- موٹر وے پولیس اہل کار کو ٹکر مارنے والی خاتون جوڈیشل ریمانڈ پر جیل روانہ
- کراچی میں رینجرز ہیڈ کوارٹرز سمیت تمام عمارتوں کے باہر سے رکاوٹیں ہٹانے کا حکم
- اوگرا کی تیل کی قیمتیں ڈی ریگولیٹ کرنے کی تردید
- منہدم نسلہ ٹاور کے پلاٹ کو نیلام کر کے متاثرہ رہائشیوں کو پیسے دینے کا حکم
- مہنگائی کے باعث لوگ اپنے بچوں کو فروخت کرنے پر مجبور ہیں، پشاور ہائیکورٹ
- کیا عماد، عامر اور فخر کو آج موقع ملے گا؟
- سونے کی قیمتوں میں معمولی اضافہ
- عمران خان، بشریٰ بی بی کو ریاستی اداروں کیخلاف بیان بازی سے روک دیا گیا
- ویمنز ٹیم کی سابق کپتان بسمہ معروف نے ریٹائرمنٹ کا اعلان کردیا
- امریکی یونیورسٹیز میں ہونے والے مظاہروں پر اسرائیلی وزیراعظم کی چیخیں نکل گئیں
- پولیس یونیفارم پہننے پر مریم نواز کیخلاف کارروائی ہونی چاہیے، یاسمین راشد
- قصور ویڈیو اسکینڈل میں سزا پانے والے 2 ملزمان بری کردیے گئے
- سپریم کورٹ نے اسپیکر بلوچستان اسمبلی عبدالخالق اچکزئی کو بحال کر دیا
- مرغی کی قیمت میں کمی کیلیے اقدامات کر رہے ہیں، وزیر خوراک پنجاب
- عوام کو کچھ نہیں مل رہا، سارا پیسہ سرکاری تنخواہوں میں دیتے رہیں گے؟ چیف جسٹس
- وزیراعلیٰ بننے کیلئے خود کو ثابت کرنا پڑا، آگ کے دریا سے گزر کر پہنچی ہوں، مریم نواز
- کلین سوئپ شکست؛ ویمنز ٹیم کی سلیکشن کمیٹی میں بڑی تبدیلیاں
- قومی اسمبلی کمیٹیاں؛ حکومت اور اپوزیشن میں پاور شیئرنگ کا فریم ورک تیار
- ٹرین میں تاریں کاٹ کر تانبہ چوری کرنے والا شخص پکڑا گیا
- غزہ کے اسپتالوں میں اجتماعی قبریں، امریکا نے اسرائیل سے جواب طلب کرلیا
پبلک سیکٹر انٹرپرائزز میں صرف سرکاری افسر نامزد کیے جائیں، ٹرانسپیرنسی
اسلام آباد: ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے 25 جولائی 2013 کو وزیر خزانہ کو خط لکھا تھا کہ پبلک سیکٹر انٹرپرائزز اور پبلک لسڈ کمپنیز کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں حکومتی نمائندگی کرنیوالے افسران معاوضہ فی اجلاس معاوضہ حاصل کرتے ہیں مگر اسے قومی خزانے میں جمع نہیں کرتے، مگر اس خط کا تاحال جواب موصول نہیں ہوا۔
خط میں بتایا گیا تھا کہ پبلک سیکٹر انٹرپرائزز اور پبلک لسڈ کمپنیز کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں جن سرکاری افسران کی بطور ڈائریکٹر نامزدگی کی جاتی ہے وہ فی اجلاس بھاری معاوضہ وصول کرتے ہیں مگر اسے قومی خزانے میں جمع نہیں کراتے۔ پاک اومان ہولڈنگ کا فی اجلاس معاوضہ 5 لاکھ روپے ہے اور پاک کویت کا معاوضہ 10 ہزار ڈالر۔ ایسے بھاری معاوضے والی آسامیوں پر تعیناتیاں سیاسی اثر ورسوخ کے تحت کی جاتی ہیں۔
یہ بھی بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال نیشنل بنک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے 100 اجلاس ہوئے اور فی اجلاس معاوضہ 85 ہزار روپے ہے۔ اس طرح حکومتی نامزد ڈائریکٹر کی غیرقانونی آمدنی 85 لاکھ روپے بنتی ہے۔ ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل نے وزیر خزانہ سے درخواست کی تھی کہ پبلک سیکٹر انٹرپرائزز میں تعینات تمام سرکاری افسران سے کہا جائے کہ وہ گزشتہ 5 سالوں کے دوران حاصل کردہ اضافی آمدن کا اعلان کریں اور اسے قومی خزانے میں جمع کرائیں۔ حکومت حاضر سروس اور ریٹائرڈ سرکاری افسران کو فنانس کمیٹی میں تعینات کررہی ہے، افسران سے کہا جانا چاہیے کہ وہ کوئی فیس وصول نہ کریں اور یہ بھی سفارش کی جاتی ہے کہ پبلک سیکٹر انٹرپرائزز میں مالیاتی اداروں میں صرف سرکاری افسران کو ہی تعینات کیا جائے نہ کہ عام افراد کو۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔