ویڈیو کیس؛ نواز شریف کو ہائی کورٹ ہی شواہد کا جائزہ لیکر ریلیف دے سکتی ہے، چیف جسٹس

ویب ڈیسک  منگل 23 جولائی 2019
بطور جج ارشد ملک کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ۔ فوٹو:فائل

بطور جج ارشد ملک کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ۔ فوٹو:فائل

 اسلام آباد: جج ارشد ملک ویڈیو کیس کی سماعت کے موقع پر چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے ہیں کہ کوئی کمیشن احتساب عدالت کا فیصلہ نہیں ختم کر سکتا جب کہ شواہد کا جائزہ لیکر ہائی کورٹ ہی نواز شریف کو ریلیف  دے سکتی ہے۔ 

سپریم کورٹ میں جج ارشد ملک ویڈیو کیس کی سماعت ہوئی جس میں اٹارنی جنرل نے کہا کہ ایف آئی اے سائبر کرائم ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر چکی ہے، الیکٹرانک کرائم ایکٹ کی دفعہ 20 کے تحت قید اور لاکھ جرمانہ ہو سکتا ہے، ایف آئی آر کے بعد ملزم طارق محمود کو گرفتار کیا گیا ہے، میاں طارق سے لینڈ کروزر برآمد ہوئی ہے، میاں طارق نے لینڈ کروزر ان سے وصول کی جن کو جج کی ویڈیو فراہم کی تھی جب کہ میاں طارق کے پاس جج ارشد ملک کی کافی ویڈیوز موجود ہیں، تحقیقات جاری ہیں ایف آئی اے ملزمان تک پہنچ رہی ہے۔

چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ ویڈیو سے جج کے موقف کا ایک حصہ درست ثابت ہوگیا، ویڈیو میں ایسا کیا ہے ہم نہیں جانتے، ایک ویڈیو کی تصدیق کروائی گئی ہے، جج نے ایسی حرکت کی تھی تب ہی وہ بلیک میل ہوا تاہم بطور جج ارشد ملک کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، ایک ویڈیو وہ بھی ہے جو پریس کانفرنس میں دکھائی گئی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آڈیو اور ویڈیو کی ریکارڈنگ الگ الگ کی گئی تھی جب کہ پریس کانفرنس میں آڈیو اور ویڈیو کو جوڑ کر دکھایا گیا، آڈیو ویڈیو مکس کرنے کا مطب ہے اصل مواد نہیں دکھایا گیا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ پریس کانفرنس والی اصل ویڈیو کو ریکور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ یہاں ایک آپشن آپ نے ایف آئی اے اور دوسرا نیب قانون کا دیا ہے، تیسرا آپشن تعزیرات پاکستان اور چوتھا پیمرا قانون کا دیا ہے، پانچواں آپشن حکومتی کمیشن اور چھٹا جوڈیشل کمیشن کا ہے جب کہ آخری آپشن یہ ہے کہ عدالت خود فیصلہ کرے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کوئی کمیشن یا پیمرا احتساب عدالت کا فیصلہ نہیں ختم کر سکتا، شواہد کا جائزہ لیکر ہائی کورٹ ہی نواز شریف کو ریلیف  دے سکتی ہے، جوڈیشل کمیشن صرف رائے دے سکتا ہے فیصلہ نہیں، کیا سپریم کورٹ کی مداخلت کا فائدہ ہو گا یا صرف خبریں بنیں گی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ کیا جج کا سزا دینے کے بعد مجرم کے گھر جانا درست ہے، کیا مجرم کے رشتے داروں اور دوستوں سے گھر اور حرم شریف میں ملنا درست ہے، فکر نہ کریں جج کے کنڈکٹ پر خود فیصلہ کریں گے، کسی کے کہنے پر ایکشن نہیں لیں گے، وزیر اعظم نے بھی کہا عدلیہ از خود نوٹس لے، کچھ کرنا ہوا تو دیکھ اور سوچ سمجھ کر کریں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔