ظلم رہے اور امن بھی ہو!!

سعید پرویز  اتوار 15 ستمبر 2013

کیا ممکن ہے تم ہی کہو؟ یہ سوال بہت پہلے جالب نے اٹھایا تھا۔مگر دنیا والوں نے اپنی روش نہ بدلی، اور بنام امن، ظلم کرتے رہے۔ مگر ظلم کے ہوتے امن کہاں رہتا ہے۔ آج پھر امریکا بنام امن، شام پر چڑھائی کے لیے تیار کھڑا ہے۔ اس سے پہلے امریکا عراق، افغانستان، لیبیا، مصر میں ’’امن‘‘ قائم کرچکا ہے۔ دیکھ لیں کیسا امن قائم ہوا ہے کہ آج بھی ان ممالک میں خودکش بم دھماکے اور دوبدو لڑائی جاری ہے۔

پاکستان میں نئی حکومت کو اقتدار سنبھالے تقریباً چار ماہ ہونے کو ہیں۔ 8 ستمبر کو سابق صدر آصف علی زرداری ایوان صدر سے باہر آگئے اور نئے صدر ممنون حسین اگلے روز یعنی 9 ستمبر 2013 کے دن آیندہ پانچ سال کے لیے ایوان صدر میں داخل ہوگئے۔ ’’اب دیکھیے ٹھہری ہے جاکر نظر کہاں۔‘‘ ملک کے جو حالات ہیں وہ سب کے سامنے ہیں جو انتہائی برے ہیں۔ میں پھر کہوں گا کہ ملک کے حالات انتہائی برے ہیں۔ ایسے میں 9 ستمبر کے دن ہی اسلام آباد میں تمام سیاسی جماعتوں کے سربراہ اور بری، بحری، ہوائی فوجوں کے سربراہ، مختلف خفیہ اداروں کے سربراہ، وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ ایک جگہ جمع ہوئے۔

سر جوڑے چھ گھنٹے تک بیٹھے اور پھر اعلامیہ جاری کیا کہ طالبان سے مذاکرات کیے جائیں اور ہر حال میں دہشت گردی ختم کی جائے۔ امریکا بنام امن ہمارے ملک پر ڈرون حملے کر رہا ہے۔ اب تک اس ’’امن پالیسی‘‘ کے نتیجے میں ہزاروں معصوم ہلاک ہوچکے ہیں۔ کل جماعتی اکٹھ میں یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ ’’ڈرون حملوں کا معاملہ اقوام متحدہ میں لے جایا جائے۔‘‘ چلو حجت تمام کرلو، ورنہ اقوام متحدہ کا ریکارڈ تو ساری دنیا کے سامنے ہے۔ باقی اللہ کرے کہ بات طالبان سے مذاکرات ہی میں بن جائے اور اقوام متحدہ میں ڈرون معاملہ لے جانے کی نوبت ہی نہ آئے، جالب کا شعر یاد آرہا ہے، مگر میں سوچ رہا ہوں کہ لکھوں یا نہ لکھوں۔ اس موقعے پر یہ شعر مناسب ہوگا یا مایوسی بڑھائے گا۔ مگر چلو کوئی بات نہیں، کچھ نہیں ہوگا۔ مایوسیاں اب اتنی ہوچکی ہیں کہ اور اضافہ کیا ہوگا مقرر دیکھیے:

نہیں ہے کوئی وہاں درد آشنا اے دل

اس انجمن میں نہ کر عرض مدعا اے دل

65 کی جنگ کے بعد صدر ایوب امریکا اور اقوام متحدہ جارہے تھے، تب جالب صاحب نے یہ غزل کہی تھی اور پریس کلب کراچی کے کل پاکستان مشاعرے میں حمید نسیم اور حفیظ ہوشیار پوری نے ملازمت نبھاتے ہوئے جالب کو یہ غزل پڑھنے سے روک دیا۔ جالب نے ان سے کہا ’’مجھے کیوں بلایا؟ پڑھوں گا تو میں اپنی مرضی سے‘‘ ۔ اور پھر جالب کے ساتھ ان کے چاہنے والے پریس کلب کراچی کے بیک یارڈ سے سامنے ٹیرس پر آگئے۔ جہاں جالب کی تازہ غزل سنی گئی۔ یہ مشاعرہ براہ راست ریڈیو پاکستان سے نشر کیا جارہا تھا۔ جالب صاحب کا نام میر مشاعرہ ناصر جہاں نے اناؤنس کردیا تھا اور وہ اسٹیج پر آگئے تھے اور وہ حمید نسیم و حفیظ ہوشیار پوری سے اپنی تازہ غزل مانگ رہے تھے جو انھوں نے سنسر کرنے کی غرض سے لی تھی اور پھر جالب صاحب کو اسٹیج سے واپس اتار لیا گیا۔ مجھے یاد ہے پھر ثاقب زیروی کا نام پکارا گیا تھا۔ا س غزل کا مطلع تھا:

طواف کوئے ملامت کو پھر نہ جا اے دل

نہ اپنے ساتھ ہماری بھی خاک اڑا اے دل

اور پھر دوسرا وہ شعر تھا جو میں پہلے لکھ چکا ہوں۔ بڑے بڑے ستم کیے گئے، بڑے بڑے دکھ جھیلے، تب حبیب جالب، حبیب جالب بنا۔ خیر بات ہورہی تھی کہ 9 ستمبر کی کل جماعتی کانفرنس میں نواز شریف، عمران خان، محمود خان اچکزئی، میر حاصل بزنجو، آفتاب شیرپاؤ، اختر مینگل، لیاقت بلوچ، شہباز شریف، پرویز خٹک، ڈاکٹر عبدالمالک، قائم علی شاہ، مولانا فضل الرحمن سب موجود تھے۔ یہ بھی خبر ہے کہ ایسی ہی کل جماعتی کانفرنس کوئٹہ اور کراچی میں بھی منعقد کی جائیں گی۔

یہ سب باتیں بہت اچھی ہیں، مگر عمل درآمد اصل بات ہے۔ جو کچھ کانفرنس میں چھ گھنٹے کے بحث مباحثے اور گفتگو کے بعد طے ہوا ہے۔ وقت ضایع کیے بغیر اس پر عمل کا آغاز کردیا جائے۔ ہمارے ملک کے حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ہم مزید کسی بھی تاخیر کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ خصوصاً بلوچستان کے حالات نہایت سنگین ہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری صاحب نے اپنا عہدہ چھوڑتے ہوئے بڑی اچھی سوچ کا اظہار کیا ہے، بڑی پیاری باتیں کی ہیں۔ ان کی سوچ اور باتوں سے ملک و قوم کے برے حالات کے احساس کا اظہار ہوتا ہے اور اب زرداری صاحب نے لاہور میں اپنا ڈیرہ جمانے کا اعلان بھی کردیا ہے بلکہ بلاول ہاؤس لاہور میں ڈیرے کا آغاز، زبردست آتش بازی اور نعرے بازی سے کردیا ہے۔ بیرسٹر اعتزاز احسن بھی نعرہ زن نظر آئے۔ چلو یہ سب بھی ٹھیک ہے مگر آصف زرداری صاحب کی ’’سوچ‘‘ اور ’’باتوں‘‘ پر عمل کا بھی اب آغاز ہونا چاہیے۔

ادھر محمد نواز شریف صاحب وزیر اعظم پاکستان کا ’’وطیرہ‘‘ بھی یکسر بدلا ہوا ہے جو بہت اچھی اور مناسب بات ہے۔نواز شریف اقتدار میں ہیں۔ ان کے پاس اختیارات ہیں، طاقت ہے اور یوں وہ بہت کڑے امتحان سے گزریں گے۔ عمران خان کو بھی وزیر اعظم صاحب نے ساتھ لے کر چلنا ہے۔ تحریک انصاف الیکشن 2013 میں ملک کی دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے بعد تحریک انصاف نے پورے ملک میں زیادہ ووٹ لیے ہیں۔ نواز شریف صاحب کا عمل پہلے ہی درست نظر آرہا ہے، خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کا قیام اور بلوچستان میں ڈاکٹر مالک کا وزیر اعلیٰ بننا نواز شریف کے انقلابی اقدامات ہیں۔ میرا شہر کراچی گویا پاکستان ایک جسم اور اس میں ریڑھ کی ہڈی میرا شہر کراچی ۔ یہ ریڑھ کی ہڈی کئی جگہ سے ٹوٹ چکی ہے، بہت ماہر تجربہ کار سرجن ہی اس کا آپریشن کرسکتا ہے اور ٹوٹے ہوئے جوڑ پھر سے جڑ سکتے ہیں۔ اس سرجن کا انتظام نواز شریف اور آصف زرداری کو کرنا ہوگا۔ کیونکہ مرکز اور صوبائی حکومتیں ان ہی دونوں کی ہیں۔ میرے شہر کی سب سے بڑی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کا بھی کڑا امتحان ہے۔ اب اس کے سوا اور کوئی چارہ کار نہیں ہے کہ مسلم لیگ (ن) پاکستان پیپلزپارٹی، تحریک انصاف اور متحدہ قومی موومنٹ کو مکمل احساس کے ساتھ تاریخی فرض ادا کرنا ہوگا۔ عوام بہت قربانیاں دے چکے، اب سیاسی جماعتوں کے لیڈروں ہی کی باری ہے۔ آخر میں اس نظم سے اقتباس جسے میں نے عنوان بنایا ہے:

ظلم رہے اور امن بھی ہو!

کیا ممکن ہے تم ہی کہو؟

چھائی ستم کی شام بھی ہے

بھوکے ننگے انسانوں کو

کہو کہیں آرام بھی ہے

کون ہے ظالم پہچانو

جھوٹے امن کے دیوانو

اپنے ہونٹ سیے ہیں تم نے

میری زبان کو مت روکو

تم کو اگر توفیق نہیں تو

مجھ کو ہی سچ کہنے دو

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔