لاہور میں لاوارث لاشوں کی تدفین مسئلہ بن گئی

نعمان شیخ  پير 22 جولائی 2019
بچہ بستر پر اچھل کود کر رہا تھا کہ پستول پر اس کا پاؤں پڑا جس سے گولی چل گئی فوٹو:فائل

بچہ بستر پر اچھل کود کر رہا تھا کہ پستول پر اس کا پاؤں پڑا جس سے گولی چل گئی فوٹو:فائل

 لاہور: پولیس کے لیے شہر سے ملنے والی لاوارث لاشوں کی شہر خموشاں میں تدفین مسئلہ بن گئی ہے۔

لاہور میں ایدھی ٹرسٹ کے ترجمان یونس بھٹی نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ شہر کے مختلف علاقوں سے روزانہ 3 سے 4 لاوارث لاشیں ملتی ہیں جن میں سے 90 فیصد ایسے افراد ہوتے ہیں جن کی موت کی وجہ نشے کی زیادتی اور علاج کا نا ہونا ہوتا ہے۔ 9 ماہ قبل تک سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا ڈی سی کے حکم پر متعلقہ علاقے کی پولیس کی جانب سے جب ایدھی سینٹر پر کال موصول ہوتی تو ایدھی ٹرسٹ اس لاش کو کفن فراہم کرکے ڈیڈ ہاؤس منتقل کردیتا اور اس کے بعد اس کی تدفین شہر خموشاں میں کردی جاتی لیکن اب شہر خموشاں کی جانب سے لاوارث لاشیں لینے سے ایک بڑا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے اب ایدھی ٹرسٹ میانی صاحب قبرستان کے لاوارث لاشوں کے لیے مختص حصہ ” احاطہ لاوارثاں ” میں تدفین کی کوشش کرتا ہے لیکن جگہ کی کمی کی وجہ سے لاشوں کی تدفین شہر کے باہر قبرستان میں کرنا پڑ رہی ہے۔

یونس بھٹی کا کہنا ہے کہ ایدھی ریکارڈ کے مطابق گزشتہ 6 ماہ کے دوران شہر میں ہنجروال، سول لائنز ، موچی گیٹ ، کوتوالی ، شیرا کوٹ ، نواں کوٹ ، لٹن روڈ، نولکھا ، لاری اڈہ ، بھاٹی ، داتا دربار ، ٹبی سٹی ، شاہدرہ ، شاہدرہ ٹاون ، مصری شاہ اور گڑھی شاہو سے 206 لاشیں ملیں ہیں۔ ان لاشوں کو ابتدائی طور پر بطور امانت ڈیڈ ہاؤس میں 7 روز کے لیے رکھوایا جاتا ہے جس کے بعد تعفن پھیلنے کا خدشہ ہوتا ہے اور ان کی تدفین ضروری ہوجاتی ہے۔

ایس ایس پی آپریشنز اسماعیل الرحمان کھاڑک نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ جب مقامی پولیس کو کسی لاوارث لاش کی اطلاع موصول ہوتی ہے تو متعلقہ تھانے کا ایک پولیس آفیسر اس لاش کو اپنی نگرانی میں ڈیڈ ہاوس تک منتقل اور تدفین کروانے کا پابند ہوتا ہے۔ پولیس کی جانب سے مختلف اخبارات میں لاش کی تصویر کے ساتھ اشتہار بھی دیا جاتا ہے جس کو “شوروغوغا ” کہا جاتا ہے۔ ڈیڈ ہاؤس کی منتقلی کے سات دن کے اندر اگر کوئی لاش کا وارث آجائے تو قانونی کاروائی کے بعد لاش اس کے حوالہ کردی جاتی ہے۔ اگر کوئی نا آئے تو پوسٹ ماٹم کے بعد لاش کی تدفین کردی جاتی ہے۔

اسماعیل کھاڑک کے مطابق شہر خموشاں کی انتظامیہ سے درخواست کی جارہی ہے جس کے بعد امید ہے کہ انہیں تدفین کی اجازت مل جائے گی۔ ایک مقامی ایس ایچ او نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ جب کسی بھی علاقے سے پولیس کو کوئی لاوارث لاش ملتی ہے تو اس کے لیے اخبار میں اشتہار لگوانے سے تدفین تک قریب 5 سے 6 ہزار روپے تک خرچ آتا ہے جو پولیس کو اپنی جیب سے کرنا پڑتا ہے اور پنجاب پولیس کی جانب سے اس کارخیر کے لیے کسی طرح کا بجٹ مختص نہیں۔ مقامی قبرستان انتظامیہ سے جب لاش کی تدفین کی اجازت مانگی جاتی ہے تو وہ جگہ کی قلت کے باعث انکار کرکے کہہ دیتے ہیں کہ یہ قبرستان مقامی افراد کے لیے مختص ہے۔

سابق سربراہ اسپیشل مانیٹرگ یونٹ سلمان صوفی نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ انہوں ماضی میں باقائدہ شہر خموشاں اتھارٹی قائم کی تھی جس کو ایک بورڈ چلاتا تھا ۔ شہر خموشاں میں لاوارث لاشوں کے لیے ایک بلاک مختص کیا گیا تھا لیکن تبدیلی سرکار کے بعد اس بورڈ کو ختم کردیا گیا اور ابھی تک کسی کو شہر خموشاں کی اتھارٹی کا سربراہ مقرر نہیں کیا گیا جس وجہ سے تمام تر مشکلات پیش آرہی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔