شام پر ممکنہ امریکی جارحیت

ایم جے گوہر  اتوار 15 ستمبر 2013
mjgoher@yahoo.com

[email protected]

دنیا میں تبدیلی کا نعرہ لگاکر برسر اقتدار آنے والے سپرپاور کے صدر بارک حسین اوباما نے بھی اپنے پیش رو امریکی صدر جارج بش جونیئر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بالآخر عرب ملک شام کے خلاف فوجی کارروائی کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ حملے کے لیے وہی بودا جواز تراشا گیا کہ شام کے پاس بھی کیمیائی ہتھیاروں کا ذخیرہ ہے جس سے امریکی سلامتی کو خطرہ ہے لہٰذا شام کو سبق سکھائے بغیرامریکا غیر محفوظ رہے گا۔ سابق امریکی صدر بش نے بھی عراق پر حملے کے وقت یہی موقف اختیار کیا تھا کہ اس کے پاس تباہی پھیلانے والے خوفناک کیمیائی ہتھیار موجود ہیں جن سے مغرب بالخصوص امریکا کی سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہوگئے ہیں لہٰذا عراق پر حملہ ناگزیر ہے۔

اگرچہ اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کی تحقیقی رپورٹوں سے اس امر کی تصدیق ہوچکی تھی کہ عراق کے پاس کسی قسم کے مہلک ہتھیاروں کا کوئی وجود نہیں لیکن امریکا بہادر نے کسی بھی قسم کی یقین دہانی کو خاطر میں لائے بغیر فوجی اقدام کو اپنا حق تصور کرتے ہوئے عالمی قوانین کا مذاق اڑایا اور صدر بش اور اس کے حواریوں نے عراق پر حملہ کردیا بات یہیں ختم نہ ہوئی بلکہ صدام حسین حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد عراقی صدر کو گرفتار کرکے پس زنداں ڈال دیا گیا ان پر مختلف قسم کے مقدمات قائم کیے گئے اور آخر کار صدام حسین کو پھانسی دے دی گئی۔ امریکا نے عراق میں آگ و خون کے جس کھیل کا آغاز کیا وہ آج بھی جاری ہے لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں لیکن عراق میں بدامنی کی آگ پھیلتی ہی جا رہی ہے اور وہاں امن کا قیام ایک خواب بن کر رہ گیا ہے۔ عراقی عوام کی زندگی دردناک عذاب میں گزر رہی ہے۔

سابق امریکی صدر بش نے اپنے جنگی جنوں کے زیر اثر افغانستان پر بھی جارحیت کو اپنا عالمی استحقاق قرار دیا۔ امریکا 9/11 کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی کا ذمے دار القاعدہ اور اس کے سربراہ اسامہ بن لادن کو قرار دیتا ہے۔ سانحہ 9/11 کے بعد امریکا کو یقین تھا کہ اسامہ اور اس کے ساتھی افغانستان کی پہاڑیوں میں روپوش ہیں اور افغانستان کی حکومت طالبان  کی جائے پناہ سے پوری طرح آگاہ ہے۔ امریکا نے طالبان سے اسامہ کی براہ راست اسے حوالگی کا مطالبہ کیا۔ تاہم طالبان حکومت کا موقف تھا کہ وہ امریکا کو مطلوب افراد کو عالمی عدالت میں پیش کرنے پر آمادہ ہیں لیکن براہ راست امریکا کے حوالے کسی کو نہیں کیا جائے گا۔ امریکا نے طالبان موقف کو اپنی عالمی شان وشوکت میں گستاخی سمجھا اور اسے قبول کرنے سے انکار کردیا۔

کیونکہ صدر بش اور اس کے جنگی حواریوں پر جنون سوار تھا سو انھوں نے عالمی امن کے اصولوں کو تاراج کرتے ہوئے افغانستان پر آتش و آہن کی بارش کردی۔ لیکن اس کی بدقسمتی کہ وہ افغانوں کی روایتی بہادری،جرأت اور گوریلا کارروائیوں کی تاریخ کو بھلا بیٹھا اور ایک عشرہ گزر چکا ہے جدید ترین جنگی ہتھیاروں سے مسلح دنیا کی سپرپاور کہلانے والا امریکا ویت نام کے بعد 21 صدی میں اب افغانوں کی مزاحمت کے آگے ڈھیر ہوتا نظر آرہا ہے اب اس کی شدید خواہش ہے کہ کسی طرح ’’عزت‘‘ کا راستہ مل جائے اور وہ ساتھ خیریت کے افغانستان سے واپس چلا جائے۔ کل تک طالبانوں پر آگ برسانے والا امریکا اب ان ہی طالبانوں سے ’’رہائی‘‘ حاصل کرنے کے لیے مذاکرات کر رہا ہے۔

اگر یہ کہا جائے تو شاید غلط نہ ہوگا کہ عراق اور افغانستان میں اپنے ’’انجام‘‘ سے امریکی قیادت نے سبق حاصل نہیں کیا بالخصوص صدر اوباما جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ سابق امریکی صدر بش کے جنگی اقدام کے مخالف ہیں آج ان ہی صدر بش کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ایک اور عرب ملک شام پر جارحیت کے لیے پرتول رہے ہیں لیکن اوباما کی بدقسمتی یہ ہے کہ صدر بش کی طرح آج کی عالمی برادری شام پر حملے کے حوالے سے ان کے اقدام کی ہمنوا نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن روس اور چین شام کے خلاف امریکا کے فوجی اقدام کی کھل کر مخالفت کر رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا نے سلامتی کونسل کی منظوری کے بغیر شام پر حملے کا فیصلہ کیا ہے۔

البتہ ایک رسمی کارروائی کے طور پر امریکی کانگریس سے منظوری لینے کا اعلان کیا ہے لیکن شنید ہے کہ صدر اوباما کو امریکی کانگریس کی طرف سے بھی سو فیصد ’’ہاں‘‘ ملنا ممکن نہیں غالباً اسی خدشے کے پیش نظر امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے فرمایا ہے کہ امریکی کانگریس کی منظوری کے بغیر بھی شام پر حملہ کیا جاسکتا ہے۔ ادھر برطانوی پارلیمنٹ نے بھی اپنی حکومت کو شام پر ممکنہ حملے کے امریکی اقدام کو سپورٹ کرنے کی اجازت دینے سے واضح انکار کردیا ہے۔ برطانیہ اور امریکا میں عوامی سطح پر بھی شام پر امریکی حملے کے خلاف زبردست مظاہرے شروع ہوگئے ہیں۔ روس نے تو امریکا کو دھمکی دی ہے کہ اگر اس نے شام پر حملہ کیا تو وہ سعودی عرب پر حملہ کردے گا جب کہ ایران نے امریکا کو خبردار کیا ہے کہ شام پر امریکی جارحیت کی صورت میں وہ اسرائیل کو نشانہ بنائے گا۔

مذکورہ پس منظر میں اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ شام پر ممکنہ امریکی حملے کی صورت میں نہ صرف مشرق وسطیٰ کا خطہ آتش و آہن کی لپیٹ میں آجائے گا بلکہ تیسری عالمی جنگ چھڑنے کے امکانات بھی بڑھ جائیں گے۔ کیا امریکی صدر اوباما نے اسی’’تبدیلی‘‘ کا نعرہ لگایا تھا؟ کیا وہ اپنے پیش روکی طرح تاریخ میں ’’جارح حکمراں‘‘ کے طور پر اپنا نام رقم کرانا چاہتے ہیں؟ صدر بش کو فیصلہ کن اقدام سے قبل ہزار مرتبہ ہر زاویے سے سوچ لینا چاہیے۔ پاکستان خطے کا اہم ملک ہونے کے ناتے حالات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان کے مطابق پاکستان نے شام پر حملے کی مخالفت کرتے ہوئے امریکا کو مسئلے کا پرامن حل تلاش کرنے کا مشورہ دیا ہے اور امریکا سے کہا ہے کہ شام کی سلامتی و خودمختاری کا احترام کیا جائے۔ پاکستان ان ممالک کے ساتھ کھڑا ہے جو شام پر امریکی حملے کے مخالف ہیں۔ مذکورہ صورت حال سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ شام پر ممکنہ جارحیت کے حوالے سے امریکی صدر بارک اوباما عالمی تنہائی کا شکار ہیں اور ان کے  مخالفین کی تعداد میں عوامی و حکومتی ہر دو سطح پر اضافہ ہو رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔