پنجاب میں سونے کے نقلی قدیم سکے اور مورتیاں بیچنے والا گروہ سرگرم

 منگل 23 جولائی 2019
سیالکوٹ ، وزیرآباد اور گجرات سے سونے کے سکے اورمورتیاں ملنے کا دعوی کیا جاتا رہا ہے فوٹو: ایکسپریس

سیالکوٹ ، وزیرآباد اور گجرات سے سونے کے سکے اورمورتیاں ملنے کا دعوی کیا جاتا رہا ہے فوٹو: ایکسپریس

 لاہور: قدیم عمارتوں سے سونے کے سکے، بسکٹ اور مورتیاں ملنے کا دعویدارگروہ سامنے آیا ہے جس کا دعوی ہے کہ ان کے پاس سونے کے سینکڑوں سکے اور مورتیاں موجودہیں اور انہیں یہ خزانہ سیالکوٹ میں سکھ دورکی ایک قدیم عمارت کی کھدائی کے دوران ملا ہے۔

ایکسپریس نیوز کو ایک شخص نے فون پر بتایا کہ اس کا نام عمران ہے اور وہ جھنگ کے نواحی علاقہ چک 236 پنڈباجوہ کا رہائشی ہے۔ عمران نے بتایا کہ اسی گاؤں کا رہائشی لیاقت سیالکوٹ میں محنت مزدوری کرتا تھا جہاں سکھ دورکی ایک قدیم عمارت میں کھدائی کے دوران اسے مٹی کے برتن ملے جس میں سونے کےسکے، بسکٹ اورمورتیاں تھیں۔ وہ اس خزانے کا برتن اپنے آبائی علاقے جھنگ لے آیا اوراس میں سے چند سکے مقامی سنار کو بیچ دیئے ۔

عمران نے ایکسپریس کو ان سکوں اور مورتیوں کی تصاویر بھی بھیجی ہیں تاہم وہ درست طور پر اس جگہ کا پتہ نہیں بتاسکا جہاں وہ قدیم عمارت یا اس کی باقیات موجود ہیں۔ اس گروہ کے مطابق وہ یہ خزانہ حکومت کے حوالے کرنا چاہتے ہیں لیکن اس میں سے انہیں بھی حصہ ملنا چاہیے۔

ایکسپریس نے اس حوالے سے جب ڈائریکٹر محکمہ آثار قدیمہ پنجاب افضل خان سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ اس طرح کے واقعات پہلے بھی رونما ہوچکے ہیں، سیالکوٹ ، وزیرآباد، گجرات کے علاقوں سے سونے کے سکے اورمورتیاں ملنے کا دعوی کیا جاتا رہا ہے ۔ ان سکوں پر 1910 کا سن درج ہے جب کہ ایک ناسمجھ آنے والی زبان میں تحریر ہے۔ سکھ عہد میں اس طرح کے سکے موجود ہی نہیں تھے نہ ہی اس ڈیزائن کے سکے اس خطے میں کبھی رائج رہے ہیں اور نہ ہی ایسی زبان اس خطے میں لکھی جاتی رہی ہے جو سکے پر درج ہے۔

افضل خان نے کہا کہ یہ ایک منظم گروہ ہے جو اس طرح کا دعوی کرتا ہے اس کے پیچھے ان کے کیا مقاصد ہیں یہ اس وقت ہی معلوم ہوسکتا ہے جب اس گروہ کو پکڑاجائے گا۔

ایکسپریس نیوز کو عمران نامی شخص نے فون پراس خفیہ خزانے بارے معلومات دیتے ہوئے پیشکش کی کہ وہ اس خزانے کو لاہور میں بیچنا چاہتے ہیں اس میں ان کی معاونت کی جائے تاہم وہ اس کام کو خفیہ رکھناچاہتے ہیں۔اس حوالے سے جب تحقیقات کی گئیں تو معلوم ہوا ایک منظم گروہ طویل عرصہ سے اس طرح کے فراڈ کررہا ہے ۔ اس گروہ نے اپنے طور پر چند سکے تیارکروائے ہیں، وہ مختلف لوگوں کواصلی سکے دکھا کر انہیں مصنوعی سکے اور مورتیاں بیچ دی جاتی ہیں اوراس لین دین کو خفیہ رکھا جاتا ہے جس کی وجہ سے ملزمان ابھی تک گرفتار نہیں ہوسکے ہیں۔

محکمہ آثارقدیمہ کے حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے ابھی تک ان سکوں اورمورتیوں کی تصاویر ہی دیکھی ہیں اگر اصل سکے ملتے ہیں تو پھراس بارے تحقیقات کی جاسکتی ہیں۔

ایکسپریس نیوز نے سیالکوٹ اوراس کے نواحی علاقوں میں موجود اپنے نامہ نگاروں اور دیگر ذرائع سے یہ معلومات لینے کی کوشش کی کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران یہاں کسی قدیم عمارت سے کوئی خزانہ نکلنے کی خبریں سامنے آئی تو کہیں سے بھی اس کی تصدیق نہیں ہوسکی تاہم اس طرح کی افواہیں ضرور سامنے آتی رہی ہیں۔

سکھ عہد کی قدیم اور خستہ حال عمارتوں پر تحقیق کرنے والے شاہد شبیرنے بتایا کہ کئی پرانی عمارتوں میں اس طرح کے آثار ضرور ملے ہیں کہ وہاں کوئی خزانہ چھپایا گیا تھا تاہم کئی برسوں کی تحقیق میں انہیں کبھی کوئی اس طرح کا خزانہ نہیں مل اہے۔انہوں نے مختلف لوگوں سے اس طرح خزانہ ملنے کے واقعات ضرورسنے ہیں۔ 1947 کی تقسیم میں جب مغربی پنجاب سے سکھ اور ہندو خاندان بھارت کی طرف ہجرت کر گئے تو کئی خاندان اس امید پر زیوارت وغیرہ گھروں کے مختلف حصوں میں چھپا گئے کہ وہ ہنگاموں کے بعد واپس آئیں گے تو اس خزانے کو نکال لیں گے۔

نوادرات پر تحقیق کرنے والے سینئر پروفیسر محمد نعیم مصطفی نے بتایا کہ جس دورکے یہ سکے اور بسکٹ بتائے جارہے ہیں ان کے جعلی ہونے کا سب سے بڑا ثبوت ہی وہی ہے۔ یہ اس خطے کے سکے تو نہیں ہوسکتے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ سکھوں کے دور میں اگر کسی نے گھرمیں کوئی خزانہ چھپایا بھی ہوگا تو وہ طلائی زیورات کی شکل میں ہوگا، اس طرح کے بسکٹ اور سکے اور وہ بھی اتنی مقدار میں کسی کے پاس نہیں ہوتے تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔