- پنجاب گرمی کی لپیٹ میں، آج اور کل گرج چمک کیساتھ بارش کا امکان
- لاہور میں بچے کو زنجیر سے باندھ کر تشدد کرنے کی ویڈیو وائرل، ملزمان گرفتار
- پشاور؛ بس سے 2 ہزار کلو سے زیادہ مضر صحت گوشت و دیگر اشیا برآمد
- وزیراعلیٰ پنجاب نے نوازشریف کسان کارڈ کی منظوری دے دی
- بھارتی فوجی نے کلکتہ ایئرپورٹ پر خود کو گولی مار کر خودکشی کرلی
- چائلڈ میرج اور تعلیم کا حق
- بلوچستان؛ ایف آئی اے کا کریک ڈاؤن، بڑی تعداد میں جعلی ادویات برآمد
- قومی ٹیم کی کپتانی! حتمی فیصلہ آج متوقع
- پی ایس 80 دادو کے ضمنی انتخاب میں پی پی امیدوار بلامقابلہ کامیاب
- کپتان کی تبدیلی کیلئے چیئرمین پی سی بی کی زیر صدارت اہم اجلاس
- پاکستان کو کم از کم 3 سال کا نیا آئی ایم ایف پروگرام درکار ہے، وزیر خزانہ
- پاک آئرلینڈ ٹی20 سیریز؛ شیڈول کا اعلان ہوگیا
- برج خلیفہ کے رہائشیوں کیلیے سحر و افطار کے 3 مختلف اوقات
- روس کا جنگی طیارہ سمندر میں گر کر تباہ
- ہفتے میں دو بار ورزش بے خوابی کے خطرات کم کرسکتی ہے، تحقیق
- آسٹریلیا کے انوکھے دوستوں کی جوڑی ٹوٹ گئی
- ملکی وے کہکشاں کے درمیان موجود بلیک ہول کی نئی تصویر جاری
- کپتان کی تبدیلی کے آثار مزید نمایاں ہونے لگے
- قیادت میں ممکنہ تبدیلی؛ بورڈ نے شاہین کو تاحال اعتماد میں نہیں لیا
- ایچ بی ایف سی کا چیلنجنگ معاشی ماحول میں ریکارڈ مالیاتی نتائج کا حصول
پبلک سیکٹر انٹرپرائزز میں صرف سرکاری افسر نامزد کیے جائیں، ٹرانسپیرنسی
اسلام آباد: ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے 25 جولائی 2013 کو وزیر خزانہ کو خط لکھا تھا کہ پبلک سیکٹر انٹرپرائزز اور پبلک لسڈ کمپنیز کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں حکومتی نمائندگی کرنیوالے افسران معاوضہ فی اجلاس معاوضہ حاصل کرتے ہیں مگر اسے قومی خزانے میں جمع نہیں کرتے، مگر اس خط کا تاحال جواب موصول نہیں ہوا۔
خط میں بتایا گیا تھا کہ پبلک سیکٹر انٹرپرائزز اور پبلک لسڈ کمپنیز کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں جن سرکاری افسران کی بطور ڈائریکٹر نامزدگی کی جاتی ہے وہ فی اجلاس بھاری معاوضہ وصول کرتے ہیں مگر اسے قومی خزانے میں جمع نہیں کراتے۔ پاک اومان ہولڈنگ کا فی اجلاس معاوضہ 5 لاکھ روپے ہے اور پاک کویت کا معاوضہ 10 ہزار ڈالر۔ ایسے بھاری معاوضے والی آسامیوں پر تعیناتیاں سیاسی اثر ورسوخ کے تحت کی جاتی ہیں۔
یہ بھی بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال نیشنل بنک کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے 100 اجلاس ہوئے اور فی اجلاس معاوضہ 85 ہزار روپے ہے۔ اس طرح حکومتی نامزد ڈائریکٹر کی غیرقانونی آمدنی 85 لاکھ روپے بنتی ہے۔ ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل نے وزیر خزانہ سے درخواست کی تھی کہ پبلک سیکٹر انٹرپرائزز میں تعینات تمام سرکاری افسران سے کہا جائے کہ وہ گزشتہ 5 سالوں کے دوران حاصل کردہ اضافی آمدن کا اعلان کریں اور اسے قومی خزانے میں جمع کرائیں۔ حکومت حاضر سروس اور ریٹائرڈ سرکاری افسران کو فنانس کمیٹی میں تعینات کررہی ہے، افسران سے کہا جانا چاہیے کہ وہ کوئی فیس وصول نہ کریں اور یہ بھی سفارش کی جاتی ہے کہ پبلک سیکٹر انٹرپرائزز میں مالیاتی اداروں میں صرف سرکاری افسران کو ہی تعینات کیا جائے نہ کہ عام افراد کو۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔