دورۂ امریکا کا حاصل

 منگل 23 جولائی 2019
وزیراعظم عمران خان کے دورۂ امریکا سے قبل پاک امریکا تعلقات سردمہری کا شکار تھے۔ (فوٹو: فائل)

وزیراعظم عمران خان کے دورۂ امریکا سے قبل پاک امریکا تعلقات سردمہری کا شکار تھے۔ (فوٹو: فائل)

وزیراعظم عمران خان کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے بعد پاکستان میں شادیانے بجائے جارہے ہیں، تو بھارت میں ماتم کا سماں ہے۔ پاکستانی میڈیا اور عمران خان کے پارٹی ورکرز اسے کامیاب دورہ قرار دے رہے ہیں اور عمران خان کو دنیا کے بہترین لیڈر کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ امریکی صدر نے میڈیا سے گفتگو کے دوران مہمان کی تعریفوں کے پل باندھے۔ جس ٹرمپ کو کچھ عرصہ پہلے پاکستانی دھوکے باز نظر آتے تھے، اچانک سے بہت اچھے لگنے لگے۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے وہی کیا ہے جو اس کے ملک کے مفاد میں ہے۔ یہ لوگ دوسرے ممالک کی نفسیات سے کھیلتے ہیں۔ ٹرمپ جانتے تھے کہ عمران خان کو اپنی تعریفیں پسند ہیں، جس پر انہوں نے زیادہ زور دیا اور اپنے مہمان کو بولنے کےلیے کم وقت دیا۔ دوسرا پاکستان کی کمزوری کشمیر ہے، جس پر ٹرمپ اچھے انداز میں کھیلے اور ثالثی کی پیشکش کر ڈالی۔ دوسرا پاکستان کا کولیشن فنڈ ہے، جو ٹرمپ نے بند کردیا تھا، اس کو بحال کرنے کا عندیہ بھی دے دیا۔

پاکستان کی 72 سالہ تاریخ میں امریکا نے ہمیشہ فوجی حکمرانوں کو اہمیت دی ہے، چاہے وہ جنرل ایوب خان ہوں، جنرل ضیا ہوں یا پرویز مشرف۔ انہی حکمرانوں کے ساتھ سودے بازی بھی کی ہے، ان کو ہی ڈالرز دیے ہیں اور ان ہی سے کام نکلوائے ہیں۔ جمہوری حکمرانوں کو اس نے ایک حد میں رکھا ہے۔ موجودہ حکومت اور فوج بظاہر ایک پیج پر ہیں، جس بات کا وزرا بڑے فخر سے اعتراف بھی کرتے ہیں۔ امریکا سے خارجہ تعلقات میں بریک تھرو، امریکا کی طرف سے کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کے پیچھے ایک ورکنگ ہے، جو ایک عرصے سے جاری تھی۔ یقیناً یہ سفارتی کامیابی ہے جو پاکستان کی سیاسی اور ملٹری قیادت کے سر جاتی ہے۔ اس سے قبل امریکا اور پاکستان کے تعلقات سردمہری کا شکار تھے۔

دونوں ممالک کے تعلقات کی ایک تاریخ ہے جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا۔ ان تعلقات میں کبھی سردی تو کبھی گرمی آتی رہی ہے۔ دونوں ممالک کے تعلقات کی تاریخ پاکستان کے قیام میں آنے سے ہی شروع ہوجاتی ہے، تاہم حالیہ تناظر میں پاکستان اور امریکا ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتحادی ہیں۔ افغانستان سے سوویت یونین کے انخلا اور 1998 میں پاکستان کے جوہری تجربوں کے بعد پاکستان امریکا تعلقات میں جو تعطل آیا تھا، وہ افغانستان پر 2001 میں امریکی حملے کے بعد بحال ہوگیا تھا۔ تاہم اس رشتے میں تناﺅ اور بے اعتباری برقرار رہی۔

تعلقات کا بدترین مرحلہ 2011 میں اس وقت شروع ہوا، جب لاہور میں سی آئی اے کی ایک ٹھیکے دار کمپنی کے ملازم ریمنڈ ڈیوس نے دو پاکستانیوں کو قتل کردیا تھا۔ سلالہ چوکی پر نیٹو افواج کا حملہ، اسامہ بن لادن کا ایبٹ آباد میں پکڑے جانا، نیٹو رسد کی معطلی اور شمسی ایئربیس خالی کرایا جانا، سب ایک دوسرے پر کیے گئے وار کی کڑیاں ہیں اور پھر ایک معاملہ میمو گیٹ کا بھی سامنے آیا۔ نواز شریف کی حکومت میں بھی ”ہاں“ اور ”ناں“ جیسی صورتحال برقرار رہی۔ دونوں ممالک کے تعلقات مزید کشیدہ ہونے کی وجہ پاکستان کا چین سے معاشی معاہدہ اور روس سے تعلقات میں بہتری ہے۔ امریکا چین کے مقابلے بھارت کو خطے کا تھانیدار بنانا چاہتا ہے۔ اس کو خوش کرنے کےلیے پہلے سید صلاح الدین، پھر ان کی تنظیم حزب المجاہدین پر پابندی لگادی، جو پاکستان سمیت دوسری عالمی قوتوں کو بھی ناگوار گزری۔

ہم میں سے کون نہیں جانتا کہ امریکا افغانستان میں اسامہ کو پکڑنے نہیں بلکہ اپنے مفادات کے تحفظ کےلیے آیا تھا۔ اسامہ تو ایک بہانہ تھا۔ یہ جنگ لڑتے لڑتے امریکا اور نیٹو اتحادیوں نے جہاں لاکھوں لوگوں کو قتل کیا، وہیں اپنے لاکھوں، کروڑوں ڈالر بھی ضائع کیے۔ اب افغانستان کے انسانوں سے تو شاید اس کو کچھ لینا دینا نہ ہو، مگر اپنے لاکھوں، کروڑوں ڈالر کےلیے تو وہ کچھ بھی کرسکتا ہے۔ عام آدمی اسے افغان مسلمانوں کےلیے ٹرمپ کی ہمدردی یا محبت سمجھ رہا ہے تو غلط ہے۔ امریکا کبھی بھی کسی انسان سے محبت نہیں کرتا، بلکہ اسے اپنے مفادات عزیز ہوتے ہیں اور اسی سے وہ محبت بھی کرتا ہے۔

امریکا ایک طرف تو طویل جنگ سے اکتا کر اپنی جان چھڑانا چاہتا ہے، تو دوسری طرف وہ عالمی دباﺅ ہے جو پاکستان، روس، چین، ترکی اور ایران کی مشترکہ کوششوں سے اس کو امن کی طرف آنے پر مجبور کررہا ہے۔ امریکا آہستہ آہستہ اپنی طاقت کھو رہا ہے۔ بڑے ممالک اس کی معیشت کو دھچکا دینے کےلیے اپنی باہمی تجارت مقامی کرنسیوں پر کررہے ہیں۔ روس روبل کو فروغ دے رہا ہے، تو چین اپنے یوآن کی بالادستی کےلیے کام کررہا ہے۔ ترکی اپنا لیرا میدان میں لے آیا ہے۔ پاکستان کو اپنی معیشت اور عزت کو دنیا میں بچانا ہے تو مقامی کرنسی میں تجارت کرنی ہوگی۔

پاکستان کی عمر 72 برس ہے اور افغان جنگ کی عمر چالیس برس۔ گویا پاکستان کی ساٹھ فیصد زندگی افغان لڑائی اور اس کے اثرات تلے گزر گئی اور گزر رہی ہے۔ اس لڑائی کا محرک اور سرپرست امریکا رہا ہے۔ روس کے خلاف جنگ ہو یا پھر دہشتگردی کے نام پر طالبان کے خلاف لڑائی، دونوں صورتوں میں ہم امریکا کے ساتھ رہے ہیں۔ ڈالروں کی لذت میں ہم نے اپنے ملک اور قوم کا نقصان کیا ہے۔ امریکا نے ہمیشہ ہمارے کندھے پر رکھ کر بندوق چلائی ہے۔

اس بات سے انکار نہیں کہ امن کی صورت میں برسوں سے جلتے ہوئے پہاڑوں، دہکتے ہوئے ریگزاروں میں محبت امن کے پھول کھلیں گے۔ وزیراعظم کے دورۂ امریکا سے پاکستان کو ایک فائدہ ہوا ہے کہ ایک عرصہ سے سرد پڑے تعلقات میں گرمجوشی آئے گی۔

امریکی صدر نے پاکستان کے سامنے اپنے مطالبات رکھ دئیے ہیں۔ کیا پاکستان اس کو پورا کرپائے گا؟ کیا طالبان امریکا سے معاہدہ کرنے پر مان جائیں گے؟ طالبان پاکستان کی بات نہیں مان رہے۔ پاکستان کا طالبان پر وہ کنٹرول نہیں رہا، جو پہلے تھا۔ افغانستان کے ستر فیصد سے زائد حصے پر ان کا کنٹرول ہے۔ امریکا تو کجا وہ کسی کو خاطر میں نہیں لارہے۔ وہ امریکا کو ملک سے بھگانے کے ساتھ ساتھ غنی حکومت کا بھی خاتمہ چاہتے ہیں۔ دوسرا ایران کے خلاف بننے والے اتحاد کےلیے پاکستان کی حمایت مانگی جارہی ہے۔ امریکا ایران کو مسلسل دھمکیاں دے رہا ہے، بحری بیڑے سے اس کا گھیراؤ کرچکا ہے۔

ہم نے ایک بیانیہ بنایا ہوا ہے کہ امریکا بے وفا ہے۔ تو امریکا نے بھی ہمارے بارے میں ایک بیانیہ طے کیا ہوا کہ ہم بے وفا ہیں۔ اس کو بھی ہم سے شکایات ہیں۔ بھارتی لابی کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے، امریکا کی اپنی سوچ ہے۔ امریکا سے مساوی تعلقات قائم ہوں گے تو اس بات کو بھول جائیں، بین الاقوامی تعلقات میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ پاکستان کی جغرافیہ اور تجارت کی وجہ سے اہمیت ہے، اور اگر ہم اسے بنائے رکھے تو قائم رہے گی۔ افغان طالبان اور امریکا کے درمیان پاکستان کو سہولت کار کا کردار ادا کرنا ہے۔ پاکستان ملٹری ٹو ملٹری فائدہ ہوگا، سفارتی اہمیت بڑھے گی، کشمیر پر ثالثی کے معاملے پر تو بھارت مکر گیا ہے۔ بھارتی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ وزیراعظم مودی نے امریکی صدر سے کشمیر کے حوالے سے کوئی ایسی بات ہی نہیں کی ہے۔ بھارت کبھی بھی کسی تیسرے ملک کی ثالثی قبول نہیں کرے گا۔ حالانکہ چین بھی اس معاملے پر ثالثی کی پیشکش کرچکا ہے۔ سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ انڈیا نے اس معاملے پر کبھی بھی تیسرے فریق کو شامل کرنے کی اجازت نہیں دی اور بحیثیت زیادہ طاقتور فریق، ان کی اجازت کے بغیر کوئی اور ثالثی کرنے نہیں آسکتا۔

ماضی میں پاکستان اور امریکا کا تعلق اس ساس اور بہو جیسا رہا ہے جس میں بہو نے جتنے مرضی جتن کیے، ساس خوش نہیں ہوئی۔ بہو اپنے گھر کےلیے تارے بھی توڑ لائے تو ساس کہتی ہے کہ ”آپ نے کیا ہی کیا ہے؟“

پاکستان نے امریکا کےلیے ستر ہزار کے قریب اپنے شہریوں کی جانیں قربان کردیں، اپنے علاقوں کو میدان جنگ بنایا، اپنی معیشت تباہ کی، پونے دو سو کھرب روپے کا نقصان اٹھایا، پھر بھی امریکی ساس کہتی رہی ڈو مور، ڈو مور۔ اس بار ساس نے کچھ دانشمندی کا کام کیا ہے، ڈو مور کا مطالبہ نہیں کیا، بلکہ تعاون مانگا ہے۔ پہلی مرتبہ ایسا ہورہا ہے کہ ایک ساس کسی سے تعلق بنانے کےلیے ایک بہو سے تعاون مانگ رہی ہے۔ اب بہو کےلیے امتحان ہے کہ وہ یہ رشتہ کیسے قائم کروا پاتی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔