مذاکرات سے پہلے

جاوید چوہدری  پير 16 ستمبر 2013
www.facebook.com/javed.chaudhry

www.facebook.com/javed.chaudhry

کیپٹن ہڈسن مہم کا انچارج تھا‘ آخری مغل بادشاہ زندہ تھا‘ ہندوستان کے 25 کروڑ لوگ بادشاہ کا احترام کرتے تھے مگر ہڈسن جانتا تھا ریاست موجود ہے‘ بادشاہ‘ اس کے وزیر اور مشیر بھی موجود ہیں اور مغل سلطنت کا سکہ بھی چل رہا ہے مگر ریاست کی رٹ ختم ہو چکی ہے‘ پولیس ’’ڈس فنکشنل‘‘ ہو چکی ہے‘ فوج میں جان نہیں رہی‘ ملک کے جسٹس سسٹم کو آخری سانس لیے دہائیاں گزر چکی ہیں‘ لوگ اول انصاف کے لیے عدالت نہیں جاتے اور مجبوری کے عالم میں اگر جانا پڑ جائے تو جج پانچ پانچ دس دس سال تک فیصلہ نہیں کر پاتے اور اگر فیصلہ ہو جائے تو اس پر عمل نہیں ہوتا‘ سرکار کے تمام عہدے باقاعدہ نیلام ہوتے ہیں‘ آپ کوتوال بننا چاہتے ہیں تو مرزا مغل سے رابطہ کریں‘ نذرانہ دیں اور کوتوال بن جائیں۔

آپ منشی یا میر منشی بننا چاہتے ہیں تو آپ چھوٹے شہزادے مرزا خضر سے ملیں‘ طلائی سکوں کی تھیلی ان کے سامنے رکھیں اور سرکاری پروانہ لے کر دہلی شہر میں نکل آئیں‘ آپ اگر طاقتور ہیں تو آپ گھوڑے پر سوار ہو کر شہر میں نکلیں اور دس بیس لوگوں کے سر اتار کر گھر چلے جائیں‘ آپ کو کوئی نہیں پوچھے گا اور آپ اگر کمزور‘ مسکین یا غریب ہیں تو مرنا آپ کا مقدر ہے‘ آپ غربت اور بے روزگاری کے ہاتھوں مریں یا پھر کسی شہزادے‘ کسی سرکاری اہلکار کے ترکی گھوڑے کے سموں تلے کچلے جائیں‘ آپ کو بہرحال مرنا ہوگا۔

کیپٹن ہڈسن جانتا تھا ریاست جب اس حد تک کمزور ہو جائے تو لاکھوں کی فوج بھی ملک کو نہیں بچا سکتی‘ 22 ستمبر 1857ء کو بھی یہی ہوا‘ بادشاہ جنگ آزادی کے آخری مرحلے میں شہزادوں کے ساتھ ہمایوں کے مقبرے میں پناہ گزین ہو گیا‘ چھ ہزار سپاہی اور بھاری اسلحہ اس کے ساتھ تھا‘ یہ چھ ہزار سپاہی بادشاہ پر جان دینے کے لیے تیار تھے مگر ہڈسن جانتا تھا‘ اگر کمانڈر میں جان نہ ہو‘ اگر یہ سینہ تان کر سامنے کھڑا نہ ہو تو جانثار ترین سپاہی بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں چنانچہ اس نے ایک عجیب حرکت کی‘ اس نے صرف تین دیسی سپاہی لیے‘ وہ گھوڑے پر بیٹھا اور سیدھا ہمایوں کے مقبرے پہنچ گیا‘ ضعیف‘ بیمار اور نشے کے ہاتھوں لاچار بادشاہ چھڑی کے سہارے کھڑا تھا‘ وہ اس حد تک کمزور ہو چکا تھا کہ اس کے کندھوں‘ اس کے سر میں لباس فاخرہ اور تاج تیموری اٹھانے کی ہمت نہیں تھی‘ ہندوستان کی عظیم سلطنت اپنے ہی قدموں میں گر کر ختم ہو رہی تھی‘ ہڈسن بادشاہ کے سامنے ’’حاضر‘‘ ہوا‘ جھک کر سلام پیش کیا اور شہنشاہ کو پیش کش کی‘ آپ اگر سرینڈر کر دیں تو میں آپ اور ملکہ عالیہ کی جان بخشی کی ضمانت دیتا ہوں‘‘

آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کی عمر اس وقت 82 سال تھی‘ وہ کمر تک قبر میں پہنچ چکا تھا مگر زندگی کی ہوس نے اسے سمجھوتے پر مجبور کر دیا‘ اس نے یہ پیش کش قبول کر لی‘ اس نے اپنی دونوں تلواریں نیاموں سے نکالیں اور کیپٹن ہڈسن کے حوالے کر دیں‘ ایک نادر شاہ درانی کی وہ تاریخی تلوار تھی جو اس نے دہلی سے رخصت ہوتے وقت احمد شاہ رنگیلا کو تحفے میں پیش کی تھی اور دوسری جہانگیر کی وہ تلوار تھی جو ہر مغل بادشاہ کو تاج پوشی کے وقت پیش کی جاتی تھی‘ ہڈسن نے یہ دونوں تلواریں اٹھائیں اور فاتحانہ انداز سے قلعے سے باہر نکل گیا‘ بادشاہ کی تلواریں ہڈسن کے ہاتھ میں دیکھ کر چھ ہزار جانثاروں کے حوصلے زمین سے لگ گئے‘ وہ بادشاہ کی تلواروں میں اپنا مستقبل صاف دیکھ رہے تھے‘ ہڈسن نے دونوں تلواریں کمپنی سرکار کے دفتر پہنچائیں‘ سو مقامی سپاہی ساتھ لیے‘ دوبارہ ہمایوں کے مقبرے پہنچا‘ نوے سپاہیوں کو چھ ہزار مغل فوجیوں کو غیر مسلح کرنے پر لگایا‘ دس مقامی بندے ساتھ لیے‘ دونوں مغل شہزادوں مرزا مغل‘ مرزا خضر اور بہادر شاہ ظفر کے بااثر پوتے مرزا ابوبکر کو گرفتار کیا‘ شہزادوں کو کھلی بگھی میں بٹھایا اور دہلی میں نکل کھڑا ہوا‘ دہلی کے عوام جمع ہو گئے‘ دیکھتے ہی دیکھتے چار ہزار تماشائی جمع ہو گئے‘ لوگ شاہی بگھی کے پیچھے پیچھے چل پڑے ‘ کسی کو شہزادوں کی حمایت میں نعرہ تک لگانے کی جرأت نہ ہوئی‘ یہ قافلہ کوتوالی پہنچ گیا‘

ہڈسن نے شہزادے نیچے اتارے‘ انھیں عوام کے سامنے الف ننگا کیا‘ چار ہزار لوگوں کے سامنے انھیں گولی ماری اور ان کی نعشیں سڑک پر پھینک کر چلا گیا‘ تینوں شہزادوں کی نعشیں کئی دنوں تک سڑک پر پڑی رہیں‘ انھیں گدھ نوچتے اور جانورکاٹتے رہے مگر دہلی شہر میں کسی کو ان کی نعش اٹھانے‘ جنازہ پڑھنے اور دفن کرنے کی جرأت نہ ہوئی‘ دوسری طرف ہڈسن کے نوے سپاہیوں نے چھ ہزار مغل سپاہیوں کو غیر مسلح کیا‘ یہ انھیں ہانک کر شاہی قلعے لے کر آئے اور پھر انھیں سرے عام پھانسی دے دی گئی‘ ان بدنصیبوں میں سے صرف وہ بچ سکے جن کے لیے اس وقت گورا فوج کو رسی نہ مل سکی‘ بہادر شاہ ظفر کی دونوں تلواریں آج بھی برطانیہ کے شاہی خاندان کے پاس ہیں اور یہ تلواریں انھیں روز بتاتی ہیں ریاست جب کمزور ہوتی ہے تو بادشاہ چھ ہزار مسلح سپاہیوں کے باوجود دشمن کے تین سپاہیوں کے سامنے سرینڈر کر دیتے ہیں‘ ہڈسن کے دس سپاہیوں نے بھی ثابت کر دیا‘ ریاست میں جان نہ ہو تو دس سپاہی شہزادوں کو چار ہزار لوگوں کے سامنے ننگا کر کے گولی مار سکتے ہیں اور کسی کو ان کا ہاتھ روکنے کی جرأت نہیں ہوتی اور انگریز فوج کے نوے سپاہیوں نے دنیا بھر کے فاتحین کو پیغام دے دیا ریاست میں توانائی نہیں بچتی تو چھ ہزار مسلح فوجی دشمن کے نوے فوجیوں کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں اور جان بچانے کے لیے جان گنوا بیٹھتے ہیں۔

یہ 22 ستمبر 1857ء کا ہندوستان تھا‘ ایک کیپٹن ہڈسن نے مغل سلطنت کا ہزار سالہ سورج ہمایوں کے مقبرے میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا‘ آپ اگر دہلی میں ہمایوں کے مقبرے پر جائیں تو آپ کو اس کی ہر دیوار پر تاریخ کا یہ سبق لکھا ملے گا اگر ریاست اپنی رٹ کھو بیٹھے تو دشمن کی صفوں میں پھوٹنے والی بغاوتیں بھی ریاست کو ڈوبنے سے نہیں بچا سکتیں‘ ہم پاکستانی ریاست کے باسی دنیا کی تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے‘ نہ سیکھیں مگر ہم 1857ء سے تو بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں‘ ہم ہمایوں کے مقبرے کی دیواروں اور کوتوالی کے پتھریلے راستے پر لکھی تاریخ سے تو کچھ سیکھ سکتے ہیں اور یہ تاریخ آج چیخ چیخ کر کہہ رہی ہے ریاست کی رٹ حکمرانوں‘ بادشاہوں اور فوجوں سے زیادہ مضبوط ہوتی ہے اور ریاست اگر یہ رٹ کھو دے تو دنیا کی سب سے بڑی فوج اور ساڑھے نو ہزار جوہری بم بھی سوویت یونین کو ٹوٹنے سے نہیں بچا سکتے‘ ہمارے حکمران اگر آج صرف 1857ء کی جنگ آزادی کا تجزیہ کر لیں تو انھیں اس میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے سارے رنگ نظر آ جائیں گے‘ یہ چند لمحوں میں جان جائیں گے‘ ملک میں شدت پسندوں کے گروپ کیوں بن رہے ہیں۔

یہ لوگ ملک کے مختلف حصوں میں قابض کیوں ہو رہے ہیں‘ انھیں خود کش بمبار اور خودکش حملہ آور کیوں مل رہے ہیں‘ یہ 69 گروپ کیوں بن چکے ہیں اور ان میں سے ہر گروپ فوجی بریگیڈ کی شکل کیوں اختیار کر چکا ہے‘ صنعت کار پرچیوں اور ٹیلی فونوں پر انھیں کروڑوں روپے کیوں دے دیتے ہیں‘ ہماری پولیس اور فوج ان کا راستہ کیوں نہیں روک پاتی اور ریاست اپنی تمام تر طاقت کے باوجود ان کے سامنے سرینڈر کیوں کر رہی ہے‘ آپ چند لمحوں میں جان جائیں گے ریاست جب جی ایچ کیو کی حفاظت نہ کر سکے‘ یہ پی ایس مہران‘ کامرہ ائیر بیس اور آرڈیننس فیکٹری کو نہ بچا سکے‘ ملک میں جب خفیہ اداروں‘ پولیس اسٹیشنز اور ٹریننگ کیمپوں پر کامیاب حملے ہو جائیں‘ شدت پسند جب سرکاری اہلکاروں کو دفتروں سے اغواء کر کے لے جائیں اور ریاست اپنے لوگوں کو چھڑا نہ سکے اور طالبان جب گومل زام ڈیم پر کام کرنے والے سات اہلکاروں کو اٹھا کر لے جائیں اور ریاست دو سال تک انھیں رہا نہ کرا سکے اور آخر میں رہائی کے لیے اڑھائی کروڑ روپے ادا کرنے پر مجبور ہو جائے تو پھر جی او سی مالاکنڈ میجر جنرل ثناء اللہ پر حملہ کیوں نہیں ہوگا اور یہ لیفٹیننٹ کرنل توصیف اور لانس نائیک عرفان کے ساتھ شہید کیوں نہیں ہوں گے۔

ریاست کی حالت یہ ہے سندھ حکومت خواہش اور کوشش کے باوجود کراچی کو جرائم پیشہ عناصر سے پاک نہیں کر پا رہی‘ ایک اکیلا سکندر چھ گھنٹے تک پورے اسلام آباد کے سسٹم کی دھجیاں بکھیر جاتا ہے‘ لاہور میں پانچ سال کی بچی کو اغواء کر کے درندگی کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور شام کے وقت اسپتال میں پھینک دیا جاتا ہے اور ریاست تین دن گزرنے کے بعد بھی مجرم تلاش نہیں کرپاتی اور وفاقی دارالحکومت کی سبزی منڈی اور پیرودہائی اڈے سے روزانہ پانچ لاکھ روپے بھتہ وصول کیا جاتا ہے اور حکومت وفاقی دارالحکومت میں یہ بھتہ کنٹرول نہیں کر پاتی‘ میرے آبائی ضلع گجرات میں ڈاکٹروں سے بھتہ طلب کیا جاتا ہے اور انکار کرنے والے ڈاکٹروں کو ان کے کلینک میں گولی مار دی جاتی ہے مگر پولیس اور ضلعی انتظامیہ نام اور پتے معلوم ہونے کے باوجود ملزموں کو گرفتار نہیں کر پاتی‘ مجرم جیلوں سے بھاگ جاتے ہیں اور انتظامیہ بے بسی سے ایک دوسرے کی شکلیں دیکھتی رہ جاتی ہے‘ مجرم عدالت میں کھڑے ہو کر جج سے کہتے ہیں ہمیں آپ کا ایڈریس اور بچوں کے اسکولوں کا علم ہے‘ آپ فیصلہ دیں اور پھر ہمارا انصاف دیکھیں اور جج مقدمے سے دستبردار ہو جاتے ہیں۔

ریاست کی حالت یہ ہے ایک کال اور ایک خط کے بعد حکومت پھانسی کی سزا پر عملدرآمد روک دیتی ہے اور پولیس اور فوج کے اپنے اہلکار سیکیورٹی کے بغیر گھر اور دفتر سے نہیں نکل سکتے‘ ملک کی جب یہ حالت ہو گی تو طالبان یقینا میجر جنرل کو شہید کر کے ذمے داری بھی قبول کریں گے اور فاٹا سے فوج کی واپسی اور طالبان ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ بھی اور ریاست کے پاس یہ مطالبات ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا‘ ریاست جب کمزور پڑتی ہے تو یہ دس دس فوجیوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتی ہے جب کہ طالبان کے 69 گروپ ہیں اور ان کی تعداد سوا لاکھ ہے‘ ہم ان کے سامنے کب تک ٹھہریں گے؟ ہم اگر آج بھی سنبھل جائیں‘ہم مذاکرات سے پہلے ریاست کی رٹ پر توجہ دیں‘ لڑنے والوں سے لڑیں اور صلح کرنے والوں سے صلح کریں‘ یہ ملک بچ جائے گا ورنہ دوسری صورت میں ہمارے حکمران بہادر شاہ ظفر بن جائیں گے اور پاکستان 1857ء کا ہندوستان‘ ہم شہزادوں کے سر اور تلواریں دے کر جان بچائیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔