دہشت گردوں کو بھرپور جواب دیا جائے

ایڈیٹوریل  پير 16 ستمبر 2013
میجرجنرل ثناءاللہ پاک افغان سرحدی چیک پوسٹ کے دورے کے بعد واپس آرہے تھے کہ سڑک کنارے نصب بارودی سرنگ کی زد میں آگئے۔ فوٹو: ایکسپریس نیوز

میجرجنرل ثناءاللہ پاک افغان سرحدی چیک پوسٹ کے دورے کے بعد واپس آرہے تھے کہ سڑک کنارے نصب بارودی سرنگ کی زد میں آگئے۔ فوٹو: ایکسپریس نیوز

خیبرپختونخوا کے ضلع اپردیر میں دہشت گردوں کی جانب سے سڑک کنارے نصب ریموٹ کنٹرول بارودی سرنگ دھماکے میں پاک فوج کے تین افسر جی او سی مالاکنڈ ڈویژن میجر جنرل ثناء اللہ نیازی‘ لیفٹیننٹ کرنل توصیف اور لانس نائیک عرفان ستار شہید جب کہ دو لانس نائیک شدید زخمی ہو گئے۔

کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے اتوار کو ہونے والے اس افسوس ناک واقعے کی ذمے داری قبول کر لی ہے۔ کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے میڈیا کے نام اپنے دھمکی آمیز پیغام میں کہا ہے کہ جب تک یہ لوگ غیروں سے دوستی رکھیں گے، ہم اس طرح کے حملے کرتے رہیں گے۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے بیان کے مطابق میجر جنرل ثناء اللہ گزشتہ چند روز سے پاک افغان سرحدی علاقے میں اگلی چیک پوسٹوں کے دورے پر تھے۔ دورہ مکمل کرنے کے بعد وہ اتوار کو اپنے قافلے کے ہمراہ واپس آ رہے تھے کہ دہشت گردوں کی طرف سے سڑک کنارے نصب بارودی مواد کے دھماکے میں شہید ہو گئے۔

دیربالا میں اس سے قبل ہونے والے دس بم دھماکوں میں سے یہ دھماکا سب سے زیادہ خطرناک تھا۔ چند روز قبل دہشت گردی کے خاتمے اور ملک میں امن وامان کی بحالی کے پیش نظر حکومت کی جانب سے بلائی گئی آل پارٹیز کانفرنس میں انتہاپسندوں کو مذاکرات کی دعوت دینے سے یہ امید پیدا ہو گئی تھی کہ حکومت اور انتہاپسندوں کے درمیان مذاکرات کامیاب ہو جائیں گے اور ملک میں گزشتہ کئی سال سے جاری دہشت گردی کی جنگ اپنے منطقی انجام کو پہنچ جائے گی۔

اے پی سی کے کامیاب انعقاد کے بعد ملک بھر میں تمام شہریوں نے سکھ کا سانس لیا تھا مگر اتوار کو انتہاپسندوں کی جانب سے پاک فوج کے اعلیٰ افسروں کو شہید کرنے کے واقعے سے امن کی امید دم توڑتی محسوس ہو رہی ہے۔ اس ہائی ویلیوڈ ٹارگٹڈ حملے نے مفاہمت کے عمل کے سامنے سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ حکومت نے امن کی خاطر انتہاپسندوں کو مذاکرات کی دعوت دی مگر انھوں نے جواب میں پاک فوج کے اعلیٰ افسران کو شہید کر کے حکومت کو کیا پیغام دیا ہے۔ کیا انتہاپسند یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ بہت طاقت ور اور منظم ہیں اور حکومت کو زیادہ سے زیادہ نقصان پہنچا سکتے ہیں اور حکومت انھیں نہیں دبا سکتی؟ کیا انھوں نے حکومت کو دباؤ میں لانے کے لیے ایسا کیا ہے تاکہ وہ حکومت کی شرائط ماننے کے بجائے اس سے اپنی شرائط منوائیںاور اپنی مرضی کے نتائج حاصل کریں۔

یہ حملہ حکومت کے لیے بہت بڑاچیلنج ہے۔ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے جسے نظرانداز کر دیا جائے، اس میں فوج کے اعلیٰ افسران نے جام شہادت نوش کیا ہے۔ اب حکومت کو کسی قسم کی کمزوری کا مظاہرہ کرنے کے بجائے انتہاپسندوں کو بھرپور جواب دینا چاہیے۔ جب مخالف فریق حملے کر کے اپنی طاقت کا برملا اظہار کر رہا ہے تو ایسی صورت میں اس سے مذاکرات کس حد تک کامیاب ہو سکتے ہیں۔ کیا حکومت انتہاپسندوں کو ایک طاقتور فریق تسلیم کر کے ان کی شرائط مان لے گی اور ان کے سامنے جھک جائے گی۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے حکومت پاکستان کے ساتھ امن مذاکرات شروع کرنے سے قبل اپنی شرائط پیش کرتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت مذاکرات میں سنجیدہ ہے‘ تو طالبان قیدی رہا کرے اور فاٹا سے فوج واپس بلائے‘ حکومت کو ایسے اقدامات کرنا ہوں گے جس سے اعتماد سازی کا ماحول بہتر ہو اور شکوک وشبہات ختم ہو جائیں۔

طالبان ترجمان ایک جانب مذاکرات سے قبل اپنی شرائط پیش کر رہے ہیں اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت کو یہ سخت پیغام بھی دے رہے ہیں کہ ہماری شرائط پر عمل نہ ہوا تو بات چیت کا عمل آگے بڑھنا ممکن نہیں۔ دوسری جانب طالبان حکومت پر یہ الزام لگا رہے ہیں کہ ہمارے خلاف جنگ کا آغاز خود حکومت نے کیا اب اسے ہی سیزفائر کا اعلان کرنا ہو گا۔ حکومت انتہاپسندوں کے ساتھ مذاکرات کر کے جنگ ختم کرنا چاہ رہی ہے مگر جواب میں وہ پاک فوج پر حملے کر کے اس جنگ کو خود ہی جاری رکھنے کا پیغام دے رہے ہیں۔ کیا مذاکرات شروع کرنے کا یہی اصول ہوتا ہے جس کااظہار طالبان کر رہے ہیں۔ طالبان خود ہی ایسی شرائط پیش کر رہے ہیں کہ جن سے مذاکرات کا عمل شروع ہونے سے قبل ہی ختم ہو جائے۔

جب وہ حملے کر کے بداعتمادی اور شکوک وشبہات کی فضا خود ہی پیدا کریں گے تو اس کا الزام حکومت پر کیسے دھرا جا سکتا ہے۔ جب ایک فریق دوسرے مخالف فریق کو امن مذاکرات کی دعوت دے تو دوسرا فریق جواب میں حملے کر کے نقصان پہنچائے تو ایسے میں پہلا فریق مذاکرات کے بجائے بھرپور جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔طالبان ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے حملے جاری رکھنے کا پیغام دے رہے ہیں، ایسے میں مذاکرات کیسے شروع ہو سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں پیر کو آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اپنے افسران کی شہادت کے سانحے پر کہا ہے کہ ’’پاک فوج سیاسی عمل کی حمایت کرتی ہے مگر دہشت گردوں کو اس کا ناجائز فائدہ اٹھانے نہیں دیا جائے گا‘ یہ خام خیالی نہیں ہونی چاہیے کہ دہشت گرد اپنا ایجنڈا ہم پر تھوپ سکیں گے‘ پاک فوج دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے پرعزم ہے اور عوام کی امنگوں کے مطابق ہر قیمت پر جنگ لڑے گی۔‘‘ پاک فوج نے امن کی خاطر بہت قربانیاں دی ہیں اور اب بھی ان قربانیوں کا سلسلہ جاری ہے۔

پاک فوج نے انتہاپسندی کے خاتمے کے لیے بھرپور کوشش کی ہے۔ پوری قوم کو فوج اور اپنے شہداء کی قربانیوں پر فخر ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے جنرل اشفاق پرویز کیانی سے ٹیلی فون پر اپردیر دہشت گردی کے واقعے پر اظہار تعزیت کیا اور کہا کہ مسلح افواج کے حوصلے اس طرح کی بزدلانہ کارروائیوں کے ذریعے پست نہیں کیے جا سکتے۔ انتہاپسندوں نے حکومت کو مذاکرات کی دعوت کے جواب میں اپنے ردعمل کا اظہار کر دیا ہے۔ اب گیند حکومت کے کورٹ میں ہے۔

اگر حکومت نے انتہاپسندوں کے سامنے کسی لچک یا کمزوری کا مظاہرہ کیا تو پھر انتہاپسند حکومت کو دبانے اور اپنی طاقت منوانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ حکومت دہشت گردوں سے کسی قسم کی رو رعایت برتنے کے بجائے انھیں بھرپور جواب دے۔حکومت اپنی رٹ تسلیم کرتے ہوئے دہشت گردوں سے اپنی شرائط منوائے۔ جب تک دہشت گرد کمزور نہیں ہوں گے‘ امن عمل کی کوئی بھی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔