پبلک سیکٹر انٹرپرائزز میں صرف سرکاری افسر نامزد کیے جائیں، ٹرانسپیرنسی

ایکسپریس رپورٹ  پير 16 ستمبر 2013
ماضی میں بھاری فیسیں وصول کرنیوالے افسران کے حوالے سے خط کا تاحال جواب نہیں ملا. فوٹو: فائل

ماضی میں بھاری فیسیں وصول کرنیوالے افسران کے حوالے سے خط کا تاحال جواب نہیں ملا. فوٹو: فائل

اسلام آباد: ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے 25 جولائی 2013 کو وزیر خزانہ کو خط لکھا تھا کہ پبلک سیکٹر انٹرپرائزز اور پبلک لسڈ کمپنیز کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں حکومتی نمائندگی کرنیوالے افسران معاوضہ فی اجلاس معاوضہ حاصل کرتے ہیں مگر اسے قومی خزانے میں جمع نہیں کرتے، مگر اس خط کا تاحال جواب موصول نہیں ہوا۔

خط میں بتایا گیا تھا کہ پبلک سیکٹر انٹرپرائزز اور پبلک لسڈ کمپنیز کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں جن سرکاری افسران کی بطور ڈائریکٹر نامزدگی کی جاتی ہے وہ فی اجلاس بھاری معاوضہ وصول کرتے ہیں مگر اسے قومی خزانے میں جمع نہیں کراتے۔ پاک اومان ہولڈنگ کا فی اجلاس معاوضہ 5 لاکھ روپے ہے اور پاک کویت کا معاوضہ 10 ہزار ڈالر۔ ایسے بھاری معاوضے والی آسامیوں پر تعیناتیاں سیاسی اثر ورسوخ کے تحت کی جاتی ہیں۔

یہ بھی بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال نیشنل بنک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے 100 اجلاس ہوئے اور فی اجلاس معاوضہ 85 ہزار روپے ہے۔ اس طرح حکومتی نامزد ڈائریکٹر کی غیرقانونی آمدنی 85 لاکھ روپے بنتی ہے۔ ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل نے وزیر خزانہ سے درخواست کی تھی کہ پبلک سیکٹر انٹرپرائزز میں تعینات تمام سرکاری افسران سے کہا جائے کہ وہ گزشتہ 5 سالوں کے دوران حاصل کردہ اضافی آمدن کا اعلان کریں اور اسے قومی خزانے میں جمع کرائیں۔ حکومت حاضر سروس اور ریٹائرڈ سرکاری افسران کو فنانس کمیٹی میں تعینات کررہی ہے، افسران سے کہا جانا چاہیے کہ وہ کوئی فیس وصول نہ کریں اور یہ بھی سفارش کی جاتی ہے کہ پبلک سیکٹر انٹرپرائزز میں مالیاتی اداروں میں صرف سرکاری افسران کو ہی تعینات کیا جائے نہ کہ عام افراد کو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔