- پشاور؛ بس سے 2 ہزار کلو سے زیادہ مضر صحت گوشت و دیگر اشیا برآمد
- وزیراعلیٰ پنجاب نے نوازشریف کسان کارڈ کی منظوری دے دی
- چائلڈ میرج اور تعلیم کا حق
- بلوچستان؛ ایف آئی اے کا کریک ڈاؤن، بڑی تعداد میں جعلی ادویات برآمد
- قومی ٹیم کی کپتانی! حتمی فیصلہ آج متوقع
- پی ایس 80 دادو کے ضمنی انتخاب میں پی پی امیدوار بلامقابلہ کامیاب
- کپتان کی تبدیلی کیلئے چیئرمین پی سی بی کی زیر صدارت اہم اجلاس
- پاکستان کو کم از کم 3 سال کا نیا آئی ایم ایف پروگرام درکار ہے، وزیر خزانہ
- پاک آئرلینڈ ٹی20 سیریز؛ شیڈول کا اعلان ہوگیا
- برج خلیفہ کے رہائشیوں کیلیے سحر و افطار کے 3 مختلف اوقات
- روس کا جنگی طیارہ سمندر میں گر کر تباہ
- ہفتے میں دو بار ورزش بے خوابی کے خطرات کم کرسکتی ہے، تحقیق
- آسٹریلیا کے انوکھے دوستوں کی جوڑی ٹوٹ گئی
- ملکی وے کہکشاں کے درمیان موجود بلیک ہول کی نئی تصویر جاری
- کپتان کی تبدیلی کے آثار مزید نمایاں ہونے لگے
- قیادت میں ممکنہ تبدیلی؛ بورڈ نے شاہین کو تاحال اعتماد میں نہیں لیا
- ایچ بی ایف سی کا چیلنجنگ معاشی ماحول میں ریکارڈ مالیاتی نتائج کا حصول
- اسپیشل عید ٹرینوں کے کرایوں میں کمی پر غور کر رہے ہیں، سی ای او ریلوے
- سول ایوی ایشن اتھارٹی سے 13ارب ٹیکس واجبات کی ریکوری
- سندھ میں 15 جیلوں کی مرمت کیلیے ایک ارب 30 کروڑ روپے کی منظوری
آواز اور ارتعاش سے چلنے والی روبوٹ چیونٹی
جارجیا: تھری ڈی پرنٹر کی مدد ایک دلچسپ روبوٹ بنالیا گیا ہے جو بہت ہی چھوٹا ہے اور اس کے نیچے ٹوتھ برش جیسے ریشے لگے ہیں۔ یہ روبوٹ کسی آواز، ارتعاش یا چھوٹے اسپیکر کی صدا پر آگے بڑھتا ہے۔
روبوٹ کی جسامت صرف دو ملی میٹر ہے یعنی دنیا کی چھوٹی ترین چیونٹی سے بھی چھوٹا ہے۔ اس کے پاؤں پیزوالیکٹرک (داب برق) ایکچوایٹرز ہیں جو تھرتھراہٹ سے سرگرم ہوتے ہیں اور روبوٹ کو آگے بڑھاتے ہیں۔ ایک سیکنڈ میں یہ اپنی جسامت سے چار گنا فاصلہ طے کرتا ہے۔
اس کے موجدین میں جارجیا انسٹی ٹیوٹ کی آزادے انصاری بھی شامل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم اس کی ٹیکنالوجی کو بہتر بنانے کی کوشش کررہے ہیں اور اس روبوٹ کو بہت سارے کاموں کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
ماہرین نے ٹو فوٹون پولیمرائزیشن لیتھوگرافی (ٹی پی پی) ٹیکنالوجی کے ذریعے عام پالیمر پر پیزوالیکٹرک ایکچوایٹر بنائے ہیں جو برش کے انتہائی باریک بالوں جیسے دکھائی دیتے ہیں۔ اب اس پر آواز کے ارتعاش اور تھرتھراہٹ ڈالی جائے تو یہ اس کی بدولت چلتا پھرتا ہے اور کسی بیٹری کے بغیر اپنا کام کرسکتا ہے۔
ارتعاش سے اسے کی لچکدار ٹانگیں اوپر اور نیچے حرکت کرتی ہیں اور مائیکروبوٹ چلتا ہے۔ ہر روبوٹ کو اس کے ارتعاش کی بنا پر تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ یوں اس کی رفتار اور کم اور زیادہ بھی کیا جاسکتا ہے۔ آزادے انصاری کے مطابق اس کے پیروں کو خاص زاویے سے موڑا گیا ہے اور یہ تھرتھراہٹ کے لحاظ سے اپنا رخ بدل سکتا ہے۔
ماہرین نے کہا ہے کہ مختصروقت میں ہزاروں روبوٹس بنائے جاسکتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اگر اس روبوٹ کو اپنی مرضی کا رخ دیا جاسکے تو اس سے بہت اہم کام لیے جاسکتے ہیں۔ ہر روبوٹ کا وزن صرف 5 ملی گرام ہے۔
آزادے انصاری اور ان کے ساتھیوں نے مائیکروبوٹ کے لیے ایک کھیلنے کا میدان بھی بنایا ہے جہاں بہت سے روبوٹ ایک دوسرے سے رابطہ کرتے نظر آتے ہیں۔ دوسری جانب وہ مائیکروبوٹس کو اچھلنے اور تیرنے کے قابل بھی بنارہے ہیں۔ لیکن ابھی یہ روبوٹ صرف تجربہ گاہ میں ہی اچھا کام دکھارہے اور بیرونی دنیا کے ماحول میں انہیں چلانا سب سے بڑا چیلنج ہوگا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔