آپ مذاکرات کریں

ایاز خان  پير 16 ستمبر 2013
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

لاہور میں 5 سالہ بچی کے ساتھ ہونے والی زیادتی پر میرا دل دُکھی ہے۔ سوشل اور روایتی میڈیا مجرموں کو عبرتناک سزا دینے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ مجھے یقین ہے اس بچی کے والدین کو انصاف ملے گا۔ مجرموں کو عبرتناک سزا مل گئی تو پھر کوئی ایسی حرکت کرنے کی جرات نہیں کرے گا۔ نئی دہلی میں چار مجرموں کی سزائے موت ہمارے قانون سازوں کے لیے ایک ایسی مثال ہے جس کی تقلید کی جانی چاہیے۔

اب بات کرتے ہیں کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کی جن کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیسے ہو گا، یہ ابھی تک میری سمجھ میں نہیں آ سکا البتہ چوہدری نثار‘ مولانا فضل الرحمان اور سید منور حسن کو پوری سمجھ ہے‘ کبھی وقت ملا تو ان سے ضرور پوچھوں گا۔ ہفتے کو ایک سال سے زائد عرصہ تک قید میں رکھنے کے بعد گومل زام ڈیم پر کام کرنے والے 7 مغوی اہلکار طالبان نے رہا کیے تو میڈیا نے ان کے اس اقدام کو امن مذاکرات کی جانب اہم پیش رفت قرار دیا۔ امن کی یہ فاختہ ابھی اڑنے بھی نہ پائی تھی کہ اتوار کو اپر دیر میں پاک فوج کے ایک میجر جنرل ثناء اللہ نیازی، ایک لیفٹیننٹ کرنل توصیف اور ایک لانس نائیک عرفان ستار کو گاڑی میں جاتے ہوئے سڑک کنارے نصب دھماکا خیز مواد سے شہید کر دیا گیا۔

میجر جنرل ثناء اللہ نیازی جی او سی مالاکنڈ تھے اور پاک افغان سرحد پر اگلے مورچوں کا دورہ کر کے لیفٹیننٹ کرنل توصیف اور لانس نائیک عرفان کے ساتھ واپس آ رہے تھے۔ طالبان کے اس حملے کے بعد تو مذاکرات کی امیدیں دم توڑتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ تحریکِ طالبان کے ساتھ کالعدم لکھنا اب شاید مناسب نہیں ہے، انھیں دہشت گرد بھی نہیں کہنا چاہیے۔ آل پارٹیز کانفرنس میں چونکہ انھیں دہشت گرد نہیں کہا گیا تو پھر یہ زیادہ مناسب ہو گا کہ انھیں غیر کالعدم طالبان کہا جائے… تو جناب ان غیر کالعدم طالبان کے ترجمان نے پاکستانی فوجیوں کی شہادت کی ذمے داری قبول کر لی ہے۔

اسی ترجمان شاہد اللہ شاہد نے اتوار کو ہی حکومت سے مذاکرات کے لیے پیشگی شرائط بھی بتا دی ہیں۔ موصوف فرماتے ہیں حکومت کسی قسم کے مذاکرات سے پہلے اپنے با اختیار اور مخلص ہونے کا ثبوت دے۔ حکومت یہ ثبوت کیسے دے سکتی ہے وہ بھی انھوں نے خود ہی آشکار کر دیا ہے۔ کہتے ہیں قبائلی علاقوں میں تعینات فوجیوں کو واپس بلایا جائے اور طالبان کے ساتھی رہا کر دیے جائیں۔ یعنی یہ دو معمولی سے کام کر کے حکومت اپنے اختیار اور نیک نیتی کا یقین دلا سکتی ہے۔

اتنے اچھے لوگ کہاں ملتے ہیں۔ ان کے ساتھ مذاکرات کا فیصلہ بالکل درست ہے۔ ان کے ساتھ بات چیت کے مخالف بتائیں کہ یہ اگر باقاعدہ مذاکرات سے پہلے مطالبات کی ایک طویل فہرست پیش کر دیتے تو کیا حکومت کے لیے ان سے بات چیت کرنا ممکن ہوتا۔ وہ تین دن تک حکیم اللہ محسود کی سربراہی میں سر جوڑ کر بیٹھے رہے اور 72 گھنٹوں کی مشقت کے بعد صرف دو مطالبات ہی سامنے لائے ہیں۔ خیبر پختون خوا کی حکومت تو ان کے مطالبے سے پہلے ہی یہ اعلان کر چکی ہے کہ آیندہ ماہ سے شانگلہ، بونیر، سوات اور دیر سے فوج کی مرحلہ وار واپسی شروع ہو جائے گی۔ ان کے قیدیوں کی ’’رہائی‘‘ کا آغاز صوبائی حکومت پہلے ہی کر چکی ہے۔

کیا آپ کو یاد نہیں کہ بنوں جیل پر جب حملہ ہوا تھا تو کسی نے ان حملہ آوروں کی راہ میں مزاحم ہونے کی کوشش نہیں کی تھی۔ انھیں سیکڑوں ساتھی چھڑا کر لے جانے کی اجازت شاید جذبہ خیر سگالی کے تحت ہی دی گئی تھی۔ گویا ان کے ترجمان کی طرف سے مطالبات پیش کیے جانے سے کہیں پہلے ہی ہمارے زیرک سیاستدانوں نے ان پر عملدرآمد شروع کر دیا تھا۔ میرے خیال میں غیر کالعدم تحریک طالبان نے بھی اسی لیے مزید مطالبات اپنی فہرست میں شامل نہیں کیے۔ دہشت گردوں معاف کیجیے گا، امن مذاکرات کے اس فریق نے یہ دو مطالبات بھی محض اس لیے رکھے ہیں کہ اس کے ساتھ حکومت دھوکے بازی نہ کرے۔ شاہد اللہ شاہد نے واضح طور پر کہا ہے کہ ماضی میں حکومت نے انھیں دھوکہ دیا ہے اس لیے وہ مزید دھوکہ نہیں کھانا چاہتے۔

ان کے قبائلی علاقوں سے فوج واپس بلانے کے مطالبے میں بھی دم ہے کیونکہ اس طرح وہ ان علاقوں پر باقاعدہ اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ہماری سابق سیاسی حکومت کے بعض ذمے داران تب یہ تسلیم کرتے تھے کہ قبائلی علاقوں میں سرکار کی رٹ نہیں ہے اس لیے ڈرون حملوں پر احتجاج بھی بے معنی ہے۔ وہاں سے فوج کی واپسی کے بعد یوں ہو گا کہ ایک حکومت کے سربراہان دوسری حکومت کے سربراہوں یا نمایندوں سے بات چیت کریں گے۔ یہ مذاکرات برابری کی سطح پر ہوں گے۔

مذاکرات کے مخالف اپر دیر میں اعلیٰ فوجی افسروں کی شہادت کو بنیاد بنائیں گے۔ وہ کہیں گے کہ مذاکرات سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ ان کے خیال میں ان کے خلاف آپریشن ہی واحد حل ہے۔ ٹھیک ہے ان کے کئی گروہ کام کر رہے ہیں۔ ان میں سے کچھ گروپ اتنے طاقتور بھی ہونگے کہ مرکزی قیادت کی بات ماننے سے انکار کر دیں گے۔ بعض ایسے بھی ہوں گے جو سرے سے بات چیت کرنا ہی نہیں چاہتے۔ ان کے خیال میں وہ جس شکل میں مذہب کا نفاذ چاہتے ہیں اس کا طریقہ قتل وغارت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اپر دیر کا یہ واقعہ پہلا ہے نہ ایسی کوئی گارنٹی کہ دوبارہ ایسا نہیں ہو گا۔ انھیں جب اور جہاں موقع ملے گا یہ اپنی کارروائی کریں گے۔

ہمارے حکومتی زعماء ایسی ہر کارروائی کے بعد اس عزم کو دہرائیں گے کہ دہشت گردی کے خلاف اقدامات جاری رہیں گے۔ فوج کی قربانیوں کا اعتراف بھی کیا جاتا رہے گا۔ آخر اصول پسندی بھی کوئی چیز ہے۔ سیاستدان وہی اچھا ہوتا ہے جو اپنے ’’درست‘‘ موقف پر ڈٹا رہے۔ میرے خیال میں دونوں فریق اصول پسند ہیں۔ طالبان اپنی کارروائیاں کرتے رہیں گے اور سیاسی قیادت ان سے مذاکرات کی تیاریوں میں مصروف رہے گی۔ کیا خوب سلسلہ ہے کہ وہ مارتے رہیں گے اور یہ بات چیت کے لیے ترستے رہیں گے۔ مایوس ہونے کی ضرورت نہیں میاں نواز شریف اور عمران خان مذاکرات کے ذریعے دہشت گردی ختم کر دیں گے۔ ان کا ساتھ دینے کے لیے مولانا فضل الرحمان بھی ہیں۔

زیادہ مشکل درپیش ہوئی تو مولانا سمیع الحق بھی مدد گار ہوں گے۔ پاکستانیوں کا مستقبل شاندار ہے۔ وہ راسخ العقیدہ مسلمان ہیں اور شہادت افضل ترین موت ہوتی ہے‘ پچاس ہزار کے قریب پاکستانی جام شہادت نوش فرما چکے ہیں۔ اس کے باوجود ان کے جذبۂ شہادت میں کمی نہیں آئی۔ طالبان انھیں شہادت کے مرتبے پر فائز کرتے رہیں گے۔ دنیا کا تو مجھے پتہ نہیں لیکن اگلے جہان میں انھیں بلند مرتبہ ملے گا۔ جہاں تک رہ گئے ہمارے مذاکرات زدہ حکمران‘ تو انھیں دنیادار ہونے کی بناء پر معاف کر دیا جانا چاہیے۔

یہ مجبور لوگ ہیں‘ ان کی پاکستان اور بیرون ملک جائیدادیں ہیں۔ اقتدار کے دوران پاکستان میں رہنا ان کی مجبوری ہے ورنہ مستقل پڑاؤ کے لیے پوری دنیا پڑی ہوئی ہے۔ قارئین! آپ خود سوچیں وہ بے چارے طالبان سے مذاکرات نہ کریں تو اور کیا کریں؟ آخر میں حکمرانوں اور طالبان کو مبارکباد دیتا ہوں کہ انھوں نے عام آدمی کو شہادت کے مرتبے پر فائز کرنے کے لیے جو صالح عمل شروع کر رکھا ہے‘ اسے جاری رکھنا چاہیے۔ یہ سلسلہ رکا تو کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم کم نصیب رزق سے تو محروم ہو ہی رہے ہیں‘ شہادت سے بھی محروم نہ رہ جائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔