- جامعہ کراچی کے اساتذہ و ملازمین کیلئے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی فیسیں معاف
- مریضوں کی بینائی جانے کا معاملہ، پنجاب حکومت نے اویسٹن انجکشن پر پابندی لگادی
- اٹک جیل انتظامیہ نے عمران خان کو عدالت پیش کرنے سے معذوری ظاہر کردی
- عمرعطا بندیال کے فون پر جسٹس طارق مسعود ناراض ہوگئے تھے، اہم تفصیلات سامنے آگئیں
- این ای ڈی انٹری ٹیسٹ کے نتائج نے سندھ میں معیارتعلیم کی قلعی کھول دی
- کراچی میں چپ تعزیہ جلوسوں کے موقع پر متبادل روٹس کا اعلان
- اسرائیل سے تعلقات؛ قوم اور فلسطین کے مفاد کو مد نظر رکھا جائے گا، وزیرخارجہ
- بھارت نے آسٹریلیا کیخلاف ون ڈے سیریز جیت لی
- بلغاریہ کے انٹرنیشنل پارک کا ایک گوشہ فلسطین کے نام سے منسوب
- گلوبل ویٹرنز کپ میں پاکستان کی مسلسل چوتھی فتح
- بھارت نے کینیڈین شہریوں کیلئے ویزوں کا اجرا معطل کردیا
- عمران خان کے بغیر بھی انتخابات ہوسکتے ہیں، نگراں وزیراعظم
- ایران میں دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی کے الزام میں داعش کے 28 ارکان گرفتار
- ہوائی جہاز میں دوران سفر ’سورہی‘ خاتون مسافر مُردہ نکلیں
- کراچی اور لاہور میں طیاروں کو جی پی ایس سگنلز ملنے میں دشواری
- محمد آصف کی تنقید کے بعد بابراعظم کے والد کا ردعمل بھی آگیا
- سندھ میں ڈینگی کے مزید 17 کیسز رپورٹ
- ورلڈ کپ کی سیمی فائنلسٹ ٹیمیں کون ہوں گی؟ ہاشم آملہ نے بتادیا
- نواب شاہ ؛ بجلی چوری میں معاونت پر دو ایس ڈی اوز اور دو لائن مین معطل
- لوگ جسمانی صحت سے زیادہ ذہنی صحت کے لیے ورزش کرتے ہیں، سروے
ملک کے 50 فیصد خاندان دو وقت کی روٹی اور 40 فیصد بچے غذائی قلت کے شکار
کراچی: پاکستان میں آباد 50 فیصد گھرانے غذائی قلت کے شکار ہیں اور انہیں دو وقت کی روٹی بھی نہیں مل پاتی،ساتھ ہی غذائی کمی سے سندھ اور بلوچستان کے بچے بری طرح متاثر ہیں اور وہ اپنے پورے قد تک بھی نہیں پہنچ پارہے ہیں جسے طب کی زبان میں بونا پن یا اسٹنڈ گروتھ کہا جاتا ہے۔
یہ تمام تفصیلات نیشنل نیوٹریشن سروے 2018 کے تحت شائع کی گئی ہیں جس میں پورے پاکستان کا احاطہ کیا گیا ہے، سروے میں پاکستان میں غذائی قلت کی پریشان کن صورت سامنے آئی ہے۔
سروے میں کہا گیا ہے کہ مجموعی طور پر ملک کے 40.2 فیصد بچے شدید اور مستقل غذائی قلت کے شکار ہیں اور اپنی عمر کے لحاظ سے مجوزہ قد سے بہت نیچے ہیں۔ اس طرح ان کی دماغی، جسمانی اور سیکھنے کی صلاحیتیں شدید متاثر ہورہی ہیں، یہ سروے وزارتِ برائے ہیلتھ سروسز (این ایچ ایس) نے کیا ہے۔
سروے سے مزید انکشاف ہوا ہے کہ 36.9 فیصد گھرانے غذائی تحفظ (فوڈ سیکیورٹی) سے بہت دور ہیں اور انہیں قابلِ اعتبار غذائی ذرائع تک رسائی حاصل نہیں اور اگر ہے بھی تو وہ غذا ان کے لیے کافی نہیں ۔
اس سروے کا مقصد پورے پاکستان کے عوام اور بالخصوص بچوں کی غذائی کیفیات کا جائزہ لینا تھا اور اس کی تفصیلات کراچی میں تقریب میں لانچ کی جائیں گی جس کا مقصد پالیسی سازوں کو اس اہم مسئلے پر عملی اقدامات کی جانب راغب کرنا ہے۔
غذائی ایمرجنسی
یہ غذائی قلت کی ایمرجنسی ہے جو فوری توجہ چاہتی ہے۔ وفاقی حکومت نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ غذائیت سے بھرپور خوراک کا بِل پیش کیا ہے۔ اس کی تفصیل بتاتے ہوئے پاکستان پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن (پی پی اے) کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر خالد شفیع نے کہا کہ اس بل کے بہت سے حصے ہیں جن میں گھی اور آٹے وغیرہ میں خردغذائی (مائیکرونیوٹریئنٹس) شامل کرنے کو لازمی بنایا جائےگا۔ مناسب وٹامن، معدنیات اور غذائی اجزا سے بچوں کی نشوونما بہتر ہوتی ہے۔
سروے کی تفصیلات
اس سروے میں پاکستان کے چار صوبوں کے ساتھ ساتھ گلگت بلتستان اور آزاد جموں و کشمیر کے دیہی اور شہری علاقوں کا جائزہ لیا گیا تھا۔ سروے میں 115,600 خاندانوں، 145,324 خواتین، پانچ سال سے کم عمر کے 76,742 بچوں اور 10 سے 19 سال تک کے 145,847 بچوں اور نوعمر افراد کا جائزہ لیا گیا تھا۔
سروے ٹیم نے مطالعے میں شامل افراد کے خون اور پیشاب کے نمونے لیے اور ہرعلاقے میں پانی کے معیار اوراطراف میں نکاسی آب (سیوریج) کا جائزہ بھی لیا تاکہ پتا لگایا جاسکے کہ جسمانی اثرات غذائی قلت سے ہورہے ہیں یا اس کی وجہ صحت و صفائی کی صورتحال ہے۔ ساتھ ہی انٹرویو میں شرکا کا کارخانوں اور فیکٹریوں پر روزگار کے لیے انحصار، تعلیم اور خواتین سے ان کے نومولود بچوں کو دودھ پلانے کی شرح بھی نوٹ کی گئی۔
اہم انکشافات
نیشنل نیوٹریشن سروے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں صرف48.4 فیصد مائیں اپنے نومولود بچوں کو اپنا دودھ پلاتی ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ غذائی قلت کی شکار ماؤں سے کمزور اور بھوکےبچوں کی پیدائش کی شرح بھی بہت زیادہ ہے۔ یہ ایک ایسا چکر ہے جو فوری توجہ چاہتا ہے۔
دنیا بھر کی تحقیق سے ظاہر ہے کہ بچے کے ابتدائی چند برس بہت ہی ضروری ہوتے ہیں اور اس مرحلے (پانچ سال تک) انہیں مناسب غذا نہ دی جائے تو ان کی جسمانی اور دماغی نشوونما شدید متاثر ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ اس کے اثرات پوری زندگی پر محیط ہوسکتے ہیں۔
مجموعی طور پر پاکستان میں پانچ سال سے کم عمر کے 10 میں سے 4 بچے اپنی عمر کے لحاظ سے پورے قد تک نہیں دیکھے گئے جسے اسٹنٹڈ گروتھ کہا جاتا ہے۔ تعلیم کی کمی اور شعور نہ ہونے کو اس کی بڑی وجہ قرار دیا گیا ہے۔ پاکستانی معاشرے میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ لڑکیوں کے مقابلے میں لڑکوں کو غذا دی جاتی ہے اور یوں بچیاں غذائی تفریق کی شکار بھی ہیں۔
ایکسپریس ٹریبیون سے بات کرتے ہوئے نینشل انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ کے سربراہ پروفیسر جمال رضا نے بتایا کہ ملک میں جتنے بچے آج غذائی قلت کے شکار ہیں عین وہی شرح آج سے 24 سال پہلے بھی تھی، انہوں نے مدتِ حمل میں خواتین کی مناسب اور توانائی سے بھرپور غذاؤں پر زور دیا، انہوں ںے ماؤں سے کہا کہ جو کچھ وہ کھاتی ہیں وہی ان کے بچے کو ملتا ہے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔