- اسمگلنگ کا قلع قمع کرکے خطے کو امن کا گہوارہ بنائیں گے ، شہباز شریف
- پاکستان میں دراندازی کیلیے طالبان نے مکمل مدد فراہم کی، گرفتار افغان دہشتگرد کا انکشاف
- سعودی دارالحکومت ریاض میں پہلا شراب خانہ کھول دیا گیا
- موٹر وے پولیس اہل کار کو ٹکر مارنے والی خاتون جوڈیشل ریمانڈ پر جیل روانہ
- کراچی میں رینجرز ہیڈ کوارٹرز سمیت تمام عمارتوں کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم
- اوگرا کی تیل کی قیمتیں ڈی ریگولیٹ کرنے کی تردید
- منہدم نسلہ ٹاور کے پلاٹ کو نیلام کر کے متاثرہ رہائشیوں کو پیسے دینے کا حکم
- مہنگائی کے باعث لوگ اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں، پشاور ہائیکورٹ
- کیا عماد، عامر اور فخر کو آج موقع ملے گا؟
- سونے کی قیمتوں میں معمولی اضافہ
- عمران خان، بشریٰ بی بی کو ریاستی اداروں کیخلاف بیان بازی سے روک دیا گیا
- ویمنز ٹیم کی سابق کپتان بسمہ معروف نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا
- امریکی یونیورسٹیز میں ہونے والے مظاہروں پر اسرائیلی وزیراعظم کی چیخیں نکل گئیں
- پولیس یونیفارم پہننے پر مریم نواز کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، یاسمین راشد
- قصور ویڈیو اسکینڈل میں سزا پانے والے 2 ملزمان بری کردیے گئے
- سپریم کورٹ نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالخالق اچکزئی کو بحال کر دیا
- مرغی کی قیمت میں کمی کیلیے اقدامات کر رہے ہیں، وزیر خوراک پنجاب
- عوام کو کچھ نہیں مل رہا، سارا پیسہ سرکاری تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ چیف جسٹس
- وزیراعلیٰ بننے کیلئے خود کو ثابت کرنا پڑا، آگ کے دریا سے گزر کر پہنچی ہوں، مریم نواز
- کلین سوئپ شکست؛ ویمنز ٹیم کی سلیکشن کمیٹی میں بڑی تبدیلیاں
رواں برس اب تک 9 قیدی اور ملزمان فرار ہوچکے، پولیس کسی کو بھی دوبارہ نہیں پکڑ سکی
کراچی: رواں برس شہر بھر میں اب تک جیل اور مختلف مقامات سے9قیدی و ملزمان فرار ہوچکے لیکن تاحال کسی بھی مفرور کو گرفتار نہیں کیا جاسکا۔
انتظامیہ نے غفلت و لاپرواہی کے مرتکب پولیس افسران و اہلکاروں کو محض معطل کرنے پر ہی اکتفا کیا، فرار ہونے والوں میں ایک بھارتی ماہی گیر کے علاوہ سزائے موت کا قیدی بھی شامل ہے، تفصیلات کے مطابق رواں برس یکم جنوری سے12ستمبر تک جیل،عدالت کے احاطے اور اسپتال سے5ملزمان اور4سزا یافتہ قیدی فرار ہوچکے ہیں لیکن تاحال کسی بھی مفرور کو پولیس دوبارہ گرفتار کرنے میں ناکام ہے ، پولیس حکام کی جانب سے مذکورہ کیسز میں دلچسپی کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ غفلت و لاپرواہی کا مرتکب قرار دے کر چند افسران و اہلکاروں کے خلاف نمائشی کارروائی کی گئی جبکہ تقریباً 9 ماہ بیت گئے لیکن کوئی مفرور دوبارہ قانون کی گرفت میں نہیں آسکا۔
رواں برس سب سے پہلے ڈسٹرکٹ جیل ملیر سے بھارتی ماہی گیر کشور ولد بھگوان11فروری کو فرار ہوا، ٹھیک ایک ماہ بعد11مارچ کو سول اسپتال کے باہر سے سینٹرل جیل میں سزائے موت کا قیدی عبدالقیوم بلوچ ولد عبدالغنی بلوچ کو اس کے ساتھی فائرنگ کرتے ہوئے چھڑا کر لے گئے، واقعے میں پولیس اہلکاروں سمیت5افراد زخمی بھی ہوئے تھے،11جولائی کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں پیشی کے بعد حوالات کے بیت الخلا سے 3ملزمان محمد زبیر، حماد اور ارسلان فرار ہوگئے لیکن کوئی انھیں فرار ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکا۔
ملزمان کا تعلق لیاری گینگ وار سے تھا جبکہ ملزمان کے خلاف قتل، اقدام قتل اور اغوا برائے تاوان کے متعدد کیسز درج تھے،صرف2روز بعد13جولائی کو جوڈیشل مجسٹریٹ غربی کی عدالت میں پیشی کے بعد بکتر بند گاڑی سے2 ملزمان غلام اسحاق اور نضراب خان فرار ہوگئے ، ملزمان کا تعلق کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے تھا اور ان پر عام انتخابات سے قبل متعدد بم دھماکوں کا الزام تھا،29 جولائی کو سینٹرل جیل سے ملحق جووینائل جیل سے قتل کا ملزم جمال حسن فرار ہوا، رواں ماہ12ستمبر کو سینٹرل جیل میں قید وزیر مسیح سول اسپتال سے فرار ہوگیا، اسے ڈکیتی کا الزام ثابت ہونے پر8برس قید کی سزا سنائی گئی تھی، حیرت انگیز طور پر اب تک پولیس کسی بھی قیدی کو دوبارہ گرفتار نہیں کرسکی۔
فرار کے3 واقعات پیر کو رونما ہوئے
فرار کے 9واقعات میں سے3پیر کورونما ہوئے، سب سے زیادہ واقعات ماہ جولائی میں پیش آئے جن میں6ملزمان و قیدی فرار ہوئے، اب تک9قیدی و ملزمان فرار ہوئے ، رواں برس سب سے پہلا واقعہ ملیر جیل سے قیدی کے فرار کا بروز پیر رونما ہوا، دوسرے واقعے میں سول اسپتال کے باہر سے قیدی بھی پیر کے روز ہی بھاگا،جووینائل جیل سے فرار قیدی نے بھی اپنے لیے پیر کا دن ہی چنا،قیدیوں اور ملزمان کے فرار کے واقعات سب سے زیادہ ماہ جولائی میں پیش آئے ،11 جولائی کو3ملزمان حوالات کے بیت الخلا سے،13 جولائی کو2ملزمان عدالت کے احاطے سے اور 29 جولائی کو ایک قیدی جووینائل جیل سے فرار ہوا۔
بھارتی ماہی گیر کا فرار اہم واقعہ قرار
تحقیقاتی ادارے ڈسٹرکٹ جیل ملیر سے بھارتی ماہی گیر کے فرار کو اہم واقعہ قرار دے رہے ہیں جس کے فرار میں جیل حکام کے ملوث ہونے کے بھی کچھ شواہد ملے تھے، واقعے کے بعد چند جیل افسران و اہلکاروں کو معطل کیا گیا لیکن ملیر جیل کے اعلیٰ حکام نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے اپنے منظورنظر افراد کو دوبارہ نہ صرف بحال کرالیا بلکہ دوبارہ ان ہی مقامات پر تعینات بھی کردیا گیا، واقعے کی تحقیقات بھی دبالی گئی۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔