ثنا اللہ زہری کے قیادت سے اختلافات، 100روز بعد بھی بلوچستان کابینہ نہ بن سکی

تنویر محمود راجہ  پير 16 ستمبر 2013
زہری کے تجویز کردہ نام اچھی شہرت کے حامل نہیں جس پروزیراعلیٰ کوتحفظات ہیں،وزیراعظم بھی نام مستردکرچکے. فوٹو این این آئی

زہری کے تجویز کردہ نام اچھی شہرت کے حامل نہیں جس پروزیراعلیٰ کوتحفظات ہیں،وزیراعظم بھی نام مستردکرچکے. فوٹو این این آئی

اسلام آباد: ن لیگ بلوچستان کے صدرسردار ثنا اللہ زہری کے پارٹی قیادت سے اختلافات کے باعث 100دن گذرنے کے بعدبھی صوبائی کابینہ کی تشکیل نہ ہو سکی۔

باوثوق ذرائع سے معلوم ہواہے کہ وزیر اعلیٰ ڈاکٹرعبد المالک نے گزشتہ دنوںن لیگ کی طرف سے سردار ثنا اللہ زہری کے تجویز کردہ ناموں پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے وزیر اعظم کو بتایا کہ یہ ارکان اچھی شہرت کے حامل نہیں ہیں اور گزشتہ دنوںبد امنی کیس میں عدالت عظمیٰ بھی کہہ چکی ہے کہ بلوچستان کے بعض ممبران صوبائی اسمبلی اغوا برائے تاوان میں ملوث ہیںلہٰذا ایسے وزرا کے ساتھ میں بہتر نتائج نہیں دے سکتا۔ اس پر وزیر اعظم نے بھی ثنا اللہ زہری کے بھیجے گئے ناموں کو مسترد کرتے ہوئے پارٹی کی صوبائی قیادت کو اس معاملے سے الگ کر دیا۔

سردار ثنا اللہ زہری نے پارٹی قیادت کے اس فیصلے پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے مستقبل کے لائحہ عمل کیلیے قریبی دوستوں سے صلاح مشورے شروع کر دیے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ 11 مئی کے عام انتخابات میں ن لیگ کو واضح اکثریت ملنے کے بعد سردار ثنا اللہ زہری نے وزارت اعلیٰ کے لیے لابنگ شروع کی تو انھوں نے بعض آزاد ارکان کو وزارت کا وعدہ کر کے اپنے ساتھ بھی ملا لیا لیکن وزیراعظم نواز شریف نے اتحادی جماعتوں کی مشاورت سے وزارت اعلیٰ کامنصب قوم پرست جماعت نیشنل پارٹی کو دیا جس کے بعد سے اب تک صوبائی کابینہ کی تشکیل میں شدید مشکلات درپیش ہیں۔

ذرائع کے مطابق سردار ثنا اللہ زہری نے جن ارکان کی حمایت کی ان میں اکبر اسکانی، دستگیر بادینی اور امان اللہ نوتیزئی شامل ہیں۔ اس حوالے سے ن لیگ کو پارٹی کے اندر بھی شدید مزاحمت کا سامناہے جبکہ نیشنل پارٹی کے ذرائع نے بھی اس کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی کابینہ کی تشکیل کے لیے پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی اور نیشنل پارٹی نے اپنے نام فائنل کیے ہیں لیکن تا حال ن لیگ اس بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کر سکی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔