لکشمی اور آلکشمی

سعد اللہ جان برق  جمعرات 25 جولائی 2019
barq@email.com

[email protected]

اس دن ایک ہندی ڈرامے سے پتہ چلا کہ ہندی اساطیر یعنی صنمیات کی’’آئی ایم ایف‘‘یعنی ’’دیوی لکشمی‘‘ کی ایک’’سوتن‘‘ ’’آلکشمی‘‘یعنی اینٹی آئی ایم ایف یا ڈی آئی ایم ایف بھی ہے اور جس طرح لکشمی عرف آئی ایم ایف لوگوں کودولت عطا کرتی ہے اسی طرح اس کی یہ سوتن لوگوں کو غربت اور بدحالی دیتی ہے۔

ڈرامے کے اندر ان دونوں کے درمیان جھگڑا ہوگیاتھا جس سے ان کے ’’پتی‘‘ و شنو بھگوان بڑے سنکٹ میں پڑ گیا تھا۔آئی ایم ایف اسے ایک طرف کھینچتی تھی اور ڈی آئی ایم ایف یعنی ’’آلکشمی‘‘اسے دوسری طرف کھینچتی تھی۔وشنوبھگوان جو دنیا کا پالن ہار رہے بہت ہی پریشان ہوگیاتھا کہ دونوں ہی اسے اپنی ’’شوہریت‘‘ میں لیناچاہتی تھیں، وشنوبھگوان کا ان دونوں سوتنوں لکشمی اور  آلکشمی‘‘کی کھینچاتانی میں برا حال ہوگیا تھا۔ لیکن عدل وانصاف کا دیوتا ’’شنی دیو‘‘اس کی مدد کو آگیا اور اس نے ’’آلکشمی‘‘یا ڈی آئی ایم ایف کو پیپل کے ایک پیڑ میں بند کردیا۔قصے کو گولی یا آئی ایم ایف کا لولی پاپ ماریے اصل مسئلہ ’’پیپل‘‘کا ہے،یقیناً زبانوں اور ترجموں میں کہیں کتابت یا کمپوزنگ کی غلطی ہوئی ہے جس کی وجہ سے پیپل کو ’’پیڑ‘‘سمجھ لیاگیاہے جب کہ حقیقت میں یہ پیپل انگریزی کا’’پیپل‘‘ہے۔

قرینہ اور دلیل اس کی یہ ہے کہ آلکشمی عرف ڈی آئی ایم ایف۔عرف غربت وبدحالی ہمیشہ پیپل کے پیڑکونہیں بلکہ انگریزی کے پیپل یعنی عوام کو لاحق ہوتی ہے۔ ہندی لوگ تو اپنے وزیراعظم پر گئے ہوئے جاہل قسم کے لوگ ہیں اس لیے پیپل سے پیپل کا پیڑ مراد لیتے ہیں۔یا توان کو پتہ نہیں ہے کہ ’’پیپل‘‘ انگریزی میں کس کو کہتے ہیں یاپھر اپنی ہٹ دھرمی کی وجہ سے اب بھی سمجھتے ہیں کہ ’’آلکشمی‘‘یعنی غربت تقسیم کرنے کی دیوی پیپل کے پیڑ میں ہی ہے اس لیے وہ پیپل کے پیڑ کو ’’شنی وار‘‘کے دن دودھ وغیرہ ڈالتے ہیں۔

احمق کہیں کے۔ان کو پتہ ہی نہیں ہے کہ ’’آلکشمی‘‘ یعنی اینٹی یا ڈی آئی ایم ایف پیپل کے پیڑ سے نکل کر ’’پیوپلز‘‘کو لاحق ہوچکی ہے۔خیر ہمیں اس سے کیا وہ توہم پرست لوگ ہیں کچھ کو کچھ بھی سمجھ لیتے ہیں یہاں تک کہ موڈی کو مودی بھی سمجھ لیتے ہیں لیکن ہم کو خدا بری نظروں سے بچائے اچھے خاصے سمجھ دار لوگ ہیں اور اس کا اندازہ ہمارے ’’انتخاب‘‘سے اچھی طرح ہوجاتا ہے۔ اس لیے ہم پیپل کو پیپل کا پیڑ نہیں بلکہ پیپل سمجھتے ہیں جس کی جمع ’’پیپلز‘‘ہوتی ہے۔ کسی شاعر نے بھی اس کے بارے میں کہاہے کہ

پی پی تھی پپہا کی تو کوئل کی تھی کوُکوُ

بہتا ہوا چاند تو گہہ تھی رم آہو

ارے ہمیں تو خیال ہی نہیں رہا کہ ہمارے اس پیپل اور پیپلز سے آپ کا خیال ایک پارٹی کی طرف بھی جا سکتا ہے۔اس لیے اپنے خیال کو فوراً بریک ڈالیے۔ہمارا اشارہ پارٹی کی طرف نہیں بلکہ ہو بھی نہیں سکتا کیونکہ اب وہ پیپلز کے بجائے فائیوپی ہے۔ پی پی پی تو پیدائشی تھی پھر پارلیمنٹرین کا ایک اور پی اور پھر پیٹریاٹ کا پانچواں پی۔فائیواسٹار یا فائیو پی۔ہماری بحث خالص اس پیپل سے ہے جس کا ترجمہ اردو میں کالانعام ہوتاہے جو پیپل کے پیڑ سے بدرجہا گئے گزرے ہوتے ہیں، پیپلز کے پیڑ کو دودھ ڈالا جاتاہے اور پھر انڈے نکالے جاتے ہیں پھر اون اتارا جاتاہے اور پھر کھال اتاری جاتی ہے۔اور آج کل جس کے تھنوں سے دودھ کے ساتھ ’’خون‘‘بھی دوہا جاتاہے بلکہ دودھ کم اور خون زیادہ دوہا جاتاہے بلکہ اس کے تھنوں میں اب ہے کہاں؟کیونکہ اس کا بچھڑا بھی ذبح کرکے کھایا جاچکاہے۔

اس بات کا پتہ نہ تو ’’شنی مہاراج‘‘کو ہے جس نے ’’آلکشمی‘‘کو پیپل کے پیڑ میں بند کیا تھا اور نہ ہی وشنو بھگوان کو ہے کہ ’’آلکشمی‘‘عرف ڈی آئی غلط ترجمے اور کمپوزنگ کی وجہ سے پیپل کے پیڑ کو چھوڑ کرانگریزی والے پیپل کو لاحق ہوچکی ہے البتہ دونوں بہنوں کواچھی طرح پتہ ہے بلکہ دونوں میں معاہدہ بھی ہوچکا ہے بلکہ ’’طے پا‘‘ چکا ہے۔ اور اپنے اپنے علاقے بھی تقسیم کرچکی ہیں، دونوں کے درمیان سرحد یا لائن آف کنٹرول ’’غربت کی لکیر‘‘ہے غربت کی لکیر کے اوپر اوپر ’’لکشمی‘‘ کا راج اور لکیر کے نیچے ’’آلکشمی‘‘دندنا رہی ہے۔

کیونکہ پیپل عرف کالانعام اس لکیر کے نیچے بستے ہیں، لکشمی مزے سے اپنے علاقے میں لکشمی برسارہی ہے اور آلکشمی جی بھر کر اپنے علاقے میں غربت افلاس اور بھوک ننگ تقسیم کررہی ہے، دونوں کی رعیت کا سب کچھ الگ ہے، نام کام مقام دام جام اور مرام۔ ’’آلکشمی‘‘ عرف ڈی آئی کی رعیت پیپل کو انسانوں سے بہت کم اور حیوانوں سے تھوڑا پیاز کی جھلی جتنا کم مقام حاصل ہے اور لکشمی کی رعایا انسانوں سے بہت اونچے اور آسمان سے تھوڑے سے کم ہوتے ہیں۔

لکشمی کے حلقہ نیابت والے یعنی وہ جوانسانوں سے بہت اونچے اور آسمان سے تھوڑے کم ہوتے ہیں قرض لے کر ہڑپتے ہیں اور آلکشمی والے یہ قرض ادا کرتے ہیں اس لیے ان کا ایک نام ’’اکثر مقروض اور ہمہ منخوس‘‘بھی ہے، مقامی عوامی زبان میں ان کو’’ترکاری‘‘اور لکشمی والوں کو ’’سرکاری‘‘ بھی کہا جاتاہے۔

’’آلکشمی‘‘یعنی ڈی آئی ایم ایف انتظامی لحاظ سے بہت سخت بھی ہے اس کی رعیت یعنی غربت کی لکیر کے نیچے والے مسلسل کوشش کرتے رہتے ہیں کہ لکیر پار کرکے لکشمی والے علاقے میں شامل ہوجائیں لیکن آلکشمی نے ایک بڑی خونخوار قسم کی وارڈن یا داروغن ’’مہنگائی‘‘رکھی ہوئی ہے جس کے پورے جسم پرطرح طرح کا اسلحہ سجاہواہے جنھیں ’’ٹیکسوف‘‘ کہا جاتا ہے اور اگرکوئی غربت کی لکیر سے ذرا بھر سر اوپر کرتاہے اسے ڈزا ڈز کردیتی ہے اس داروغن مہنگائی کی تنخواہ معاوضہ مشاہرہ سب کچھ یہ ہے کہ اسے آلکشمی نے خون پینے کی مکمل اجازت دے رکھی ہے کہ جب چاہے جتنا چاہے کسی کا بھی خون پی سکتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔