شخصیت کا درجہ کمال

واسع جلیل  پير 16 ستمبر 2013

سماجی اعتبار سے انسانی ارتقاء نے انسان کی شخصیت کے خدوخال کو واضح کیا اور اس عمل کے دوران انسان نے مختلف تربیت کے مراحل طے کیے لیکن آج بھی انسان کی شخصیت ایک سوال سمجھی جاتی ہے۔ اس کو سمجھنے کے لیے اس کی جزئیات پر ایک مسلسل بحث رہتی ہے لیکن پھر بھی کوئی شخص اس بات کا دعویٰ نہیں کرسکتا کہ وہ حضرت انسان کو مکمل طور پر سمجھ پایا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی قول و فعل دو ایسی جہتیں ہیں جن کی بنیاد پر اس کو پرکھا جاتا ہے اور ایک مسلسل بحث طلب امور ہیں۔ معاملہ معاشرے کے تمام طبقات کا ہو یا ریاست کا،  قائد تحریک نے ہر سطح پر اپنی جد و جہد کا دائرہ وسیع کیا، انسان کے کردار کا آغاز ماں کی گود سے ہوتا ہے اور قبر کی آغوش میں جانے تک انسان سیکھنے اور سمجھنے کے عمل سے گزرتا ہے اور اس کے مشاہدات اسے اس صلاحیت کا حامل کردیتے ہیں کہ وہ کسی حد تک انسان کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن کسی بھی انسان کو سمجھنے کے لیے اس کا فعل بنیادی عنصر بنتا ہے۔

بنیادی طور پر سب سے پہلی چیز نیت یا خواہش کہی جاتی ہے جس سے ارادہ جنم لیتا ہے اور ارادے سے فعل وقوع پذیر ہوتا ہے۔ انسان کی حرکات و سکنات کے یہ مراحل بڑے اہم ہیں۔ اگر انسان کے اقوال اور اس کے افعال آپس میں متصادم ہوں تو شخصیت کا منفی تاثر ابھرتا ہے اور اگر کسی انسان کے قول و فعل میں تضاد نہ ہو تو پھر وہ موضوع سخن بنتا ہے۔ اس کے اعمال و افعال دونوں وزن رکھتے ہیں۔ معاشرہ ان انسانوں کو عزت اور تکریم عطا کرتا ہے جو نہ صرف اپنے قول و فعل میں کھرے ہوتے ہیں بلکہ اپنے مثبت اور طاقتور نظریات کے تحت انسانی فلاح کے لیے کام کرتے ہیں اور اس کے لیے وہ ایک پر امن جدوجہد کا سہارا لیتے ہیں۔

اس ضمن میں انسانی تاریخ ایسے کرداروں سے بھری پڑی ہے اور پاکستان کے اندر بھی اگر تلاش کیاجائے تو وہ افراد انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں جنہوں نے اس مادر وطن کے لیے کچھ کیا۔ ایسی ہی ایک شخصیت نے 17ستمبر 1953ء کو کراچی کے متوسط گھرانے میں جنم لیا اور وہ ایک ایسے طبقہ آبادی سے تعلق رکھتا تھا جو تقسیم ہند کے نتیجے میں مسلم اقلیتی علاقے آگرہ سے ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے۔ جب اس شخصیت نے ہوش سنبھالا تو ایک عجیب سے ماحول کو اپنے ارد گرد پایا۔جس مقصد کے لیے برصغیر کے مسلمانوں نے ایک علیحدہ وطن کی جدوجہد کی، اور عشق کے درجہ کمال پر پہنچ کر کامیابی حاصل کی، اسے وہ وطن، وہ قوم نظر نہ آئی۔

لہٰذا اس کے ذہن میں سوال ابھرے اور اس نے ایک نظریہ متعارف کروایا جو محض پچیس برس کی عمر میں پیش کیا گیا۔ دنیا میں جتنے بھی سیاسی و سماجی نظریات سامنے آئے، اس کو پیش کرنے والو ں کی عمریں اس شخصیت سے بہت زیادہ رہیں۔ اور یہی نہیں کہ اس نے پاکستان کے حقوق سے محروم مظلوم عوام کے حقوق کے حصول کے لیے آواز بلند کی بلکہ اس منزل کو حاصل کرنے کے لیے ایک منظم و متحرک پلیٹ فارم ایم کیو ایم کے نام سے ترتیب دیا۔ یہی وہ عمل تھا جہاں سے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ جاگیردار، وڈیرے اور مراعات یافتہ طبقے نے اس کا راستہ روکنے کی کوشش کی۔آج الطاف حسین کی جلاوطنی دو دھائی سے تجاوز کرگئی آج وہ مادر وطن سے دور رہنے پر مجبور ہیں لیکن ان کی یہ دوری اپنے کارکنان اور عوام کے درمیان کبھی حائل نہ ہوئی اور الطاف حسین کی یہ سیاسی جدوجہد ایک نئی تاریخ رقم کررہی ہے جو مدتوں فراموش نہ کی جاسکے گی۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے اپنے ہی جیسے غریبوں کو ملک کے اعلیٰ ترین ایوانوں میں بھیجا۔ اس کے تربیت یافتہ کارکنان نے بلدیاتی نظام میں کامیابی حاصل کرکے فقید المثال تاریخ رقم کی اور آج بھی مراعات یافتہ طبقہ کسی نہ کسی شکل میں اس شخصیت اور اس کے نظرئیے کا راستہ روکنے میں مصروف ہے۔ دنیا اس شخصیت کو الطاف حسین کے نام سے جانتی ہے۔ حق پرستی کی اس جدوجہد کی پاداش میں پولیس والے کی ٹوپی چوری کرنے سے لے کر وہ کون سا جرم ہے جو ان کے سر نہ ڈالا گیا ہو۔ نوٹوں سے بھرے بریف کیس پیش کرکے ضمیر خریدنے کی کوشش کی گئی۔ پاکستان میں سب سے زیادہ بکنے والا الزام ملک توڑنے کا ہے۔

اس الزام سے بھی قائد تحریک الطاف حسین محفوظ نہ رہ سکے۔ ذرایع ابلاغ کے دوست مسلسل کسی نہ کسی حیلے بہانے سے ایم کیو ایم اور قائد تحریک کو ہدف تنقید بناتے رہتے ہیں۔ لیکن اس شخصیت کا درجہ کمال ہے کہ اس نے انتہائی تحمل اور بردباری سے ہر بحران کامقابلہ کیا ہے۔ اور اپنے اس عمل کو ہمیشہ برقرار رکھا ہے جس کی بنیاد پر آج الطاف حسین کروڑوں دلوں پر حکمران ہیں۔ اور وہ ہے کہ نیت اور ارادے پر قائم رہتے ہوئے اپنے قول و فعل میں ہم آہنگی کو برقرار رکھا، وقت کے تمام فرعونوں کو شکست دی۔

ان کی راہ میں کبھی پنجابی پختون اتحاد کے نام سے کسی کو کھڑا کیا گیا تو کبھی مختلف لسانی اکائیوں کو سامنے لایا گیا۔ ہر وہ کوشش کر لی گئی جو کسی بھی مینڈیٹ کو توڑنے کے لیے کی جاسکتی تھی لیکن عوام اور کارکنان کی استقامت اور قائد تحریک کی ولولہ انگیز قیادت نے ان تمام بحرانوں کو پیدا کرنے والوں کو شکست فاش دی اور آج بھی جس بحران کا قائد تحریک سامنا کر رہے ہیں، وہ بحسن و خوبی اس سے بھی گزر جائیں گے۔ یہ سچائی کی دلیل ہے کہ الطاف حسین کل بھی حقوق سے محروم عوام کا رہنما تھا اور آج بھی ان کا قائد ہے اور ان شاء اللہ کل بھی ان کی رہنمائی کرتا رہے گا۔ شکست ان قوتوں کا مقدر ہے جو غیر جمہوری، غیر اخلاقی اور غیر سیاسی انداز میں الطاف حسین کا راستہ روکنا چاہتی ہیں۔

قائد تحریک الطاف حسین متعدد بار اس بات کا اعادہ کر چکے ہیں کہ ایم کیو ایم اس محرومی کے نتیجے میں قائم ہوئی جو ملک کے غاصب حکمرانوں نے پیدا کی اور آج بھی محرومیوں کے بجائے ایم کیو ایم کو ختم کرنے کی سازشیں کی جارہی ہیں۔ اگر وہ اتنی کوششیں سماجی ناہمواریوں، ظلم کے خاتمے اور انصاف کے قیام کے لیے کرلیتے تو شاید اس کے بہتر نتائج آتے۔ الطاف حسین ان عناصر کی راہ میں رکاوٹ ہیں جو لسانی تفریق پیدا کرکے فرقہ واریت کو ہوا دے کر اپنی حکمرانی کو طول دینا چاہتے ہیں۔

قائد تحریک الطاف حسین کی پوری زندگی اس بات کی شاہد ہے کہ انھوں نے اپنا مقصد بیان کیا۔ اپنے نظریے کا پرچار کیا اور وہ بھی مسلمہ جمہوری طریقہ کار سے۔ کسی شخصیت سے اختلاف نہیں کیا۔ کسی سیاسی جماعت کی پالیسیوں سے اختلاف کرنا قائد تحریک الطاف حسین سمیت ہر ذی شعور انسان کا بنیادی و پیدائشی حق ہے۔ اس حق کو استعمال کرتے ہوئے قائد تحریک سیاسی جماعتوں اور ذرایع ابلاغ کی ان شخصیات سے بھی اختلا ف کرتے ہیں جو قائد تحریک اور ایم کیو ایم کی پالیسیوں کی بجائے شخصیت اور ایم کیو ایم کو ناپسند کرنے کی بنیاد پر بے جا تنقید کا سہارا لیتے ہیں۔

آج اسی شخصیت کا ساٹھواں یو م پیدائش ہے ۔ پچیس سال کی عمر میں ایک مستحکم نظریے کی بنیاد ڈالنے والی شخصیت نے اپنی سیاسی جدوجہد کے پینتیس سال مکمل کیے ہیں اور اپنی زندگی کے ما شاء اللہ ساٹھ برس مکمل کیے ہیں۔ ان کی کمال استقامت اور ان کے قول و فعل میں موجود ہم آہنگی اس امر کی دلیل ہے کہ الطاف حسین کی شخصیت انسانی درجہ کمال پر ہے۔ ان پر الزامات تو بہت عائد کیے گئے لیکن کوئی بھی جرم آج تک ثابت نہیں ہوا۔ کیونکہ الطاف حسین کا صرف ایک ہی جرم ہے کہ وہ پاکستان کے غریب اور متوسط طبقے کے حقوق چاہتا ہے۔

آج کے دن ایم کیو ایم کے کارکنان اس عہد کی تجدید کریں کہ وہ اپنی پوری توانائیاں قائد تحریک الطاف حسین کے نظرئیے کی بقاء اور اس کی ترویج کے لیے صرف کریں گے اور اپنی صفوں میں تمام تر منفی پروپیگنڈے کے باوجود اتحاد کو برقرار رکھیں گے۔ قائد تحریک الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے کارکنان کو قائد تحریک الطاف حسین کا ساٹھواں یوم پیدائش دل کی گہرائیوں سے مبارک ہو۔ پروردگار سے دعا ہے کہ قائد تحریک الطاف حسین کی عمر دراز کرے اور دشمنوں کی سازشوں سے محفوظ فرمائے (آمین)۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔