تحریک طالبان نے مذاکرات فاٹا س فوج نکالنے اور ساتھی جنگجوؤں کی رہائی سے مشروط کردیے

اے ایف پی / خبر ایجنسیاں  پير 16 ستمبر 2013
ہمارے دونوں مطالبات تسلیم ہونے تک بات آگے نہیں بڑھ سکتی، ترجمان تحریک طالبان. فوٹو: فائل

ہمارے دونوں مطالبات تسلیم ہونے تک بات آگے نہیں بڑھ سکتی، ترجمان تحریک طالبان. فوٹو: فائل

اسلام آباد / پشاور: کالعدم تحریک طالبان نے حکومت کے ساتھ امن مذاکرات کے آغاز کو اپنے ساتھی جنگجوئوں کی رہائی اور قبائلی علاقوں سے فوج کی واپسی کے ساتھ مشروط کر دیا ہے۔

کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان شاہداللہ شاہد نے طالبان کی طرف سے حکومت کو قیدیوں کی فہرست دینے اور کسی طرح کے مذاکرات کے آغاز کی خبروں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کی مجلس شوریٰ نے حکومت کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش پر ہر پہلو سے غور کے بعد کہا ہے کہ اگر حکومت قبائلی علاقوں سے فوج نکالنے اور طالبان قیدیوں کی رہائی جیسے سنجیدہ اقدامات اٹھائے تو طالبان کا اعتماد بحال ہوسکتا ہے۔ اتوار کو نامعلوم مقام سے مجلس شوریٰ کے اجلاس کے بعد میڈیا کیلیے اپنے بیان میں تحریک طالبان کے ترجمان نے کہا کہ تحریک طالبان کا اہم اجلاس حکیم اللہ محسودکی زیرصدارت منعقد ہوا۔

اجلاس میں تحریک سے وابستہ پنجابی طالبان اور ملک بھر سے نمائندوں نے شرکت کی۔ ترجمان کے مطابق اجلاس میں حکومت کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش پر تفصیلی غور کے بعد فیصلہ کیا گیا ہے کہ یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ پہلے حکومت طالبان کی اعتماد سازی کیلیے قبائلی علاقوں سے فوج کے انخلا اور قیدیوں کی رہائی جیسے اقدامات اٹھائے۔ طالبان ترجمان نے بعض صحافیوں کی طرف سے امن عمل کو سبوتاژ کرنے کیلیے غیر ذمے دارانہ رپورٹنگ پر وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ ہم ایسے صحافیوں سے غافل نہیں ہیں۔

شاہداللہ شاہد نے میڈیا کی بعض رپورٹس کی تردید کرتے ہوئے کہاکہ طالبان اور حکومت کے درمیان اب تک کوئی مذاکرات شروع ہوئے نہ ہی ہماری طرف سے حکومت کو قیدیوں کی کوئی فہرست دی گئی ہے، میڈیا اس حوالے سے بے بنیاد پروپیگنڈہ نہ کرے۔ آئی این پی کے مطابق ترجمان تحریک طالبان نے کہا کہ حکومت سے مذاکرات ہوئے تو طالبان قیدیوں کی رہائی اور قبائلی علاقوں سے فوج کو ہٹانے کی اہم شرائط رکھی جائیں گی، مذاکرات کیلیے حکومت کا سنجیدہ اور بااختیار ہونا لازمی ہے۔

بی بی سی کے مطابق کالعدم تحریک طالبان نے مذاکرات کی پیشکش قبول کرنے سے قبل قبائلی علاقوں میں تعینات فوج کی واپسی اور اپنے تمام ساتھی قیدیوں کی رہائی کی شرائط رکھی ہیں۔ ترجمان نے کہا ہے کہ وہ مذاکرات کے آغاز سے قبل یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ پاکستانی حکومت بات چیت کیلیے بااختیار اور مخلص ہے اور مزید بات اس وقت تک نہیں ہو سکتی جب تک حکومت ہمارے یہ2مطالبے نہیں مان لیتی۔ ترجمان نے کہا کہ ان شرائط پر عمل نہ کیا گیا تو بات چیت کا آگے بڑھنا ممکن نہیں۔ اس معاملے پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سینئرصحافی اور تجزیہ کار رحیم اللہ یوسفزئی نے کہا کہ طالبان سے بات چیت کا معاملہ بہت پیچیدہ ہے اور کسی ایک گروپ اور مرکزی قیادت سے بات کرنے سے یہ مسئلہ مکمل طور پر حل نہیں ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔