امریکا نے پاکستان کو خطے کا اہم پلیئر تسلیم کرلیا، ایکسپریس فورم

اجمل ستار ملک  جمعـء 26 جولائی 2019
وزیر اعظم نے امریکا کوبتایا جنگ مسئلے کا حل نہیں، ارم خالد، کشمیر پر بات کر کے ٹرمپ نے پاکستان کے حق میں بہتر کیا، سلمان عابد۔ فوٹو: ایکسپریس

وزیر اعظم نے امریکا کوبتایا جنگ مسئلے کا حل نہیں، ارم خالد، کشمیر پر بات کر کے ٹرمپ نے پاکستان کے حق میں بہتر کیا، سلمان عابد۔ فوٹو: ایکسپریس

 لاہور: وزیر اعظم کے دورہ امریکا سے عالمی سطح پر پاکستان کا سافٹ امیج قائم ہوا، بڑی کامیابی یہ ہے کہ امریکا نے پاکستان کو خطے کا اہم ترین پلیئر تسلیم کر لیا ہے۔

افغان بحران کے حل اور علاقائی امن کے حوالے سے پاکستان کے موقف کو بین الاقوامی سطح پر پذیرائی ملی جبکہ مسئلہ کشمیر کے حل میں امریکی صدر کی ثالثی کی پیشکش سے بھارت میں صف ماتم بچھ گئی۔ پاک امریکہ بداعتمادی کے خاتمے کے بعد کولیشن فنڈ، امداد اور تجارت کے راستے کھل جائیں گے جس سے یقینا پاکستان کو بہت فائدہ ہوگا۔

ان خیالات کا اظہار ماہرین امور خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں نے ’’وزیر اعظم کا دورہ امریکہ اور خطے پر اس کے اثرات‘‘ کے موضوع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں کیا۔ فورم کی معاونت کے فرائض احسن کامرے نے سرانجام دیے۔

ماہر امور خارجہ و سیاسی تجزیہ نگار پروفیسر سجاد نصیر نے کہا کہ وزیراعظم دورہ امریکہ سے ملک واپس آچکے ہیں، اب سوال یہ ہے کہ وہ مزید کیا ایکشن لیں گے اور آئندہ بننے والی صورتحال کو کس طرح ہینڈل کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ افغانستان کا مسئلہ حل کرنا آسان نہیں ہے، وہاں کے 60 سے 70 فیصد لوگ طالبان کے ساتھ ہیں جبکہ باقی امریکہ اور پاکستان کے ساتھ مل کر اس معاملے کو چلانا چاہتے ہیں، سوال یہ ہے کہ پاکستان اکثریت سے کیسے ڈیل کرے گا؟ ان ناراض لوگوں کو کس طرح منائے گا کہ وہ افغان بحران کو امریکہ کے مطابق حل کریں۔میرا خیال ہے کہ پاکستان کی سول ملٹری قیادت نے اس حوالے سے ہوم ورک کر لیا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے دورے میں بہتر گفتگو کی، امریکی صدر اس وقت پھنسے ہوئے ہیں، انہوں نے فی الحال بھارت کو سائیڈ لائن کر دیا جو پاکستان کیلئے بہتر ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس علاقے میں امریکہ، چین، ایران، بھارت، روس بڑے پلیئرز ہیں، چین کے اپنے مفادات ہیں۔ اس نے افغانستان میں امن کی کوششوں کا آغاز کیا، وعدے کیے، اسی طرح ایران ،افغانستان میں اثر و رسوخ رکھتا ہے۔

دفاعی تجزیہ نگار جنرل (ر) غلام مصطفی نے کہا کہ وزیراعظم کا دورہ، امریکا کے کہنے پر ہوا، پاکستان نے اس حوالے سے کوئی درخواست نہیں کی، آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ میں چند ماہ باقی ہیں مگر وہ امریکا نہیں گئے تھے حالانکہ ماضی میں پاکستان کی سول ملٹری قیادت عہدہ سنبھالتے ہی چین، سعودی عرب اور امریکا کے دورے ضرور کرتی تھی۔اس مرتبہ پاکستان کی تبدیل شدہ پالیسی سے امریکا کو سمجھ آگئی تھی کہ اب پاکستان کو ماضی کی طرح ڈیل نہیں کیا جاسکتا۔ اس سارے پس منظر میں یہ دورہ ہوا جس میں وزیراعظم کے ساتھ ملٹری قیادت بھی امریکا گئی۔

انہوں نے کہا کہ اس دورے کے پیچھے افغانستان کی صورتحال بھی ہے، پاکستان نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے طالبان کو امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بٹھایا،دوحہ ،بیجنگ میں بھی افغانستان کے حوالے سے میٹنگ ہوئی جس میں چین، امریکہ اورروس شامل تھے، یہ اشارہ تھا کہ اب امریکہ پاکستان کے ساتھ بات کرنے کیلئے تیار ہے۔

انہوں نے کہا کہ یہ ورکنگ وزٹ تھا مگر وزیراعظم کی ٹرمپ سے ملاقات میں حالات یکسر تبدیل ہوگئے، وزیراعظم کا ایرینا ون میں فقید المثال جلسہ بھی تبدیلی کی وجہ بنا،انہوں نے کہا کہ ایرینا ون میں وزیر اعظم نے کہا کہ چین کا سسٹم بہتر ہے، سی پیک کو مکمل کریں گے، یہ بھی کہا کہ امریکہ کے ساتھ برابری کی سطح پر بات چیت کریں گے۔

سیاسی تجزیہ نگار ڈاکٹر ارم خالد نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان کے دورہ امریکہ میں سفارتکاری کے نئے ٹرینڈز متعارف ہوئے، انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کا یہ دورہ بہت بڑی ڈویلپمنٹ ہے۔

سیاسی تجزیہ نگار سلمان عابد نے کہا کہ وزیراعظم کا دورہ امریکہ کلیدی اہمیت رکھتا ہے، انہوں نے کہا کہ افغانستان کے تناظر میں امریکہ کو تین بڑے مسائل درپیش ہیں، پہلا طالبان اور افغان حکومت کو بات چیت پر راضی کرنا، دوسرا فوجی انخلاء اور تیسرا آئندہ انتخابات کے بعد افغانستان کی حکومت بنانے کا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔