آصف زرداری کی عظمت

زمرد نقوی  اتوار 15 ستمبر 2013

وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان کی 66 سالہ تاریخ میں صدر آصف علی زرداری پہلے منتخب جمہوری صدر ہیں جو اپنا آئینی عہدہ مکمل کر کے ایک باوقار انداز میں رخصت ہو رہے ہیں۔ ان کا یہ اعزاز ہمیشہ کے لیے تاریخ کا حصہ بن گیا ہے۔ جمہوری صدر کو الوداع کہنا میرے لیے باعث فخر و سعادت ہے۔ صدر زرداری نے مفاہمت کے نظریے کو متعارف کرایا اور کامیابی سے پروان چڑھایا۔ وزیر اعظم ہاؤس میں صدر آصف زرداری کے اعزاز میں الوداعی ظہرانے سے خطاب کرتے ہوئے میاں محمد نواز شریف نے کہا کہ اس وقت میرے دل میں صرف شیریں یادوں کی خوشبو ہے۔ میں اسی خوشبو کے ساتھ جناب صدر کو الوداع کہنا چاہتا ہوں۔ مجھے قیام جدہ کا وہ دن کبھی نہیں بھولے گا جب آصف زرداری بینظیر بھٹو کے ہمراہ مجھے ملنے آئے تھے۔

اس ملاقات کے دوران آصف زرداری کی گرم جوشی سے واضح ہو رہا تھا کہ وہ اس سماجی تعلق کو مستقبل کی سیاست کا ایک اہم موڑ بنانا چاہتے تھے جو میرے لیے ایک خوشگوار حیرت کا باعث تھا۔ میں آج بھی محسوس کرتا ہوں کہ آصف زرداری اور محترمہ بینظیر بھٹو نے ماضی کی ساری تلخیوں اور سیاسی رنجشوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے رابطوں میں جو پہل کی اس نے نہ صرف ہم دونوں کے درمیان خیرسگالی اور باہمی تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز کیا بلکہ مستقبل کی سیاست پر بھی اس کے مثبت اثرات مرتب ہوئے قیام لندن کے دوران متعدد ملاقاتوں کے منظر میری آنکھوں کے سامنے گھومتے رہتے ہیں۔ بے حد خوشگوار یادوں میں 14 مئی 2006 کا وہ یادگار دن بھی شامل ہے جب چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط ہوئے تھے۔ مجھے وہ دن بھی نہیں بھولتا جب 2008 کے انتخابات کے بعد زرداری صاحب مری میں میرے گھر تشریف لائے۔ ان کی جماعت کو انتخابی فتح حاصل ہوئی تھی اور وہ وفاق میں حکومت بنانے جا رہے تھے۔

میں نے دل کی گہرائیوں سے انھیں مبارک باد دی۔ ہماری جماعت نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہم حکومت میں شمولیت یا کوئی وزارت لیے بغیر پیپلز پارٹی کی حکومت کا ساتھ دینگے۔ میں نے آصف زرداری کو اس فیصلے سے آگاہ کیا لیکن آپ اس وقت اٹھے جب اپنی بات منوا لی۔ مجھے کھلے دل سے ماننا چاہیے کہ زرداری صاحب نے سیاست میں گرمجوشی، ذاتی تعلق، اپنائیت اور سماجی رشتوں کو نہایت عمدگی سے رواج دیا۔ یہ امر پوری قوم کے لیے بھی یقینا اطمینان کا باعث ہو گا کہ آج ایک نئی روشن تاریخ رقم ہو رہی ہے۔ آصف زرداری کے عہد میں ہونے والی تمام ترامیم اتفاق رائے سے ہوئیں۔ اٹھارہویں ترمیم ہوئی جس کے تحت وہ تمام صدارتی اختیارات وزیر اعظم اور پارلیمنٹ کو واپس چلے گئے جنھیں آمریت کے دنوں میں چھین لیا گیا تھا۔ صدر زرداری خوش دلانہ مرضی کے ساتھ 1973 کے آئین کی بحالی پر تادیر یاد رکھے جائینگے۔

ایک طرف نواز شریف کی اعلیٰ ظرفی ہے کہ انھوں نے زرداری دور میں ہونے والی ہر اچھی بات کو تسلیم کیا۔ دوسری طرف زرداری کے وہ نقاد ہیں کہ آج بھی ان کے کارناموں کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔ لگتا ہے کہ بغض، کینہ، دشمنی نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری جولائی میں جب نجی دورے پر دبئی گئے تھے تو ان کے مخالفین نے یہ خبر اڑا دی کہ وہ ملک سے فرار ہو گئے ہیں حالانکہ زرداری کا ماضی گواہ ہے کہ انھوں نے ساڑھے گیارہ سال قید تنہائی بھگت لی مگر اصولوں پر سمجھوتہ کرنے سے انکار کر دیا۔ وہ قید جس کے بارے میں وہ اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ شروع کے دو سال کے بعد قید کی اذیت ناقابل برداشت ہو جاتی ہے۔ اصولوں پر ڈٹے رہ کر رہائی سے انکار آمر سے سمجھوتہ نہ کرنا، ان کے کردار کی عظمت ہی تھی کہ انھیں مرد حر کا خطاب دیا گیا۔ حکمرانوں کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملانے والوں کی ہر دور میں کبھی کوئی کمی نہیں رہی لیکن حقیقی تعریف وہی ہے جو آپ کا دشمن یا بدترین مخالف بھی کرنے پر مجبور ہو جائے۔ آصف علی زرداری کے مخالفین بھی ان کی تعریف کررہے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ آصف علی زرداری کے معاملے میں اخلاقیات کی حدوں کو نہیں بلکہ تمام حدوں کو توڑ دیا گیا کیونکہ ان کا سب سے بڑا جرم یہ تھا کہ وہ بے نظیر بھٹو کے شوہر تھے۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ جیسے ہی زرداری کی بے نظیر بھٹو سے شادی ہوئی نادیدہ قوتوں اور ان کے کارندوں نے زرداری کو اپنا ہدف بنا کر ان کی کردار کشی شروع کر دی اور آخر میں یہ کردار کشی اس سطح پر پہنچ گئی کہ لگتا تھا کہ صرف پاکستان میں نہیں بلکہ دنیا میں ہونے والی ہر برائی کا ذمے دار زرداری کی ذات ہے کیونکہ جمہوریت دشمن نادیدہ قوتوں کو اندازہ تھا کہ بھٹو کی پھانسی ان کے بیٹوں اور بیٹی کے پراسرار قتل کے بعد ان کا سامنا آخرکار مرد حر آصف علی زرداری سے ہی ہو گا۔ اس لیے حفظ ماتقدم کے طور پر میڈیا میں بیٹھے اپنے کارندوں کے ذریعے اسی قدر تباہ کن پروپیگنڈا کرایا گیا کہ پاکستانی خاص طور پر پنجاب کے عوام کے ذہن ان کی طرف سے زہر آلود ہو جائیں اور ایسا ہی ہوا۔ اس میں انھیں ناکامی نہیں ہوئی۔

آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کا کردار ختم ہو گیا ہے یا نہیں اس کا پتہ اکتوبر کے آخر میں چلے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔