آن لائن شاپنگ کا بھوت

راضیہ سید  ہفتہ 27 جولائی 2019
آج کل آن لائن شاپنگ کا ٹرینڈ چل نکلا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

آج کل آن لائن شاپنگ کا ٹرینڈ چل نکلا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

جب ایک ہی گھر اور ایک ہی کمرے میں نہ صرف آپ دو تین لوگوں کو منہ بسورتے بلکہ روتے ہوئے ببابنگ دہل اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے دیکھیں گے تو آپ کو کبھی اپنی پارلیمنٹ سے کوئی شکایت نہیں ہوگی۔ بلکہ آپ کو اس مچھلی بازار سے پیار ہونے لگے گا۔ کیونکہ جب ایک گھر میں بھانت بھانت کی بولیوں والے رہ سکتے ہیں، تو پارلیمان میں کیوں نہیں؟ جب ایک گھر میں برتن ٹوٹ سکتے ہیں تو ایوان میں پرچے کیوں نہیں پھٹ سکتے، کرسیاں میز کیوں نہیں چل سکتے، گالم گلوچ کیوں نہیں ہوسکتی؟

بس آج یہی حال ہماری پڑوسن اکلوتی سہیلی روما کا تھا۔ روما زار و قطار رو رہی تھی اور ساتھ ہی گالیوں اور کوسنوں کا ایک طوفان بدتمیزی بھی جاری تھا۔ یعنی بالکل ٹھیک، آڈیو اور ویڈیو دونوں پرفیکٹ آرہی تھیں روما کی۔

دوسری جانب کرسی پر شازیہ باجی نے نشست سنبھال رکھی تھی۔ وہ ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ تو ہو ہی رہی تھیں، بلکہ اب ان کا اگر بس چلتا تو پورا کمرے میں بھنگڑا یا دھمال ہی ڈال لیتیں۔ میرے پوچھنے کی دیر تھی ’’شازیہ باجی یہ میڈم کیوں موٹے موٹے آنسو بہا رہی ہیں؟‘‘ وہ تو جیسے تیار بیٹھی تھیں، کہنے لگیں ’’اور نہ مانیں یہ لوگ بڑوں کی بات۔ تنخواہ کے پیسے کیا ہاتھ میں آگئے، چلی بی بنو آن لائن شاپنگ کرنے۔ اب مزے کی بات لان کا سوٹ منگوایا تھا اور انھوں نے بھیج دیا ہے ٹیراویرا اور اس پر کمال دیکھو کہ جب شکایت کےلیے کمپنی والوں کو ان باکس کیا تو انھوں نے اسے ایف بی پر سے بلاک کردیا۔ اب چونکہ تین ہزار غارت ہوچکے ہیں تو اس کا سوگ منایا جارہا ہے۔‘‘

خیر اب مجھے روما کے آنسو بھی پونچھنے تھے، ورنہ وہ کہتی کہ تم صرف آُپی کا ساتھ دے رہی ہو۔ وہ بے چاری بتانے لگی کہ اس نے تو سوٹ کا کوڈ بھی درست لکھا تھا لیکن انھوں نے غلط چیز بھیج دی اور ساتھ ہی یہ آفر بھی نہیں دی کہ اپنا آرڈر دیکھ کر پیسے دے۔ بلکہ ڈیلیوری بوائے نے تو ڈائریکٹ پیسے لیے اور یہ جا وہ جا۔

دیکھا جائے تو آج کل آن لائن شاپنگ کا ٹرینڈ چل نکلا ہے۔ چاہے برانڈڈ شوز لینا ہوں یا بیگ، میک اپ کی اشیا ہوں یا زیورات، سب وقت کی بچت اور کافی حد تک نمائش کے پہلو کے طور پر بھی یہ چیزیں پسند کرنے اور اس طرح کی آفرز کا سہارا لینے لگے ہیں۔

آن لائن شاپنگ کے فوائد تو اپنی جگہ موجود ہیں۔ لیکن روما کے ساتھ پیش آنے والے واقعے نے میری بھی آنکھیں کھول دیں، کیوں کہ ہر ماہ مجھے بھی آن لائن شاپنگ کا ہوکا رہتا ہے کہ کسی بھی طرح ان مصنوعات اور چیزوں سے فائدہ اٹھایا جائے۔ لیکن بات وہی کہ آن لائن شاپنگ ایک امتحان سے کم نہیں ہے۔ کیونکہ کچھ معلوم نہیں ہوتا کہ منگوایا کیا ہو اور نکل کیا آئے۔ میں سب کمپنیوں کی بات نہیں کررہی لیکن کئی دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ کئی کاسمیکٹس زائدالمیعاد ہوتی ہیں، تو کبھی جو کپڑا تصویر میں دکھایا جاتا ہے ویسا نہیں ہوتا۔ گھریلو اور ذاتی استعمال کی کئی مشینیں بھی صحیح نہیں نکلتیں۔ لہٰذا آن لائن خریداری کرتے ہوئے ہمیشہ بہت سمجھداری کا ثبوت دینا چاہیے۔

اول تو کوشش کریں کہ کوئی بھی چیز لینا ہو مارکیٹ سے خود لے لی جائے۔ آپ کا جاننے والا دکاندار ایک تو قابل بھروسہ ہوگا۔ دوسرا ناپسندیدگی کی صورت میں تبدیلی یا واپسی بھی ممکن ہے۔ کپڑے آپ قریب کی مارکیٹ سے بہتر لے سکتے ہیں، مختلف فیشن میگزیز بھی اس مقصد کےلیے دیکھے جاسکتے ہیں اور تھوڑی سی محنت سے بہت اچھی ڈیزائننگ کی جاسکتی ہے اور اس طرح پیسہ کی بچت بھی ہوسکتی ہے۔

ہمیشہ اچھی اور آزمائی ہوئی برانڈڈ کمپنیوں کا انتخاب کیجئے۔ کیونکہ سوشل میڈیا پر ایسے بہت سے پیج ہیں، جن کی دکان سامنے نہیں چلتی۔ کوئی گاہک ان کے قریب پھٹکتا نہیں، جبکہ سادہ لوح عوام کو بے وقوف بنانے کےلیے ان لوگوں نے آن لائن پیج بنا رکھے ہیں۔

ہمیشہ ریٹرن پالیسی والے اداروں سے رابطہ کیجیے اور دیکھنے کے بعد پیسہ ادا کریں۔ کاسمیٹکس کی اشیا کے بارے میں یہ یاد رکھیں کہ وہ اچھی کمپنیوں کی ہوں اور پیکیج کے بجائے ایک یا دو چیزیں منگوا کر دیکھیں۔ کیونکہ کپڑے ہوں، جوتے یا میک اپ کی اشیا اور جیولری، یہ اکثر اسٹاک میں پڑی پڑی گل سڑ رہی ہوتی ہیں، تو اس پر آن لائن شاپنگ والے ادارے بچت کا لالچ دے کر بھی پیسہ بٹورنا جانتے ہیں اور مختلف سیل پیکیجز بھی آفر کئے جاتے ہیں۔

اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ کی کیا چوائس ہے اور آپ اپنے پیسے کے مصرف کے معاملے میں کس حد تک مخلص ہیں؟ کہتے ہیں کہ پیسہ لگانا بہت آسان، جبکہ کمانا بہت مشکل ہے۔ مجھے قوی امید ہے کہ اب آپ آن لائن شاپنگ کرتے ہوئے ان باتوں پر عمل کریں گے، ورنہ باقی باتیں آپ کے گھروں میں موجود شازیہ باجی کی ڈانٹ آپ کو سمجھادے گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

راضیہ سید

راضیہ سید

بلاگر نے جامعہ پنجاب کے شعبہ سیاسیات سے ایم اے کیا ہوا ہے اور گزشتہ بیس سال سے شعبہ صحافت سے بطور پروڈیوسر، رپورٹر اور محقق وابستہ ہیں۔ بلاگز کے علاوہ افسانے بھی لکھتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔