پینگولن ، ایک نایاب، دلچسپ اور بے ضرر جانور

محمد اختر  اتوار 15 ستمبر 2013
حیرت انگیز خصوصیات کاحامل جاندار جسے پاکستان میں ’’بلا‘‘ قرار دے کر مار دیا جاتا ہے۔ فوٹو: فائل

حیرت انگیز خصوصیات کاحامل جاندار جسے پاکستان میں ’’بلا‘‘ قرار دے کر مار دیا جاتا ہے۔ فوٹو: فائل

چند ماہ قبل اخبارات میں ایک خبر اور تصویر شائع ہوئی جو حیران کن بھی تھی اور دلچسپ بھی۔خبر کچھ یوں تھی:

’’سندھ میں لوگوں نے ایک خطرناک بلا کو ہلاک کردیا ۔‘‘

خبر کے مطابق ایک شہری کے گھر سے ایک ’’خوفناک بلا‘‘ برآمد ہوئی جسے لوگوں نے اینٹیں مار مار کر ہلاک کردیا۔خبرکے ساتھ اس ’’بلا‘‘ کی تصاویر شائع ہوئی تھیں جبکہ دوسری تصویر میں ایک مولوی بلا کو ٹانگوں سے پکڑ کر کھینچتا ہوا لے جارہا تھا اور تصویر کے نیچے لکھا تھا کہ ’’بلا کی لاش کو تھانے لے جانے کے لیے رکشے میں ڈالا جارہا ہے۔‘‘

خبر اور تصاویر مضحکہ خیز تھیں۔حیرت اور افسوس کا امر یہ ہے کہ جس شے کو ’’بلا‘‘ کہا جارہا تھا ، وہ ایک نایاب نسل کا جانور ’’پینگولن‘‘ ہے جو ایک بے ضرر اور معصوم جانور ہے اور محض کیڑے مکوڑے اور جڑی بوٹیاں کھاتا ہے۔ اپنی ساخت اور عادات کے اعتبار سے یہ جانور قدرت کی تخلیق کا شاندار اور دلچسپ شاہکار ہے جس کو ان جانوروں کی فہرست میں شامل کیا جاتا ہے جن کی نسل خطرے میں ہے۔لیکن پاکستان میںلوگ اپنی لاعلمی کی وجہ سے اس نایاب جانور کو بلا سمجھ کر ہلاک کردیتے ہیں۔ یہ اس قسم کا پہلا واقعہ نہیں ۔ اس سے قبل بھی پاکستان کے کئی شہروں میں اس ’’بلا‘‘ کو ہلاک کرنے کے واقعات اخبارات کی زینت بن چکے ہیں۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ آج جب گھر گھر میں ’’نیشنل جیوگرافک‘‘ ، ’’اینیمل پلینٹ‘‘ اور ’’ڈسکوری‘‘ جیسے چینل چوبیس گھنٹے چل رہے ہیں جن میں دنیا بھر کے جانوروں اور دیگر جانداروں کے بارے میں دلچسپ معلومات فراہم کی جاتی ہیں اور ان کی نسل کو بچانے کی اہمیت اجاگر کی جاتی ہے، وہیں پاکستان کے عام لوگوں میں جہالت اس قدر سرایت کی ہوئی ہے کہ وہ عدم آگاہی کے اس قسم کے مضحکہ خیز مظاہرے کررہے ہیں۔سندھ میں لوگوں نے اسی نایاب نسل کے جانور پینگولن کو ہلاک کردیا تھا۔حالانکہ اگر عوام میں زرا سی بھی آگاہی ہوتی تو اس جانور کو زندہ پکڑ کر کسی تحقیقی ادارے یا چڑیا گھر کے حوالے کیا جاسکتا تھا۔پینگولن کیا ہے اور کہاں کہاں پایا جاتا ہے، آئیے ذیل میں آپ کو اس کے بارے میں کچھ معلومات دیتے ہیں جس سے آپ کو پتہ چلے گا کہ یہ کس قدر نایاب خصوصیات کا حامل ہے اور کس طرح اس کی نسل خطرے میں ہے:

پینگولن (اس کو ’’چیونٹی خورا‘‘ اور ٹرینگیلنگ بھی کہا جاتا ہے) فولی ڈوٹا سلسلے کا ایک ممالیہ جانور ہے ۔اس کا تعلق جانوروں کے خاندان ’’مانی ڈائی‘‘ سے ہے جس میں آٹھ قسم کی نسلیں پائی جاتی ہیں۔اس کی کئی قسمیں ایسی بھی ہیں جو کرئہ ارض سے مکمل طورپر ختم ہوچکی ہیں۔ پینگولن ایک ایسا جانور ہے جس کے جسم پر بڑے بڑے سخت چھلکے ہوتے ہیں اور یہ اس قسم کے چھلکے رکھنے والا واحد ممالیہ جانور ہے۔پینگولن عام طورپر افریقہ اور ایشیا کے استوائی خطوں میں پایا جاتا ہے۔اس کا نام اسے مالے کے لفظ ’’پینگولنگ ‘‘ سے ملا ہے جس کا مطلب ہے کوئی ایسی چیز جو اپنے آپ کو لپیٹ سکتی ہے۔

جسمانی طور پر پینگولن کی شکل ایسی ہوتی ہے جیسے کسی بہت بڑے نیولے کے جسم پر بڑے بڑے سخت چھلکے نکل آئے ہوں۔ پینگولن جب پیدا ہوتا ہے تواس کے جسم پر یہ چھلکے بہت نرم ہوتے ہیں لیکن بڑا ہونے پر یہ پتھر کی طرح سخت ہوجاتے ہیں ۔یہ چھلکے ایک مادے ‘‘کیراٹن‘‘ سے بنے ہوتے ہیں۔ یہ وہی مادہ ہے جس سے ہماری انگلیوں کے ناخن بنتے ہیں۔ اس کے جسم پر موجود چھلکے بے وجہ نہیں ہوتے بلکہ یہ اس کی حفاظت کرتے ہیں۔خطرہ محسوس ہونے پر یہ جانور اپنے جسم کو لپیٹ کر ایک گولا سا بن جاتا ہے جس کے اوپر اس کے پتھریلے چھلکوں کے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔یہ چھلکے ایک دوسرے سے اس طرح منسلک ہوجاتے ہیں کہ یوں لگتا ہے کہ اس کا جسم زرہ بکتر میں چھپ گیا ہو۔یہ چھلکے تیز دھار بھی ہوتے ہیں اور یوں اضافی دفاع کا کام کرتے ہیں۔اگر پینگولن کا سامنا کسی گوشت خور شکاری جانور سے ہو اوروہ فرارکی پوزیشن میں نہ ہو تو وہ فوری طور پر خود کو ’’پتھر کے گولے‘‘ میں تبدیل کرلیتا ہے اور یوں اپنی جان بچانے کی کوشش کرتا ہے۔

پینگولن کے اگلے پائوں خاصے لمبے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے چلنے کے لیے یہ زیادہ استعمال نہیں ہوتے۔چلنے کے لیے یہ زیادہ تر پچھلے پائوں استعمال کرتا ہے۔مجموعی طورپر اس کے پیر چھوٹے ہوتے ہیں جن کے پنجوں میں تیزدھار ناخن ہوتے ہیں۔ ان ناخنوں کے ذریعے یہ زمین کو کھودتے ہیں اور ان میں سے کیڑے مکوڑے اور چیونٹیاں نکالتے ہیں۔اس کی زبان خاصی لمبی اور پتلی ہوتی ہے جو اس کے پیٹ میں معدے تک جاتی ہے۔ بڑے پینگولن تو سولہ انچ تک اپنی زبان کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔ اس طریقے سے یہ دور سے ہی کیڑے مکوڑوں کو پکڑ لیتے ہیں۔

پینگولن کی انوکھی خصوصیات:

پینگولن ایک nocturnal جانور ہے۔ بائیولوجی کی اصطلاح میں یہ ایسے جانوروں کو کہا جاتا ہے جو عام طور پر رات کو ہی باہر نکلتے ہیں اور اپنی خوراک تلاش کرتے ہیں۔چمگادڑ بھی اس کی ایک مثال ہے۔ان کی سونگھنے کی حس بہت تیز ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہ رات کے وقت بھی پتہ چلالیتے ہیں کہ کیڑے مکوڑے کہاں پر ہیں۔بعض پینگولن، جیسے لمبی دم والے پینگولن ہیں ، یہ دن کو بھی متحرک ہوسکتے ہیں تاہم ان کی زیادہ تر اقسام دن کو اپنے بلوں میں گولا بن کر آرام کرتی ہے اور رات کو ہی باہر نکلنا پسند کرتی ہے۔

اس انوکھے جانور کی کچھ اقسام کھوکھلے درختوں میں بھی رہتی ہیں جبکہ زمین پر رہنے والی اقسام خرگوشوں کی طرح زمین میں سرنگیں کھود کر رہنا پسند کرتی ہے جن کی گہرائی ساڑھے تین میٹر تک ہوسکتی ہے۔پینگولن اچھے تیراک بھی ہوتے ہیں اور پانی سے کوئی خطرہ محسوس نہیں کرتے۔ ان کے بارے میں ایک اور دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ان کے منہ میں دانت نہیں ہوتے اور نہ ہی یہ چبانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس کے بجائے یہ زمین کو کھود کر یا حشرات کے بلوں میں اپنی لمبی زبان ڈال کر ان کیڑوں مکوڑوں کو وہیں سے اچک لیتے ہیں اور سیدھے اپنے پیٹ میں لے جاتے ہیں۔پینگولن کے سینے پر مخصوص غدود ہوتے ہیں جن سے ایک لیس دار مادہ نکلتا ہے۔ یہ اس لیس دار مادے کو وقفے وقفے سے اپنی زبان پر لگاتے ہیں جس سے کیڑ ے اور چیونٹیاں وغیرہ ان کی زبان سے چپک جاتے ہیں۔

پینگولن کی کچھ اقسام ، جیسے درختوں پررہنے والے پینگولن ، کی دم بہت مضبوط اور لچک دار ہوتی ہے اور ان کے ذریعے یہ درختوں کی شاخوں سے لٹک جاتے ہیں اور ایک شاخ سے دوسری شاخ پر جانے کے لیے اپنے ہاتھ پیروں کے ساتھ ساتھ دم کو بھی برابر استعمال کرتے ہیں۔ یہاں پر یہ درختوں کے سوراخوں میں موجود کیڑے مکوڑوں کو اپنی خوراک بناتے ہیں۔

ان جانوروں میں حمل چار سے پانچ ماہ تک چلتا ہے ۔ افریقی مادہ پینگولن عام طور پر ایک ہی بچے کو جنم دیتی ہے جبکہ ان کی ایشیائی نسل ایک وقت میں ایک سے لیکر تین تک بچے دے سکتی ہے۔ پیدائش کے وقت بچے کا وزن اسی گرام سے لیکر چار سو پچاس گرام تک ہوسکتا ہے جبکہ ان کے چھلکے ابتدا میں بہت نرم ہوتے ہیں۔چھوٹے بچے اپنی ماں کی دم کے ساتھ لٹک جاتے ہیں جبکہ ان کی بلوں میں رہنے والی اقسام میں بچے ایک سے چار ہفتے تک بل میں ہی رہتے ہیں۔لگ بھگ دوسال تک بچے جنسی لحاظ سے بالغ ہوجاتے ہیں۔

پینگولن کو درپیش خطرات:

پینگولن کی نسل شدید خطرات سے دوچار ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔افریقہ کے مختلف حصوں میں پینگولن کو شکار کیا جاتا اور کھایا جاتا ہے اور ان کاگوشت بہت سے لوگوں کے لیے مرغوب ہوتا ہے۔ چین کے بہت سے علاقوں میں اس کی بہت مانگ ہے کیونکہ وہاں پر اس کا گوشت بہت لذیذ اور مقوی سمجھا جاتا ہے جبکہ بہت سے چینی پینگولن کے چھلکوں کو دوا کے طور پر بھی استعمال کرتے ہیں۔اس کے علاوہ جنگلات کے ختم ہونے کی وجہ سے بھی ان کی نسل ختم ہورہی ہے بالخصوص بڑے پینگولن تو تیزی سے ناپید ہورہے ہیں۔نومبر 2010 میں پینگولن کو زولوجیکل سوسائٹی آف لندن کی اس فہرست میں شامل کیا گیا جو ان جانوروں پر مشتمل ہے جن کی نسل جینیاتی طورپر بہت انوکھی ہے اور وہ خطرے سے دوچار ممالیہ جانوروں میں سے ایک ہیں۔

ظالمانہ سلوک:

اگرچہ پینگولن کی نسل کو بچانے کے لیے اس کی بین الاقوامی تجارت پر پابندی ہے لیکن اس کے باوجود ان کی غیرقانونی تجارت جاری ہے کیونکہ ایشیا کے کئی ملکوں میں اس کے گوشت اور چھلکوں کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ یہ اعصابی قوت بڑھاتے ہیں اور کینسر یا دمہ کے علاج میں موثر ہیں۔ماضی میں کئی واقعات میں غیرقانونی سمگلنگ کی زد میں آنے والے پینگولن اور ان کے گوشت کو قبضے میں لیا جاجکا ہے۔2013 میں ایک واقعے میں پینگولن کے دس ہزار کلوگرام گوشت سے لدی ایک چینی کشتی کو قبضے میں لیا گیا تھا جو کہ فلپائن سے آرہی تھی۔

برطانوی اخبار گارڈین نے ایک چینی سائنسی رسالے کی وساطت سے ایک چینی شیف کا انٹرویو شائع کیا جس نے بتایا کہ پینگولن کو کس طرح ہلاک کرکے پکایا اور کھایا جاتا ہے۔گوانگ ڈونگ سے تعلق رکھنے والے اس شیف نے بتایا کہ جانور کو زندہ حالت میں پنجروں میں رکھا جاتا ہے یہاں تک کہ گاہک کی جانب سے آرڈر موصول ہوتا ہے۔آرڈر موصول ہونے کے بعد ہتھوڑے سے پینگولن کو بے ہوش کیا جاتا ہے اور اس کے بعد گلا کاٹ کر خون نکالا جاتا ہے۔ جانور کو آہستہ آہستہ مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اسے ابالا جاتا ہے اور اس کے چھلکے اتارے جاتے ہیں۔پھر اس کے گوشت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے مختلف ڈشیں تیار کی جاتی ہیں۔اس کے بچوں کو تو سالم پکایا جاتا ہے۔عام طور گاہک اس کا خون تک ساتھ لے جاتے ہیں۔

’’پراجیکٹ پینگولن ‘‘

رشجا کوٹا لارسن کہتے ہیں کہ بہت سے لوگ پینگولن کے بارے میں نہیں جانتے۔ وہ ایک تنظیم پراجیکٹ پینگولن کے بانی اور ڈائریکٹر ہیں جو اس انوکھے جانور کی نسل کو بچانے کے لیے کوشاں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ بہت شرمیلا اور صرف رات کو نکلنے والا جانور ہے۔یہ بہت کم دکھائی دیتے ہیں۔سائنس دان اعتراف کرتے ہیں کہ وہ لوگوں کو اس جانور سے متعارف کرانے میں ناکام رہے ہیں۔اس کی زمہ دار حکومتیں اور این جی اوز بھی ہیں۔

نیپال میں چینی پینگولن پر سٹڈی کرنے والی امبیکا کھاٹی واڑا کا کہنا تھا کہ جانوروں کو بچانے کے لیے زیادہ توجہ بڑے ممالیہ جانوروں جیسے ہاتھیوں اور گینڈوں پر دی جاتی ہے اور چھوٹے ممالیہ جانوروں اور مشکل سے دکھائی دینے والے پینگولن جیسے جانوروں کو نظرانداز کردیا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس جانور کی نسل تیزی سے ناپید ہورہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔