ایف آئی اے اور امیگریشن حکام کا گٹھ جوڑ، مسافروں سے کروڑوں کی وصولی

عادل جواد  پير 16 ستمبر 2013
وزٹ ویزے پر بیرون ملک جاکر نوکری کرنیوالوں سے فی کس500 امریکی ڈالر لیے جاتے ہیں،ڈی پورٹ ہوجائیں تو دوبارہ رقم لی جاتی ہے. فوٹو: فائل

وزٹ ویزے پر بیرون ملک جاکر نوکری کرنیوالوں سے فی کس500 امریکی ڈالر لیے جاتے ہیں،ڈی پورٹ ہوجائیں تو دوبارہ رقم لی جاتی ہے. فوٹو: فائل

کراچی: انسانی اسمگلروں اور ایف آئی اے امیگریشن کے گٹھ جوڑ کے ذریعے بیرون ملک جانیوالے مسافروں سے سالانہ کروڑوں روپے وصول کیے جاتے ہیں۔

وزٹ ویزے پر بیرون ملک جاکر نوکری کرنے کے خواہشمند افراد سے فی کس5 سو امریکی ڈالر وصول کیے جاتے ہیں، روزانہ15 سے 20 مسافر امیگریشن حکام کو ایجنٹ کے ذریعے ادائیگی کرتے ہیں۔ ڈی پورٹ ہونے کی صورت میں اتنی ہی رقم ایک مرتبہ پھر امیگریشن کو ادا کی جاتی ہے۔ اس بات کا انکشاف محکمہ میں کی جانے والی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں کیا گیا۔ تحقیقاتی رپورٹ میں اس سلسلے میں ایک کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایف آئی اے کرائم سرکل نے 2 شہریوں کی شکایت پر چند دن قبل امیگریشن (آمد) کے شفٹ انچارج محمد اکبر سرکی اور ہیڈ کانسٹیبل اشفاق منگی کو مسافروں کو ہراساں کرنے اور رشوت وصول کرنے کے الزام میں گرفتار کرکے مقدمہ درج کیا تھا۔ مقدمے کی تفتیش کے دوران انکشاف ہوا کہ ایف آئی اے امیگریشن اور انسانی اسمگلروں کے درمیان دیرینہ اور گہرے مراسم ہیں۔

روزانہ جنوبی کوریا، ، ملائشیا، انڈونیشیا، روس،جنوبی افریقہ سمیت دیگر افریقی ممالک میں جانے والے مسافروں سے فی کس 5 سو ڈالر وصول کیے جاتے ہیں۔ یہ رقم عمومی طور پر ایجنٹ کے ذریعے وصول کی جاتی ہے تاہم بعض اوقات مسافر براہ راست اپنی روانگی کے وقت امیگریشن حکام کو ادائیگی کرتے ہیں۔ رقم ادا نہ کرنے کی صورت میں امیگریشن کا عملہ ویزا درست ہونے کے باوجود مختلف حیلوں بہانوں کے ذریعے ان افراد کو آف لوڈ کردیتا ہے، عمومی طور پر اس سلسلے میں ویزا ویری فیکیشن، لو پروفائل ہونا اور مسافر کی دستاویزات مشکوک ہونے کے اعتراضات لگائے جاتے ہیں، ایسے مسافر جو ایک مرتبہ آف لوڈ ہونے کے بعد مقررہ رقم کی ادائیگی کردیتے ہیں تو انھیں لگائے گئے اعتراض کو دور کیے بغیر ہی جانے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔

ذرائع کے مطابق وصول کی جانیوالی رقم میں سے 4 سو امریکی ڈالر امیگریشن (روانگی) پر تعینات عملے میں تقسیم کیے جاتے ہیں جبکہ100 ڈالر امیگریشن (آمد) کے عملے کو دیے جاتے ہیں۔ اگر ان مسافروں میں سیکوئی اپنے مطلوبہ ملک کی امیگریشن کی جانب سے ڈی پورٹ کردیا جاتا ہے تو امیگریشن (آمد) کے عملے کو ایجنٹ کے ذریعے اتنی ہی رقم ادا کی جاتی ہے تا کہ مسافر اور ایجنٹ کے خلاف قانونی کارروائی نہ کی جائے۔ ذرائع نے بتایا کہ ایف آئی اے امیگریشن میں سالہا سال سے تعینات عملے اور انسانی اسمگلروں کے مابین دیرینہ تعلقات ہیںاور یہ لوگ انتہائی ’’ایمانداری‘‘ سے ایک دوسرے کو خدمات فراہم کرتے ہیں ۔

اگر کوئی ایجنٹ ایف آئی اے کو ادائیگی کے بغیر اپنے مسافر بھیجنے کی کوشش کرتا ہے تو دوسرا ایجنٹ ایف آئی اے کو مخبری کردیتا ہے جس کے بعد اس ایجنٹ کو بلیک لسٹ کردیا جاتا ہے۔ ذرائع نے بتایا کہ اگر اعلی حکام کی جانب سے اس سلسلے میں کبھی پوچھ گچھ کی جاتی ہے تو امیگریشن کا عملہ یہ موقف اختیار کرتا ہے کہ ان کا اصل کام ویزے کو چیک کرنا ہے تاہم دلچسپ امر ہے کہ جب وہ کسی مسافر کو ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے آف لوڈ کرتے ہیں تو اس کیلیے دیگر عذر تراشے جاتے ہیں۔ ذرائع بتایا کہ اس ساری صورتحال میں سب سے زیادہ متاثر قانونی طور پر بیرون ملک جانے والے مسافر ہوتے ہیں جنھیں امیگریشن کا عملہ بلاجواز تنگ کرتا ہے اور اکثر اوقات تمام دستاویزات درست ہونے کے باوجود آف لوڈ کردیتا ہے اور صرف ایسے ہی افراد بغیر ادائیگی کے بیرون ملک جانے میں کامیاب ہوتے ہیں جن کی پہنچ اعلیٰ حکام تک ہوتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔