سب سے بڑا مسئلہ

نصرت جاوید  بدھ 29 اگست 2012
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

کون کہتا ہے کہ پاکستان میں بھوک، بے روزگاری اور لوڈشیڈنگ پھیل چکی ہے؟ کرپشن بھی‘ آج کل مجھے کوئی بہت بڑا مسئلہ نظر نہیں آ رہا۔ دہشت گردی بھی کہیں نہیں ہو رہی۔ اگر اس نام کی کوئی شے پاکستان میں موجود ہوتی تو ’’تبدیلی کے نشان‘‘ ہفتوں پہلے ایک تاریخ کا اعلان کرنے کے بعد اس روز اپنے ’’کم از کم ایک لاکھ‘‘ پرستاروں کے قافلے کے ساتھ وزیرستان جانے کا تہیہ نہ کیے بیٹھے ہوتے۔ پچھلے کچھ روز سے اپنے سے کہیں زیادہ تجربہ کار، ذہین و فطین اور ربّ سے لو لگائے ہوئے کالم نگاروں کو پڑھنے کے بعد مجھے اب اندازہ ہوا ہے کہ اس ملک کا سب سے بڑا مسئلہ فحاشی ہے جو مبینہ طور پر ہمارے کبھی تیزی سے پھیلتے پھولتے اور آج کل محض زندہ رہنے کی فکر میں ہلکان ٹیلی وژن چینلز پھیلا رہے ہیں۔

فحاشی اتنا سنگین مسئلہ نہ ہوتی تو قاضی حسین احمد اور جسٹس (ریٹائرڈ) وجیہہ الدین احمد جیسے زعما اسے رکوانے کے لیے سپریم کورٹ جانے پر مجبور نہ ہوتے۔ عدالت نے ان کی فریاد ہمدردانہ فکر سے سنی اور اب ٹیلی وژن چینلوں کو راہِ راست پر رکھنے کے لیے بنایا جانے والا PEMRA عقل و فہم والوں کے اجلاس بلوا رہا ہے۔ ایک اجلاس پیر کو بھی ہوا۔ اس میں اہم سوال یہی رہا کہ پہلے یہ جان لیا جائے کہ فحاشی ہوتی کیا ہے۔ کوئی متفقہ تشریح یا تعبیر کے نہ ملنے کی صورت میں تجویز یہ بھی آئی کہ کیوں نہ اسلامی نظریاتی کونسل سے رجوع کر لیا جائے۔ اس تجویز کی فوری پذیرائی نہیں ہوئی۔ معاملہ ایک اور اجلاس پر ٹال دیا گیا ہے۔

اپنے ملک میں ٹیلی وژن چینلوں کے ذریعے مبینہ طور پر پھیلائی جانے والی فحاشی کے بارے میں اپنے سنجیدہ اور متین ساتھیوں اور بزرگوں کی فکرمندی نے مجھے احساسِ جرم میں مبتلا کر دیا ہے۔ مجھے شبہ ہو چلا ہے کہ میں اگر بے غیرت نہیں تو بے حس ضرور ہو گیا ہوں جو اتنے اہم مسئلہ کو دیکھ ہی نہ پایا۔ اپنی بے حسی مجھے یہ سوچ کر اور زیادہ پریشان کر دیتی ہے کہ میں اب گلیوں سے اُٹھا آوارہ گرد نہیں رہا۔ میرے 50 سالوں کے ساتھ اب جو نمبر لگ رہے ہیں وہ تیزی سے 60 کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ لکھتا اور ٹیلی وژن پر بولتا بھی ہوں۔ شادی بھی کر رکھی ہے اور اس کی وجہ سے بچے بھی ہیں جو اب بلوغت کی حد تک پہنچ چکے ہیں۔

اب سب کے ہوتے ہوئے میرے اندر ایک ذمے دار باپ کی وہ فرض شناسی کیوں نہ اُبھر پائی جو فکر کرے کہ ہمارے ٹیلی وژن چینلوں پر کیا دکھایا جا رہا ہے اور جو کچھ دکھایا جا رہا ہے وہ میں اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر دیکھ سکتا ہوں یا نہیں۔ اسی احساسِ جرم کی شدت سے بوکھلا کر میں بستر سے اُٹھ کر اپنے تئیں ’’چھاپہ مارنے‘‘ کے انداز میں اپنے گھر کے اس حصے میں چلا گیا جسے Sitting Room کہا جاتا ہے۔ ہمارا ٹی وی سیٹ بھی وہیں ہوتا ہے اور وڈیو سے متعلق دوسرے آلات و لوازمات بھی۔

جب میں اپنے سٹنگ روم میں گیا تو شام کے سات بج چکے تھے مگر ہمارا ٹیلی وژن بند تھا۔ تلاش کی تو پتہ چلا کہ میری بیگم صاحبہ اپنے کمپیوٹر پر بیٹھی بڑی تیزی سے ایک رپورٹ مکمل کر رہی تھی جسے مکمل کرنے کے بعد اس کو وہ پیسے ملنے کی امید تھی جو ہمارا گھر چلانے میں مددگار ہوا کرتے ہیں۔ بڑی بچی اپنا کمرہ بند کیے اونچی اونچی آواز میں رٹا لگا کر ایک ٹیسٹ کی تیاری کر رہی تھی۔ چھوٹی کو ملنے اس کی ایک دوست آئی ہوئی تھی۔ کوئی امکان نظر نہیں آ رہا تھا کہ میں اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ بیٹھ کر ریموٹ کے بٹن دباتا ہوا یہ دریافت کر سکوں کہ کون سا ٹیلی وژن وہ پروگرام یا اشتہار چلا رہا ہے جو آپ اپنے بچوں کے ساتھ بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتے۔ مایوس ہو کر اپنے کمرے میں لوٹ آیا۔

بستر پر لیٹا تو معاً خیال آیا کہ ریموٹ کیا ہے۔ میری دانست میں یہ بہت بڑی ایجاد ہے۔ ایک طرف تو یہ آپ کو اپنی جگہ سے ہلے بغیر آپ کے ٹیلی وژن پر کیبل کے ذریعے آنے والے تقریباً ایک سو ٹیلی وژنوں کا جائزہ لینے کی سہولت میسر کرتا ہے تو دوسری طرف یہی ریموٹ آپ کو یہ اختیار بھی دیتا ہے کہ آپ اپنی پسند کے چینل پر رک جائیں‘ جس کے پروگرام پسند نہ ہوں وہاں کبھی نہ جائیں۔ اب تو ایسے ریموٹ بھی ہیں جن میں والدین ان پروگراموں کے چینلوں کو لاک (Lock) کر سکتے ہیں جو انھیں پسند نہ ہوں۔ ریموٹ کے بے پناہ امکانات اور طاقت کو جان لینے کے بعد مجھے تو کسی اور شخص یا ادارے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی جو مجھے یا میرے خاندان کو فحش پروگرام دیکھنے سے روکنے میں مددگار ہو۔

مگر میں شاید محض ایک فرد ہوں جو ایک مخصوص ماحول میں رہ رہا ہے۔ پاکستان کے لوگوں کی بے پناہ اکثریت ان حالات میں نہ رہتی ہو گی۔ جبھی تو مجھ سے کہیں زیادہ ذہین و فطین اور ربّ سے لو لگائے بیٹھے میرے ساتھی اور بزرگ اس ملک میں بڑھتی ہوئی فحاشی کے بارے میں اتنے فکرمند نظر آ رہے ہیں۔

فحاشی کی تعریف میں بھی جاننا چاہوں گا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جوش ملیح آبادی نے اپنی ’’یادوںکی برات‘‘ میں بڑی تفصیل سے لکھا تھا کہ ان کے بچپن میں شرفاء کے گھروں میں کون سی کون سی سبزیاں بغیر کٹے ہوئے مستورات کی نظروں سے چھپائی جاتی تھیں۔ جوش صاحب زندہ ہوتے تو ان سے استدعا کرتا کہ وہ آج کل کے رواج کا بھی پتہ کر لیں۔

اپنے بچپن کے حوالے سے مجھے تو بس اتنا یاد ہے کہ میرے ایک بہت ہی شفیق تایا تھے۔ انھیں ’’آنہ لائبریریوں‘‘ سے موٹے موٹے ناول‘ جو عام طور پر نسیم حجازی یا عبدالحلیم شرر کے ہوا کرتے تھے‘ کرایے پر لینے کے بعد ایک ہی نشست میں ختم کرنے کا جنون ہوا کرتا تھا۔ وہ جب بھی فارغ ہوتے اور میں ان کے اِردگرد ہوتا تو مجھے پکار کر اپنے سرہانے پڑا اخبار میرے ہاتھ میں تھما دیتے۔ ان کی عینک یا تو انھیں مل نہ رہی ہوتی تھی یا اس میں لگے شیشے ان کے کام نہ آیا کرتے۔ اسی بنیاد پر وہ مجھے بلند آواز میں اخبار پڑھ کر انھیں سنانے کا حکم دیتے۔

یہ بات تو میں نے ان کے مر جانے کے بعد دریافت کی کہ عینک کا تو محض بہانہ ہوتا تھا۔ مجھ سے اخبار پڑھوا کر دراصل وہ میرا تلفظ درست کرنا یا مشکل الفاظ کی ادائیگی سکھایا کرتے تھے۔ میں اکثر ان کے ساتھ لاہور کے سرکلر روڈ پر سفر کیا کرتا تھا۔ مجھے اس سفر میں بہت لطف آتا تھا مگر یہ سارا لطف اس وقت غارت ہو جاتا جب کبھی میرے تایا اپنی سواری کو ایک موریہ پل سے دائیں ہاتھ موڑ کر ریلوے اسٹیشن والی سڑک پر ڈال دیتے۔ وہاں ریلوے لائن کے نیچے نیچے پھیلی دیوار رنگ دار برشوں سے لکھے اشتہاروں سے بھری ہوتی۔ فلموں کے علاوہ باقی سارے اشتہار کچھ بیماریوں کے اکسیر علاج کے وعدے کرتے پائے جاتے۔

میں ان بیماریوں کے نام باآوازِ بلند پڑھ کر محض یہ جاننا چاہتا کہ ’’تایا ابو یہ کیا ہوتا ہے‘‘ اور وہ مجھے سختی سے ڈانٹ کر خاموش کروا دیتے۔ مختلف النوع ’’کمزوریوں‘‘ کے اکسیر علاج کے بارے میں دعوئوں سے بھرے دیواری اشتہاروں کی بھرمار کے ساتھ بچپن سے جوانی اور پھر بڑھاپے کی طرف آتے ہوئے میرے اندر اپنے پارسا معاشرے میں فحاشی دریافت کرنے کی حس کب کی مر چکی ہے۔ اب اسے کیسے بیدار کروں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔