امید وبیم کے درمیاں

مقتدا منصور  اتوار 15 ستمبر 2013
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

مجھے اپنی کج فہمی اورکوتاہ اندیشی کا اعتراف کرلینا چاہیے۔یہ میری کمزوری ہے یا رجائیت پسندی کہ میں اکثر معمولی سے مظاہر پراس خوش فہمی میں مبتلاہو جاتا ہوں کہ شاید میری خواہشات خبر بننے جارہی ہیں۔میں سمجھنے لگتاہوں کہ میرے اطراف بہت کچھ میری اپنی زندگی میں تبدیل ہورہاہے۔11مئی کے انتخابات،اقتدار کی منتقلی اور ایوان صد ر میں ایک صدر کی جگہ دوسرے صدر کی آمد نے مجھے مسرور کردیااورمیں سمجھ بیٹھاکہ ملک میںجمہوریت کی جڑیں مضبوط ہورہی ہیں۔مگرمیںیہ بھول گیا کہ فیوڈل کلچر کی زنجیروں میںبری طرح جکڑے کسی معاشرے میں تبدیلیاں اتنی آسانی سے ممکن نہیںہوتیں۔

ایک ایسا معاشرہ جہاں فکری کثرتیت کے لیے کوئی گنجائش نہ ہو۔جہاں خلقِ خداکا خون بہانا معمولی سی بات ہو۔ جہاں قانون،عدلیہ اور عدالتی فیصلوں کی کوئی اہمیت نہ ہو۔جہاں اور امیر اور غریب کے لیے قانون کی الگ الگ تشریحات ہوں ۔جہاں بااثر دولت مندگھرانوں کے چشم وچراغ سنگین سے سنگین جرم کریں تو بھی معصوم ٹہریں۔ ان کے نوجوان اپنے جرائم پر شرمندہ ہونے کے بجائے ان پر فخر کریں۔ جہاں بڑے بڑے بااثر سردار اور جاگیردارمقتول کے ورثاء پر قاتلوں کی معافی کے لیے ہر طرح کا سیاسی،سماجی اور معاشی دبائو ڈالیں اور اسے جائز سمجھیں۔ایک صوبے کی حکومت،جو خودکو جمہوریت کا چیمپئن سمجھتی ہواوریہ جانتے ہوئے کہ قاتلوںپر جرم ثابت ہوچکاہے، محض سیاسی وابستگی کی بنیادپران کی سزامعاف کرانے کے لیے ایوان صدر سمری بھیجے،تو اس سے بڑی ڈھٹائی، بے شرمی اور بے حیائی کی کوئی اور مثال نہیں ہوسکتی۔ ایسے معاشروں میں جمہوریت اور جمہوری اقدار بھی ایک مذاق سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں۔

اس میں شک نہیں کہ اقتدار کے ایوانوں میں ہونے والی پرامن تبدیلیاں سیاسی میدان میںبہرحال ایک سمت کا تعین کررہی ہیں۔ مگرپاکستان کو ایک مہذب اور شائستہ ملک بنانے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ قانون کی حاکمیت ،عدالتی فیصلوں کا احترام اور سماج کے تمام طبقات کے لیے سزاو جزاکا یکساں نظام جمہوری کلچر کے استحکام کی جانب مراجعت کی پہلی سیڑھی ہے۔لیکن حکومتوں کی تبدیلی کے باوجود ذہن میں کسی قسم کی تبدیلی نظر نہیں آرہی۔فکری رویوں پر آج بھی فرسودگی کے جالے لگے ہوئے ہیں،جنھیں نہ اتارنے کی خواہش ہے اور نہ ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔یہی سبب ہے کہ ایک طرف بااثرسیاسی وسماجی شخصیات اور حلقوں نے ملکی قانون کو تماشہ بنارکھاہے، تو دوسری طرف خود ریاست بھی آئین و قانون کی دھجیاں بکھیرنے پر تلی ہوئی ہے۔غلط حکومتی فیصلوں اور اقدامات کی کئی مثالیں ہمارے سامنے ہیں،جو ایک طرف نااہلی اور دوسری طرف عزم کی کمی کو ظاہر کرتی ہیں۔

شاہ زیب قتل کیس میں بااثر سرداروں اور جاگیرداروں سمیت سندھ حکومت کا کردار بھی سامنے آگیا۔یہ بات بھی سامنے آگئی کہ غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والا فرد خواہ پولیس افسر ہی کیوں نہ ہو وہ ان بااثر ہستیوں کے آگے بے بس ولاچار ہوتا ہے۔ کہیں دبائو اور کہیں دولت کی چمک لخت جگر کے خون سے بیوفائی پر مجبورکردیتی ہے۔ یوں ہر حال میں فائدہ دولت مندوں اور بااثر لوگوں اور ان کے اہل خانہ ہی کو پہنچتا ہے۔ یعنی چھری خربوزے پر گرے یا خربوزہ چھری پر، دونوں صورتوں میں کٹتا خربوزہ ہی ہے۔لہٰذا جب تک ملکی قوانین میں بنیادی نوعیت تبدیلیاں نہیںلائی جاتیں اور امیروں اور غریبوں کے لیے تفریق کا ماحول ختم نہیں ہوتا، اسی طرح ہر شاہ زیب قتل ہوتا رہے گا اورہر شاہ رخ سزا ملنے کے باوجود انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ چھوٹتا رہے گا۔

دوسرا مسئلہ کراچی کو بھتہ خوری،اغواء برائے تاوان اور اسٹریٹ کرائم سے نجات دلانے کے لیے کیا جانے والا ٹارگٹڈآپریشن ہے۔وزیر اعظم نے دو دن کراچی میں لگائے،سیاسی جماعتوں سمیت مختلف شراکت داروں سے مشاورت کی اور فیصلہ کیاکہ یہ ٹارگٹڈ آپریشن رینجرز کی مددسے کیا جائے گا اور پولیس تعاون کرے گی۔4 ستمبرکی صبح سینئر صحافیوں اور تجزیہ نگاروں کے ساتھ ہونے والی نشست میں راقم نے اس آپریشن پر اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اپنے شکوک وشبہات کا اظہارکیا تھا۔راقم کاموقف تھا کہ رینجرز گزشتہ دودہائیوں سے کراچی میں تعینات ہیں، مگر وہ امن وامان کی صورتحال کو کنٹرول میں ناکام رہی ہیں۔اس کے علاوہ رینجرزکومزید اختیارات دینے سے مختلف نوعیت کی کئی قانونی پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں،جس کے انتہائی منفی نتائج نکل سکتے ہیں،اس لیے امن وامان قائم کرنے کی ذمے داری رینجرز کے حوالے نہ کی جائے۔مگرچونکہ بالاہی بالاکچھ فیصلے ہوچکے تھے، اس لیے وفاقی کابینہ نے رینجرز کو آپریشن کااختیار دیدیا ۔

دنیا بھر میںشہریوں کو تحفظ فراہم کرنا، امن وامان کی صورتحال کو کنٹرول کرنا اورقانون کا نفاذ پولیس کی بنیادی ذمے داری ہوتی ہے۔ لیکن پاکستان میں پولیس کو صرف حکمران طبقات کے مفادات کی نگہبان تک محدود کردیاگیا ہے۔ سیاسی بنیادوں پر ہونے والی تقرریوںکے باعث معاشرے میں قانون کے نفاذاورامن وامان قائم کرنے والا یہ ادارہ مکمل طور پر Politicisedہوچکا ہے۔جس کی وجہ سے اس کی Integrityمجروح ہوچکی ہے اور عوام کا اعتماد اس پر سے اٹھ چکاہے۔سندھ میں صورتحال مزید ابترہے۔جہاں پولیس اپنی مخصوص سیاسی وفاداریوں کے سبب صوبے میںامن وامان قائم کرنے اور جرائم کی شرح میں کمی کے بجائے ان میں اضافے کا سبب بنی ہوئی ہے۔اس صوبے کے شہری کافی عرصے سے مسلسل اس شک کا اظہارکررہے ہیں کہ کراچی میں ہونے والی بھتہ خوری ،اغواء برائے تاوان اور ٹارگٹ کلنگ میں پولیس کے اہلکار یاتوبراہ راست ملوث ہیں یا جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کرتے ہیں۔اس لیے یہ محکمہ غیر جانبدارانہ آپریشن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بناہوا ہے۔ لہٰذا موجودہ حالات میں جب کہ پولیس مکمل طورپر کرپٹ اور Politicised ہوچکی ہے، کسی بھی کارروائی کے مطلوبہ نتائج ممکن نہیں ہیں۔یہی سبب ہے کہ پولیس سے بہتری کی اس وقت تک توقع نہیں کی جاسکتی، جب تک کہ اس محکمے میں تطہیر اور اصلاحات نہ کی جائیں۔

اس سلسلے میںایم کیو ایم کے ندیم ہاشمی کی گرفتاری وزیر اعظم اور وفاقی کابینہ کے لیے ایک ٹیسٹ کیس بن گیا ہے۔ان کی گرفتاری اور دیگر عناصر کونظراندازکیے جانے سے مختلف سوالات جنم لے رہے ہیں۔ وہ پولیس جس کا مخبری نظام اتنا کمزور ہے کہ اس کے اعلیٰ افسران کو یہ علم تو نہیں ہوسکا کہ پیپلزامن کمیٹی کے اہم رہنماء کئی ماہ قبل ملک چھوڑ کر جاچکے ہیں،جب کہ پولیس موبائل پر حملے کے دوگھنٹے کے اندر پولیس اس نتیجے پر پہنچ جاتی ہے کہ اس پر حملہ ایک سابق رکن سندھ اسمبلی نے کیاتھا۔ ان پر قتل عمد سمیت دہشت گردی کی کئی تعزیری دفعات لگادی جاتی ہیں ۔جب کہ اس کے برعکس محض خانہ پری کے لیے پیپلز امن کمیٹی کے سربراہ کے گھر چھاپا مارا جاتاہے،تاکہ یہ تاثردیا جاسکے کہ پولیس اور رینجرز تمام علاقوںاور تمام جماعتوں کے خلاف کارروائی کررہی ہے۔یہی سبب ہے کہ اس قسم کی کارروائیاں اور رویے ٹارگٹڈ آپریشن کی غیر جانبداری کو مجروح کرنے کے علاوہ لسانی عصبیتوں کو بڑھاوا دینے کا سبب بن رہے ہیں۔

دوسری بات جسے وزیر اعظم سمیت پوری وفاقی کابینہ کو سمجھنا چاہیے،وہ یہ کہ سندھ میں انتخابی مینڈیٹ بہر حال منقسم ہے۔ اگر وفاقی حکومت پیپلز پارٹی کے مینڈیٹ کو تسلیم کرتے ہوئے اس کا احترام کرتی ہے تو اسے سندھ کے شہری علاقوں کے مینڈیٹ کو بھی تسلیم کرنا چاہیے۔ اہم مسئلہ یہ ہے کہ سندھ کے شہری علاقوں کی نمایندہ جماعت کو ہمیشہ طعن وتشعن کا نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی، جو صرف اس جماعت پرہی نہیںبلکہ اسے ووٹ دینے والے شہریوں کے حق نمایندگی پر حملہ ہوتا ہے۔ اس لیے یہاں یہ کہنا بے جانہ ہوگا کہ وقت اور حالات نے ثابت کیاہے کہ کراچی کے مسائل کا حل سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں سے منتخب ہونے والی جماعتیں اپنے سیاسی عزم کے ذریعے نکال سکتی ہیں۔جب کہ وفاق کی مداخلت ہمیشہ نئے مسائل کو جنم دینے کا سبب بنی ہے۔کراچی کے مسئلے کا اس شہر کی نمایندہ جماعت کی نمایندہ حیثیت کا تسلیم کیے جانے کے علاوہ مقامی حکومتی نظام کانفاذ ہے۔تاکہ شہر میںجدیدتربیت یافتہ میٹروپولیٹن پولیس تعینات کی جاسکے۔

کراچی میں ہونے والے آپریشن اور شاہ زیب کے والد ین کی جانب سے سزا یافتہ مجرموں کو معاف کردینے کے عمل نے ذہن میں ان گنت ابہام پیدا کردیے ہیں۔اگر شاہ زیب کے قاتل بغیر سزا چھوٹ جاتے ہیں،تو اس ملک میں درندگی کا ایسا رقص بسمل ہوگا کہ دنیا دیکھے گی۔ کسی بھی شہری کی نہ عزت وآبرو محفوظ رہ سکے گی اورنہ زندگی کو ضمانت دی جاسکے گی۔بلکہ عام آدمی کی زندگی بااثر دولتمندوں کے رحم و کرم پر رہ جائے گی۔اسی طرح کراچی میںہونے والے ٹارگٹڈ آپریشن اگر غیر جانبدارانہ نہیںہوسکااوروفاقی حکومت مصلحت کوشیوں کا شکار ہو گئی، تو جرائم پیشہ افراد کا حوصلہ اس قدر بلند ہوجائے گا کہ پھر کسی کو کہیں بھی اماں نہیں مل سکے گی۔ اس لیے عقل وخرد کا تقاضہ ہے کہ وفاقی حکومت آپریشن کے عمل کوپوری طرح مانیٹر کرے تاکہ اس میں سیاسی مداخلت کا سلسلہ ختم ہوجائے۔اسے یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ صوبائی حکومت کہیں شہری سندھ کی نمایندہ جماعت کے ساتھ انتقامی کارروائی تو نہیں کررہی۔یہ طے ہے کہ اگر چھوٹی چھوٹی شکایات پر توجہ نہ دی گئی تو معاملات ہاتھ سے نکل سکتے ہیں ۔یوںآج کراچی سمیت سندھ کا ہر شہری امیدو بیم کی عجیب کیفیت کا شکار ہے۔ جس سے نکلنا ضروری ہے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔