کراتے ہیں۔ ایک ملزم ہو تو اس کے باقی خاندان کو بھی ایف آئی آر میں ملزم بنا دیا جاتا ہے۔ اس طرح باقی بے گناہوں کی وجہ سے اصل گناہ گار بھی بچ جاتا ہے۔

اس لیے چیف جسٹس پاکستان نے درست نشاندہی کی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس کو ٹھیک کیسے کیا جا سکتا ہے۔ میری رائے میں یہ بات مبہم ہے کہ پولیس کو آزاد کیا جائے۔ پولیس کو آزاد کرنے کے بجائے یہ کہنا چاہیے کہ تفتیشی افسر کو آزاد کیا جائے۔ جب تک پولیس کے نظام میں تفتیشی افسر کو آزاد نہیں کیا جائے گا، آزادانہ تفتیش ممکن نہیں ہے۔ ایک دفعہ احتساب کے ایک بڑے ادارے کے ایک بڑے افسر سے میری احتساب کے نظام کے بارے میں بات ہوئی۔ انھوں نے گلہ کیا کہ عوام میں احتساب کے ادارے کی وہ عزت نہیں ہے جو ہونی چاہیے۔

لوگ احتساب کے نظام کے بارے میں شکوک کا کیوں شکار ہیں۔ میں نے انھیں بھی تجویز کیا تھا کہ آپ اپنے ادارے میں تفتیشی افسران کو آزاد کر دیں۔ ان پر اپنا کنٹرول ختم کر دیں۔ انھیں اپنی تفتیش کے حوالے سے نظام عدل کے سامنے جوابدہ بنا دیں۔ انھوں نے کہا یہ کیسے ممکن ہے۔ میں نے انھیں کہا کہ اس کے بغیر عزت ممکن نہیں ہے۔

دنیا بھر میں تفتیشی نظام کوشفاف بنایا گیا ہے۔ اگر تفتیش غلط ثابت ہو جائے تو تفتیشی افسر ملزم بن جاتا ہے۔ ملزم کی حیثیت مدعی کی بن جاتی ہے۔ اگر عدالت ملزم کو بری کر دے تو ملزم کو تفتیشی افسر پر ہرجانہ کا مقدمہ کرنے کا حق حاصل ہو جاتا ہے۔ا س لیے وہاں کسی کو ملزم کا عدالت میں چالان بھیجنے سے پہلے دس ہزار دفعہ سوچا جاتا ہے۔ جب کہ پاکستان میں ایسا نہیں ہے۔ پاکستان میں پولیس بے گناہوں کو بھی ملزم لکھنے میں کوئی حرج محسوس نہیں کرتی کیونکہ تفتیشی افسر کوکوئی ڈر نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے پاکستان کی عدلیہ تفتیشی افسران کو اپنی تفتیش کے حوالے سے جوابدہ بنائے۔

چیف جسٹس پاکستان نے جہاں جھوٹے گواہان کو سزا دینے کا عمل شروع کیا ہے۔ وہاں جھوٹی اور غلط تفتیش پر بھی تفتیشی افسران کو سزا دینے کا عمل شروع کرنا ہوگا۔ جب جج صاحب کے سامنے یہ بات بھی عیاں ہو جاتی ہے تفتیشی افسر نے غلط تفتیش کی تواسے سزا دی جانی چاہیے۔ جب بے گناہ کو تفتیش میں ملزم قرار دیا جاتا ہے تو عدالت کی جانب سے صرف با عزت بری کر دینا انصاف نہیں ہے۔ جب تک تفتیشی افسر کو سخت سزا نہیں دی جائے گی ۔ غلط تفتیش کا راستہ روکا نہیں جا سکتا۔

سوال یہ ہے کہ کیا سزا دی جائے۔ کیا غلط تفتیش پر تفتیشی افسر کی نوکری ختم کی جائے۔ لیکن اس کا ملزم کو کیا فائدہ جسے اس غلط تفتیش کی وجہ سے کئی سال نظام انصاف کی اذیت سے گزرنا پڑا۔ میں سمجھتا ہوں کہ عدلیہ کو مغربی ممالک کی طرح ہرجانہ کا نظام بھی شروع کرنا چاہیے۔ تمام تفتیشی افسران کی انشورنس ہونی چاہیے۔ جب ایک تفتیش غلط ہو جائے تو نہ صرف تفتیشی افسر کی نوکری ختم ہونی چاہیے بلکہ ملزم کو ہر جانہ بھی ملنا چاہیے۔ تب ہی پاکستان میں غلط تفتیش کا راستہ رک سکے گا۔

ایک دفعہ تفتیش کا نظام ٹھیک ہو گیا تو نظام انصاف سے بوجھ بھی کم ہو جائے گا۔ ابھی تو پولیس ہر مقدمے کا چالان عدالت میں بھیج دیتی ہے۔ جو غلط ہے۔ ہر مقدمہ کا چودہ دن میں عدالت چالان بھیجنے کے قانون پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ جب تک پولیس تفتیش مکمل نہ کر لے۔ جب تک اصل ملزم نہ مل جائیں۔ جب تک سچ سامنے نہ آجائے چالان عدالت میں نہیں جانا چاہیے۔ چاہے اس میں جتنا عرصہ لگ جائے۔

اسی طرح عدلیہ کو جھوٹی ایف آئی آر پر بھی جھوٹی گواہی کی طرح سخت رویہ اپنانا ہوگا۔ جب یہ ثابت ہو جائے کہ جھوٹی ایف آئی آر درج کروائی گئی ہے تو مدعی کو سخت سزا ملنی چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جھوٹی ایف آئی آر پر مدعی کو وہی سزا ملنی چاہیے جو وہ ملزم کے لیے مانگ رہا ہو۔ پاکستان میں جھوٹی ایف آئی آر کے کلچر نے نظام انصاف اور پولیس کے نظام کو آلودہ کر دیا ہے۔ جھوٹی ایف آئی آر درج کروانا طاقت کی نشانی بن گیا ہے۔ فیشن بن گیا ہے۔سیاسی مداخلت کی بنیادی وجہ بھی جھوٹی ایف آئی آر کا رواج ہی ہے۔ جب تک جھوٹی ایف آئی آر کا راستہ نہیں رکے گا۔ تب تک پولیس بھی ٹھیک نہیں ہو سکتی۔

اسی طرح پولیس کی گرفتاری کے حق پر بھی نظر ثانی کی ضرورت ہے۔ ابھی تک جونہی ایف آئی آر درج ہو پولیس ملزم کو گرفتار کرنے نکل پڑتی ہے۔ بے گناہ اور گناہ گار کا تعین گرفتاری کے بعد کیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے زیادہ بے گناہ لوگ گرفتار ہو جاتے ہیں۔ جب کسی گرفتار ملزم کو عدالت کے سامنے پیش کیا جائے تو تفتیشی افسر سے سوال پوچھا جائے کہ اس نے ملزم کو کن ثبوتوں کی بنا پر گرفتار کیا ہے۔ بغیر ثبوتوں کے گرفتاری کو بھی جرم تصور کیا جانا چاہیے تاکہ بے گناہوں کی گرفتاریاں رک سکیں۔

یہ بات خوش آیند ہے کہ چیف جسٹس پاکستان نے پاکستان کریمنل جسٹس سسٹم میں بنیادی خرابیوں پر توجہ دینی شروع کر دی ہے۔ مجھے امید ہے کہ اگر اس جانب درست اقدام اٹھائے جائیں تو ہمارا فوجداری نظام ٹھیک ہو سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔