’’بلاک چین‘‘ اور چوتھا صنعتی انقلاب

سید بابر علی  اتوار 28 جولائی 2019
 مَنی لانڈرنگ سے انتخابات میں دھاندلی تک کی روک تھام کی اہل ٹیکنالوجی۔ فوٹو: فائل

 مَنی لانڈرنگ سے انتخابات میں دھاندلی تک کی روک تھام کی اہل ٹیکنالوجی۔ فوٹو: فائل

اٹھارویں صدی کے اواخر میں اس وقت دنیا کے پہلے صنعتی انقلاب کی دستک سنائی دی جب کپڑے کے کارخانوں میں ہاتھ سے کپڑا بننے والے مزدورں کی جگہ بھاپ سے چلنے والی مشینیں متعارف کروائی گئیں۔ چھوٹے چھوٹے کارخانوں کی جگہ فیکڑی کا لفظ وجود میں آیا۔

کپڑے کے کارخانوں میں اس مشینی نظام سے برطانیہ میں بڑے پیمانے پر معاشی اور سماجی تبدیلیاں واقع ہوئیں، اور ان تبدیلیوں کو پہلے صنعتی انقلاب کا نام دیا گیا۔ مشین سازی میں ہونے والی ترقی سے کپڑے، لوہے  اور کوئلے کی صنعت نے بھی ترقی کی نئی منازل طے  کیں۔  برطانیہ سے اٹھنے والے اس پہلے صنعتی انقلاب نے جلد ہی یورپ اور امریکا کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

مورخین نے صنعتی انقلاب کو دو حصوں میں  تقسیم کیا اٹھارہویں صدی کے وسط سے 1830 تک کے دور کو پہلے صنعتی انقلاب کا نام دیا گیاجوصرف برطانیہ تک محدود تک تھا۔  دوسرے صنعتی انقلاب کی ابتدا اس وقت ہوئی جب ہینری فورڈ نے  بڑے پیمانے پر پیداوار حاصل کرنے کے لیے متحرک اسمبلی  لائن کو متعارف کرویا۔

دوسرا صنعتی انقلاب  انیسویں صدی کے وسط سے بیسویں صدی  کے آغاز تک محیط ہے جس میں  برطانیہ کے ساتھ ساتھ یورپ، جنوبی امریکا اور جاپان نے  اہم کردار ادا کیا۔ بعدا زاں اس دوسرے صنعتی انقلاب نے دنیا کے دیگر خطوں کو بھی اپنے اندر سمو لیا۔   پہلا صنعتی انقلاب بھاپ سے چلنے والی فیکٹریوں  تک محدود تھا تو دوسرے صنعتی انقلاب میں  سائنس کو استعمال کرتے ہوئے مینو فیکچرنگ اور پیداوار میں  بڑے پیمانے پر اضافہ کیا گیا۔  ان دو صنعتی انقلابوں نے عوام کو زیادہ شہری اور دولت مند بنایا۔ تیسرے  صنعتی انقلاب کا آغاز ڈیجیٹلائزیشن سے ہوتا ہے، دھاتی مشینوں کی  کارکردگی اور صلاحیتوں کو ڈیجیٹل آلات کی مدد سے مزید درست اور بہتر بنایا گی، اب دنیا چوتھے صنعتی انقلاب کی جانب گام زن ہے ۔

جس میں  مصنوعی ذہانت ،  جینز میں تبدیلیوں،آگمینٹڈ ریئلٹی، ورچوئل ریئلٹی، روبوٹکس، تھری ڈی پرنٹنگ اور اس نوعیت کی دیگر جدید ٹیکنالوجیز دکھائی دیتی ہیں۔  لیکن چوتھے صنعتی انقلاب کے لیے درکار ٹیکنالوجیز  میں سے ایک ٹیکنالوجی کو دنیا بھر خصوصا ترقی پذیر ممالک میں  بری طرح  نظر انداز کیا جا رہا ہے ۔  اس ٹیکنالوجی کے بارے میں جاننے کے  لیے ہمیں سب سے پہلے کرنسی کے نظام کو جاننا ہوگا کیوں کہ دنیا کو اس ٹیکنالوجی کا علم ایک ڈیجیٹل کرنسی کے ارتقا کے بعد ہی ہوا۔

زمانہ قدیم سے ہی اناج، نمک، زعفران اور دیگر مسالوں کو لین دین کے لیے ایک طرح سے بطور کرنسی استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ ایک ہزار سال قبل مسیح چین میں کانسی کو سکوں کی شکل میں ڈھال کر دنیا کی پہلی باقاعدہ کرنسی کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا گیا۔ کرنسی کو قانونی شکل اور اس کی قیمت کو یکساں رکھنے کے لیے سونے، چاندی اور دیگر قیمتی دھاتوں سے بنے سکوں کو کئی صدیوں تک پیسوں کے لین دین کے لیے استعمال کیا جاتا رہا۔ ساتویں صدی میں چینی تہذیب ’’تنگ‘‘ کے تاجروں نے سکوں کے بوجھ سے نجات کے لیے کاغذ سے بنی کرنسی بنانے پر کام شروع کردیا تھا اور گیارہویں صدی کے آغاز میں چینی تہذیب ’’سونگ‘‘ میں پہلی بار کاغذ سے بنی کرنسی کا استعمال شروع کیا گیا۔ تیرہویں صدی میں مارکو پولو اور ولیم ربرک کی بدولت کاغذی کرنسی یورپ میں متعارف ہوئی۔

مارکو پولو نے بھی اپنی کتاب ’’دی ٹریولز آف مارکو پولو‘‘ میں یو آن سلطنت کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے،’’یہ لوگ اپنے ملک میں درخت کی چھال سے بنی کاغذ سے مشابہہ ٹکڑوں کو لین دین کے لیے بطور پیسہ استعمال کرتے ہیں۔‘‘ وقت کے ساتھ ساتھ کاغذی نوٹوں کی شکل اور معیار میں بہتری آتی گئی اور اس کے بعد کریڈٹ کارڈ متعارف کرائے گئے جنہیں پلاسٹک کرنسی کا نام دیا گیا۔ انٹرنیٹ کی آمد کے بعد پیسوں کے لین دین کے لیے ’’ای کرنسی‘‘ وجود میں لائی گئی، جس نے صارفین کے لیے انٹرنیٹ پر خریداری کو مزید سہل بنادیا۔ لیکن دس سال قبل تین جنوری 2009کو ایک ایسی غیر مرئی کرنسی منظر عام پر آتی جو چند سال تک گم نام رہی لیکن گذشتہ پانچ سال میں اس کرنسی نے دنیا بھر کے مالیاتی نظام میں ایک ہلچل پیداکی، کسی حکومتی پالیسی کے بنا چلنے والی یہ غیرمرئی کرنسی اپنی قدر کی انتہا پر پہنچ گئی۔

قدر کے لحاظ سے اس کرنسی نے سونے ، ہیرے اور دنیا کی مہنگی ترین کرنسیوں کو بہت پیچھے چھوڑ دیا۔ دنیا کی پہلی کرپٹو کرنسی ’بٹ کوائن‘ کے ایک سکے کی مالیت چند سال قبل 21 ہزار ڈالر کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی۔ اور آج بھی ایک بٹ کوائن کی قدر ’ساڑھے دس ہزار امریکی ڈالر کے برابر ہے۔ چند سالوں میں ہی اس کرنسی کی قدر میں ہونے والے ریکارڈ اضافے نے د نیا بھر کے ماہرین معیشت کو سر جوڑ کر بیٹھے پر مجبور کردیا۔

آج کرپٹو کرنسی ’بٹ کوائن‘ کے نام سے تو ترقی پذیر اور ترقی یافتہ ممالک کے بیش تر لوگ واقف ہیں، لیکن دنیا بھر کے مالیاتی نظام کو چیلینج کرنے والی اس کرنسی کے پیچھے کارفرما اس پیچیدہ نظام ’بلاک چین ‘ سے زیادہ تر لوگ واقف نہیں، جس کے مرہون منت ہی بٹ کوائن اور دیگر کرپٹوکرنسی کو تحفظ، استحکام اور وسعت میں اضافہ بلاک چین کی بدولت ہی ممکن ہوسکا ہے۔  عام لوگ تو درکنار ، کرپٹو کرنسی کے لین دین سے وابستہ افراد کی اکثریت بھی اس لامحدود ٹیکنالوجی ’بلاک چین‘ کو کرپٹو کرنسی کا ایک حصہ سمجھتی ہے، جب کہ کرپٹو کرنسی بلاک چین سسٹم کی محض ایک ایپلی کیشن ہے۔ بلاک چین سسٹم کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دنیا بھر اس ٹیکنالوجی کو اسسٹ مینجمنٹ، انشورنس، کراس بارڈر ادائیگیوں، اسمارٹ فونز، انٹر نیٹ آف تھنگ (آئی او ٹی)، اسمارٹ اپلائنسز، سپلائی چین سینسرز، ہیلتھ کیئر، میوزک، حکومتی اداروں، کمیونٹی بیسڈ ایکٹویٹیز، پیدائش، شادی، ڈیتھ سرٹی فکیٹ، پاسپورٹ جیسی شناختی دستاویزات کے غلط استعمال کو روکنے اور انہیں محفوظ تر بنانے کے لیے کام کیا جا رہا ہے۔

طاقت ور کمپیوٹرز، ریاضیاتی کلیوں اور ٹیکنالوجی کے ماہرین کی مشترکہ کاوشوں سے وجود میں آنے والی اس ٹیکنالوجی کو دنیا میں متعارف کروانے کا سہرا ساتوشی ناکاموتو کے سر جاتا ہے ۔ 1998میں پہلی بار ’’Wei Dai‘‘ نے اپنیcypherpunks (ایسا فرد جو کمپیوٹر نیٹ ورک پر اپنی پرائیویسی کو خصوصاً حکومتی اتھارٹیز کی دسترس سے دور رکھتے ہوئے رسائی حاصل کرے) میلنگ لسٹ میں وضع کیا، جس میں اس نے پیسوں کو ایک ایسی نئی شکل میں ڈھالنے کی تجویز پیش کی، جس کی تشکیل اور منتقلی مرکزی حکام کے بجائے cryptography  (رمزنویسی، فنِ تحریر یا خفیہ کوڈز کو حل کرنا) کے طریقہ کار پر مشتمل ہو۔ تاہم کرپٹو کرنسی میں بلاک چین کا سب سے پہلا استعمال ساتوشی ناکاموٹو نے کیا۔ اگست 2008 میں ایک ڈومین (ویب سائٹ کا نام) “bitcoin.org”کے نام سے رجسٹرڈ کیا گیا۔ اسی سال 31 اکتوبر کو ساتوشی نے کرپٹوگرافی کی میلنگ لسٹ میں ایک وائٹ پیپر ’بٹ کوائن: اے پیر ٹو پیر الیکٹرانک کیش سسٹم‘ کے نام سے جاری کیا۔

جنوری 2009 میں ناکاموتو نے بٹ کوائن سافٹ ویئر کو ایک ’اوپن سورس کوڈ‘ کے طور پر لاگو کردیا۔ تین جنوری 2009کو پہلے ’ بلاک چین‘ کی مائئنگ کرتے ہوئے بٹ کوائن نیٹ ورک تخلیق کیا۔ 2010 کے اواخر میں ساتوشی نے مزید تفصیلات کا انکشاف کیے بنا۔ اس پروجیکٹ کو چھوڑ دیا، لیکن اس کی ای میل فہرست میں شامل کئی۔ بلاک چین ڈویلپرز نے بٹ کوائن پروجیکٹ پر کام شروع کردیا۔ ساتوشی کی گم نامی نے کئی افراد میں بلاجواز تحفظات پیدا کردیے اور ان میں سے متعدد کا تعلق بٹ کوائن کی ’’اوپن سورس‘‘ ساخت کے حوالے سے غلط فہمیوں سے تھا۔ اب بٹ کوائن پروٹوکول اور سافٹ ویئر سب کے سامنے شایع ہوچکا ہے اور دنیا کا کوئی بھی ڈویلپر اس کوڈ کا جائزہ اور اپنا ترمیم شدہ بٹ کوائن سافٹ ویئر کا نیا ورژن بالکل اسی طرح بناسکتا ہے، جیسے موجودہ ڈویلپرز، ساتوشی کا اثر ان تبدیلیوں پر بہت محدود تھا، جنہیں دوسروں نے حاصل کرلیا اور ساتوشی اسے کنٹرول نہیں کرسکا۔

ناکاموتو کے بلاک چین سسٹم کی ایک منفرد بات یہ بھی ہے کہ کوئی بھی اس کا مالک نہیں ہے اور نہ ہی کوئی اس ای میل کے پس منظر میں کام کرنے والی ٹیکنالوجی کی ملکیت کا دعوے دار ہے۔ دنیا بھر میں موجود اس کے استعمال کنندہ ہی کنٹرول کرتے ہیں، جب کہ ڈویلپرز اس سافٹ ویئر کو مزید بہتر بنا سکتے ہیں، لیکن وہ اس کے پروٹوکول میں تبدیلی نہیں کرسکتے، کیوں کہ ہر استعمال کنندہ کو اپنی مرضی کا سافٹ ویئر اور ورژن استعمال کرنے کی مکمل آزادی ہے۔ ایک دوسرے سے مطابقت رکھنے کے لیے تمام استعمال کنندہ کو ایک جیسے اصول پر پورا اترنے والے سافٹ ویئر استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ بلاک چین سے بننے والی ایپلی کیشن اسی صورت میں صحیح کام کرتی ہے جب تمام استعمال کنندہ کے درمیان مکمل مطابقت ہو۔ یہی وجہ ہے کہ تمام استعمال کنندہ اور ڈویلپرز اس مطابقت کو تحفظ دینے کے لیے سخت محنت کرتے ہیں۔ بلاک چین ٹیکنالوجی کے ماضی، حال اور مستقبل کے بارے میں ’بلاک چین ایڈوائزری بورڈ، IIBکونسل‘ سنگاپور کے بورڈ ممبر اور ’بلاک چین فورم آف پاکستان‘ کے شریک بانی اور ڈیویژن ڈائریکٹر محمداحسن خان سے کی گئی گفت گو کا احوال اس رپورٹ میں شامل کیا گیا ہے۔

 ٭بلاک چین ٹیکنالوجی اور اس کا کام کرنے کا طریقۂ کار

درحقیقت ’بلاک چین ٹیکنالوجی‘ چوتھے صنعتی انقلاب کی جانب پیش رفت کا ایک اہم حصہ ہے۔ ویسے تو اس ٹیکنالوجی کا ارتقا بٹ کوائن کے ساتھ ہوا ہے، لیکن اس پیچیدہ نظام کو سمجھنے کے لیے آپ اسے دو حصوں ’بلاک‘ اور ’چین‘ میں تقسیم کردیں۔ جب ہم بڑھتے ہوئے ریکارڈ کو ’کرپٹو گرافی‘ کے ساتھ جوڑتے ہیںتو اس کو بلاک کا نام دیا جاتاہے، ہر بلاک میں ’کرپٹو گرافک ہیش‘ ہوتے ہیں۔ پھر پچھلے بلاک (جس میں ٹرانزیکشن ریکارڈ محفوظ کیا گیا ہے) کو ٹائم اسٹیمپ (مکمل تاریخ اور وقت کے ساتھ ٹرانزیکشن کی تاریخ) کے ساتھ ایک خصوصی ترتیب دیتے ہیں جسے ’لنکڈ لسٹ‘ کہا جاتا ہے کے ساتھ رکھا جائے تو اس کو ’چین‘ کہتے ہیں۔ بلاک چین ایک ایسا کھلا اور منقسم بہی کھاتا (لیجر) ہے جو کہ 2 پارٹیز کے درمیان ’پیر ٹو پیر‘ نیٹ ورک کے ساتھ بہت ہی مؤثر انداز میں کام کرتا ہے۔ جب بلاک چین کے لیجر میں ایک بلاک لکھ دیا جاتا ہے تو پھر اس میں کسی قسم کی ترمیم کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ تیکنیکی زبان میں ہم اس کو immutability (تغیر ناپذیری) کہتے ہیں۔

بلاک چین میں تمام بلاک ایک چین (زنجیر) کی طرح جُڑے ہوتے ہیں، ایک بلاک میں ترمیم کرنے کے لیے اس سے جُڑے بے شمار بلاک میں ترمیم کرنا پڑے گی اور اس کام کو سر انجام دینے کے لییہربلاک کوالٹر کرنا پڑے گے، جس کے لیے آپ کو بہت زیادہ طاقت ور کمپیوٹرز چاہیے ہوں گے، کیوں کہ کرپٹو گرافی (رمز نویسی) کے لیے بہت زیادہ hashes بنا نا پڑتے ہیں اور یہ عام کمپیوٹر کے بس کی بات نہیں اور یہی چیز بلاک چین ٹیکنالوجی کو تحفظ فراہم کرتی ہے اسی وجہ سے ہم اس ٹیکنالوجی کو امیوٹیبل (غیرمتغیر) کہتے ہیں، جس میں ترمیم کرنا نہایت مشکل اور اسے ہیک کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ یہ سب ڈسٹری بیوٹنگ کمپیوٹنگ سسٹمز کی بیس پر کیا جاتا ہے۔ ڈی سینٹرالائزڈ کنسینسز الگورتھم بلاک چین کو محفوظ بناتے ہیں۔

اس کو اس طرح سمجھ لیں کہ اگر آپ کی ایک بلاک چین چل رہی ہے جیسے کہ بِٹ کوائن، جس کے نیٹ ورک کو ریسورسز اور ’کمپیوٹیشنل‘ پاور پوری دنیا کے ایپلی کیشن اپیسیفک انٹیگریٹڈ سرکٹ (ASICs) جیسے بہت طاقت ور کمپیوٹر سے چلایا جاتا ہے، اب اس نظام کو ہیک کرنے کے لیے اس نیٹ ورک کے تمام ریسورسز کو ایک جگہ جمع کرکے51 فی صد طاقت کے ساتھ اس نظام پر حملہ کرنا ہوگا، تب ہی آپ بٹ کوائن کے بلاک چین کو ٹیمپرنگ کے لیے ہیک کر سکتے ہیں۔ اسی طرح بٹ کوائن بلاک چین کو کمپیوٹیشنل ریسورسز فراہم کرنے والے ریسورسز ہی اس کی ٹرانزیکشن کرنے میں مدد کرتے ہیں اور پروف آف ورک (POW)  جو بٹ کوائن کا خصوصی consensus الگورتھم ہے اس کو نیٹ ورک پر قابل عمل (ایگزیکیوٹ) کرتے ہیں ان کو مائنرز کہا جاتا ہے۔ بٹ کوائن کی بلاک چین ایک اوپن اور پبلک بلاک چین ہے جس کو دنیا میں کوئی بھی کہیں سے بھی جوائن کرسکتا ہے، اسی وجہ سے ہم اس کو اوپن بلاک چین ، پبلک بلاک چین پرمیشنڈ لیس بلاک چین بھی کہتے ہیں۔ ب

لاک چین ٹیکنالوجی مختلف افراد (پارٹیز) لوگوں کے درمیان ہونے والی لین دین کا مکمل ریکارڈ یا حساب کتاب محفوظ طریقے سے مستقل کرپٹو گرافک بلاکوں میں محفوظ کرتا رہتاہے، پھریہ بلاک بتدریج ایک دوسرے سے جُڑ کر ایک چین کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ اور ان کی سب سے بڑی خوب صورتی اس کا ڈی سینٹرالائزڈ (اقتدارِ مرکزیت نہ ہونا) ہے۔ اور اسی خوبی کی بنا پر ہم جب چاہیں دنیا کے کسی بھی ملک میں محفوظ طریقے سے پیسوں کی لین دین یا معلومات کا تبادلہ کر سکتے ہیں۔ اور اسی خوبی کی وجہ سے دنیا بھر کے مالیاتی ادارے اس ٹیکنالوجی کو اپنا رہے ہیں۔ بلاک چین Peer to Peer نیٹ ورک کے ذریعے مین ٹین ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر ہم دفتر میں کمپنی کے سافٹ ویئر سے انٹرایکٹ ہوتے ہیں، یاجب فیس بک یا ٹوئٹر کا استعمال کرتے ہیں تو ہم ایک دوسرے سے براہ راست ابلاغ تو کرتے ہیں لیکن یہ صرف ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارا ابلاغ ڈائریکٹ ہے، حقیقتاً ہم ایک مرکزی سرور کے ذریعے منسلک ہوتے ہیں۔P2P نیٹ ورک اس کے متضاد کام کرتا ہے، P2P نیٹ ورک کے ذریعے 2 مختلف پارٹیز کسی مرکزی سرور سے منسلک ہوئے بنا آپس میں براہ راست اور دو طرفہ ابلاغ کر سکتی ہیں۔ ٹورینٹ P2P نیٹ ورک کی ایک بہترین مثال ہے۔

٭ کرپٹوگرافی کیا ہے؟

اس بارے میں محمد احسن خان کا کہنا ہے کہ ’بلاک چین کا ایک حصہ کرپٹو گرافی ہے۔ یہ ایک ایسی تیکنیک ہے جس کا استعمال انٹرنیٹ ایپلی کیشن میں بہت زیادہ کیا جاتا ہے، کرپٹو گرافی ایک ایسا طریقہ کار ہے، جس کی وجہ سے ہم اپنی انفارمیشن ( ڈیٹا) کو کچھ کوڈز سے تبدیل کرکے اس پیغام کو آگے بھیج دیتے ہیں۔ کرپٹو گرافی کے ذریعے بھیجے گئے پیغام کو صرف وہی پڑھ سکتا ہے جس کے پاس اس پیغام کو پڑھنے کے لیے KEY موجود ہو، آسان الفاظ میں اسے پاس ورڈ بھی کہہ سکتے ہیں ۔ اس طریقے سے انٹرنیٹ پر دوسرے کے ساتھ ہونے والا ابلاغ (کمیونیکیشن) محفوظ طریقے سے ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرتا ہے۔ اور اگر کوئی اس پیغام کو ہیک کر بھی لے تو اسے صرف کوڈز ہی دکھائی دیں گے۔ کرپٹو گرافی کے بے شمار الگورتھم (حساب و شُمار کا عمل یا اِس کے قواعد خصوصاً کمپیوٹر کے ذریعے مسائل کا حل) ہیں، پیغام کو کوڈ سے تبدیل کرنے کے عمل کو’ انکرپشن‘ کہتے ہیں۔ اور میسج کے ساتھ KEY کا استعمال کرکے اوریجنل میسج کو واپس حاصل کرنے کے عمل کو’ڈیکرپشن‘کہتے ہیں۔

پیغامات کو محفوظ بنانے کے لیے کرپٹوگرافی صدیوں سے استعمال ہونے والا طریقۂ کار ہے، انٹرنیٹ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور سے پہلے سے بھی اس کو استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ اس کی واضح مثال سن121  میں سامنے آنے والاCaesar Cipher  کے نام سے مشہور الگوریتھم ہے جس میں پیغامات کے حروف تہجی کی ترتیب کو بدل کر استعمال کیا جاتا تھا۔ فرض کریں آپ کسی کو ایک پیغام ’بلاک چین‘ لکھ کر بھیجنا چاہ رہے ہیں تو اس میں انگریزی زبان کے 26حروف تہجی میں سے کسی بھی حرف کے نمبر کو KEY کی طرح استعمال کریں گے اور ریاضیاتی کلیے کے تحتKEY کے ذریعے سارے حروف کو تبدیل کر کے پیغام بھیج دیں گے۔ اگر پیغام وصول کرنے والے کو پہلے سےKEY کا پتا ہو تو وہ اس الگوریتھم کی مدد سے اوریجنل پیغام پڑھ سکے گا۔ یہ ایک بہت ہی قدیم، آسان اور سادا سا الگوریتھم ہے جو کرپٹوگرافی کی کتابوں میں آج تک موجود ہے۔‘

٭بلاک چین ٹیکنالوجی اور زندگی کے دیگر شعبہ جات

اس بابت احسن خان نے بتایاکہ ’زیادہ تر لوگ بلاک چین سسٹم کو کرپٹو کرنسی (بٹ کوائن، لیتھریم، لٹ کوائن وغیرہ) کا ایک حصہ سمجھتے ہیں، لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے،  کرپٹو کرنسی صرف بلاک چین کی ایک ایپلی کیشن ہے اور اس کی ایجاد میں بلاک چین کا بہت اہم کردار ہے ۔ جیسا کہ ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ ستوشی ناکاموتو نے 2008ء میں شایع ہونے والے اپنے وائٹ پیپر میں بلاک چین کو متعارف کروایا اور اس کے بعد 2009ء اس کی مدد سے بٹ کوائن تخلیق کیے۔ آج کے دور میںہم جس بلاک چین کو ہم جانتے ہیں وہ صرف کرپٹوکرنسی کی تخلیق تک محدود نہیں ہے۔

اب اسے زندگی کے بہت سے شعبہ جات میں کام یابی سے استعمال کرسکتے ہیں۔ دنیا بھر کے بینکس، مالیاتی ادارے بلاک چین کو فول پروف شفاف طریقے سےKYC (Know Your Customer) کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔  چوتھے صنعتی انقلاب کو ٹیکنالوجی کے میدان میں ہونے والی جدیدیت اور اہم پیش رفت سے مشروط کیا جاتا ہے اور بلاک چین  کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہ چوتھے صنعتی انقلاب کے لیے درکار ڈیجیٹل، بایو لوجیکل اور فزیکل ایجادات میں اہم کردار ادا کرنے کو تیار ہے۔ اس انقلابی ٹیکنالوجی کو آپ سماج ، سیاست، ثقافت اور معیشت کے میدان میں بھرپور طریقے سے استعمال کر سکتے ہیں۔

اس ٹیکنالوجی کو ہیوی میکینکل انڈسٹری میں بروئے کار صنعتی استبدادِ کار کو بڑھایا جاسکتا ہے۔ اسے آٹو میشن اور مصنوعی ذہانت کے ساتھ مربوط کرکے ایسی صنعتوں میں بھی بخوبی استعمال کیا جاسکتا ہے جہاں انسانوں کے صحت کے خطرناک مسائل میں مبتلا ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔  ناقص غذا ترقی پذیر ممالک کو درپیش ایک بڑا مسئلہ ہے آپ بلاک چین کی بدولت ’ ٹریک اینڈ ٹریس‘ سسٹم بنا کر کھانے کے تازہ یا باسی ہونے کا پتا کرسکتے ہیں، یہ ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کھانوں کی تیاری میں استعمال ہونے والے خام مال سے تیار کھانے تک کے معیار کو چیک کرسکتا ہے۔ اگر ہمارے بینک کاری نظام میں اس کو مکمل طور پر لاگو کردیا جائے تو بے نامی اکاؤنٹس کا مکمل طور پر خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ انتخابی دھاندلی کی روک تھام کے لیے بلاک چین ٹیکنالوجی ایک مؤثر ٹول کے طور پر استعمال ہوسکتی ہے۔ آن لائن ووٹنگ کو اس نظام سے مربوط کرکے کسی بھی قسم کی دھاندلی سے بچا جا سکتا ہے۔

اس کی واضح مثال امریکی ریاست ورجینیا میں 2016-17 میں ہونے والے انتخابات ہیں۔ اسی طریقے سے آپ ڈیجیٹل آئی ڈینٹٹی کے لیے بھی اس کو استعمال کرسکتے ہیں جیسے کہ ایسٹونیا کر رہا ہے۔ پبلک سروس میں بلاک چین کی بہت عمدہ مثالیں موجود ہیں، میں خود  یورپین یونین کے H2020 پراجیکٹ کے ماتحت ایک  ایک انٹرنیشنل فورم ’ یوروپی یونین بلاک چین آبزرویٹری اینڈ فورم‘ کے ساتھ  منسلک ہوں۔آپ دبئی کی مثال لے لیں، 2020 میں دبئی دنیا کی پہلی گورنمنٹ ہوگی جس کے 100 فی صد آپریشنز بلاک چین پر انحصار کریں گے۔ اس کے علاوہ اسپتالوں، کلینکس میں مریضوں کی تفصیلات، جائیداد کی خریدوفروخت، قانونی اور عدالتی نظام، اسٹاک ایکسچینج میں مصنوعی اتار چڑھاؤ اور جعلی شناختی دستاویزات کی روک تھام میں بھی بلاک چین ٹیکنالوجی کا  استعمال کام یابی سے کیا جاسکتا ہے۔

حصص بازار میں ہونے والی مصنوعی اتارچڑھاؤ کی روک تھام کے لیے بلاک چین کے ساتھ مصنوعی ذہانت جیسی جدید ٹیکنالوجی کو مربوط کرتے ہوئے خصوصی الگورتھم پر مبنی سافٹ ویئر تیار کیے جاسکتے ہیں جو کہ اسٹاک مارکیٹ میں تجارتی سرگرمیوں، تجارتی سرگرمیوں اور ٹریڈرز کے طرزعمل کی جانچ کرتے ہوئے ’خلاف معمول سرگرمیوں‘ کی جانچ کریں۔ اگر ہم صرف ان دو ٹیکنالوجیز کو ملا کر ہی ایک سسٹم تیار کرلیں تو اسٹاک مارکیٹ کی مصنوعی اتار چڑھاؤ کے علاوہ سرکاری اور نجی اداروں میں ہونے والے مختلف مسائل کی روک تھام کی جاسکتی ہے۔ اسلامی بینک کاری نظام میں اس کا استعمال گزشتہ تین سال سے کیا جا رہا ہے۔  آئی سی آئی سی اور امارات کا این بی ڈی بینک2016 ء سے  ٹرانزیکشن کاسٹ میں کمی کے لیے بلاک چین پر ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ کر رہے ہیں۔

امارات اسلامک بینک دنیا کا پہلا اسلامی بینک ہے جو 2017 ء سے   مالیاتی دھوکے بازی کی شناخت اور اس سے تحفظ کے لیے  بلاک چین ٹیکنالوجی کو استعمال کر رہا ہے۔ سعودی عرب کا اسلامک ڈویلپمنٹ بینک  بھی 2017 ء  سے کرپٹو (Crypto) فرمز کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ اپریل 2018 ء میں انڈونیشیا کی ایک مالیاتی فرم Blossom Finance نے  ایک تحقیق کی، اور اس تحقیق کا جائزہ لینے کے بعد وہاں کے اسلامک اسکالرز نے کرپٹو کرنسی کو  شرعی قانون کے تحت جائز قرار دیا۔  متحدہ عرب امارات کا ’ال ہلال بینک‘ دنیا کا واحد اسلامی بینک ہے جس نے  ابو ظہبی  کی گلوبل مارکیٹ فنانس  سینٹر کے حوالے سے ٹرانزیکشن  بلاک چین پر کرنا شروع کی۔ اسلامی ممالک میں  بلاک چین ٹیکنالوجی کو شفافیت کی بنا پر ’ اسلامی سرمایہ کاری تک آسان رسائی‘ کے حوالے سے شہرت حاصل ہورہی ہے۔

امریکاکی آڈٹ اور کنسلٹینسی فرم Deloittle کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں  شریعہ کمپلائنس کی مارکیٹ بہت بڑی ہے، جوکہ گلوبل سرمایہ کاری کے  2 فیصد کے برابر ہے ، جس میں سالانہ 18فی صد کے حساب سے بڑھوتری ہورہی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق  دنیا بھر میں 600ملین ڈالر کے اسلامک فنڈز مینج ہورہے ہیں اور ’ اسلامک بینکنگ اینڈ فنانس‘ کے نظام کے اثاثہ جات کا تخمینہ تین کھرب چالیس ارب ڈالر ہے۔ Deloitte کی رپورٹ  سے آپ  اسلامی بینک کاری نظام میں بلاک چین ٹیکنالوجی کے مستقبل کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ بلاک چین ایک ایسی ٹیکنالوجی ہے جس کے استعمال سے پراڈکٹ اور سروسز بنائی جاسکتی ہیں، اسے مختلف طریقے سے استعمال کیا جاسکتا ہے، جیسے کہ سپلائی چین، پبلک سروس، فائن ٹیک، ہیلتھ ٹیک اور بے شمار صنعتی مقاصد کے لیے۔ بلاک چین کی ایپلی کیشنز اور ٹیکنالوجی و کلاؤڈ پر سپورٹ کرنے کے لیے امیزون، آئی بی ایم، مائکروسافٹ جسی بڑی کمپنیاں اپنی اپنی سروسز اور پراڈکٹس لانچ کر رکھے ہیں، جس کی وجہ سے کوئی بھی ڈیویلپر یا کمپنی اپنی ایپلی کیشن یاخدمات کو  ان کے پلیٹ فارم کے ذریعے لانچ اور آپریٹ کر سکتا ہے۔

٭ بلاک چین ٹیکنالوجی کی افادیت اور کرپٹوکرنسی کی قانون سازی میں مشکلات!

کرپٹو کرنسی کوئی ملک نہیں جسے آپ ایک ایٹم بم مار کر ختم کردیں، یا اس کو روکنے کے لیے آپ کوئی سیاسی یا معاشی بحران پیدا کریں، جیسے کے ایک طاقت ور ملک دوسرے ملک کے ساتھ کرتا ہے، یہ کسی مرکزی بینک، مالیاتی ادارے یا کسی ٹیکنالوجی کمپنی کی ایجاد نہیں، نہ ہی انہوں نے اس کو ایجاد کیا اور نہ ہی وہ اس کو چلاتے ہیں۔ اس بات کو آپ اس طرح سمجھیں کہ ڈالر امریکی حکومت کی کرنسی ہے، پاؤنڈ برطانوی حکومت کی کرنسی ہے، لیکن بٹ کوائن یا دیگر کرپٹوکرنسی سرحدوں سے آزاد دنیا کے تمام لوگوں کی ایک یونیورسل کرنسی ہے۔ بٹ کوائن کو نہ ہی ختم کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی بند کیا جاسکتا ہے، کیوں کہ اس کو چلانے والے نہ ہی کسی ملک یا سرکاری ادارے کے ہیں اور نہ ہی یہ کسی ٹیکنالوجی کی کمپنی پراڈکٹ ہے۔ اگر آپ بٹ کوائن کی تاریخ پر ایک نظر ڈالیں تو 2009 میں اپنی لانچنگ کے وقت اس کی تعداد شاید 10نوڈز بھی نہیں تھی اور آج ان کی تعداد تقریباً دس ہزار ہے۔

یہ اعدادوشمار اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ گذشتہ دس سال میں اسے غیرقانونی قرار دے کر روکا گیا، لیکن یہ پھر بھی تیزی سے پھیلی ہے اور اگر بٹ کوائن اور امریکی ڈالر کی قدر کا جائزہ لیا جائے تو آج بٹ کوائن کی قدر امریکی ڈالر کے مقابلے میں کئی سو گنا زائد ہے۔ اگر کوئی ملک یا دنیا کا کوئی بھی قانون یہ بات کرتا ہے کہ دنیا کے انسانوں کو معاشی آزادی ملنی چاہیے یا اس کے معاشی اثاثے کسی بھی سیاسی، سماجی اور معاشی کی بحران کی وجہ سے متاثر نہیں ہونا چاہییں تو پھر اس کے لیے آپ کو کرپٹوکرنسی کی جانب ہی آنا ہوگا۔

کرپٹو کرنسی جیسی ٹیکنالوجیز معاشرے میں اس وقت آتی ہیں جب پہلے سے موجود سسٹم میں کوئی خامی موجود ہو اور ایجاد کرنے والے اس کا ایک حل تجویز کریں۔ تین جنوری 2009ء سے پہلے دنیا میں نہ ہی کوئی ساتوشی ناکا موتو کے نام سے واقف تھا اور نہ ہی کسی کے وہم وگمان میں تھا کہ بٹ کوائن کے نام سے بننے والی کرنسی دنیا کے مالیاتی نظام میں داخل ہوگی۔ آپ کو اس کو غیرقانونی قرار دینے میں محنت کرنے کے بجائے اسے قانونی شکل میں ڈھالنے پر محنت کریں، تاکہ عوام اور ملک دونوں کو فائدہ پہنچے۔  بلاک چین ٹیکنالوجی تین پلرز، ڈی سینٹرالائزڈ (اقتدارِ مرکزیت نہ ہونا)، ٹرانسپیرینسی (شفافیت) اور امیوٹیبلیٹی (تغیرناپذیری) پر قائم ہے، کسی بھی بینک کاری یا مالیاتی ادارے کے نظام میں ان تینوں پلرزکو نہایت اہمیت حاصل ہے لیکن اس کے باوجود بلاک چین کی ایک ایپلی کیشن ’کرپٹو کرنسی‘ کو اب تک قانونی شکل نہ دینے کی بہت سی وجوہات ہیں۔

دنیا میں لیکن اس ٹیکنالوجی کو براہ راست مالیاتی لین دین اور معیشت سے مربوط کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔ دنیا بھر میں معاشی اور زری پالیسی بنانے والے مختلف مالیاتی ادارے اور مرکزی بینکس نہ ہی کرپٹو کرنسی کو قانونی حیثیت دیتے ہیں اور نہ ہی اس ٹیکنالوجی کی افادیت سے انکار کرتے ہیں۔ احسن خان کا کہنا ہے کہ ’ تیکنیکی لحاظ سے بٹ کوائن یا دیگر کرپٹو کرنسیاں بہت ہی مؤثر ہیں، لیکن میرے خیال میں اس کرنسی کو قانونی شکل دینے میں جو ریگولیٹری مسائل ہیں وہ آنے والے وقت میں بھی رہیں گے۔ گذشتہ سال ارجنٹینیا میں ہونے والےG20 اجلاس میں کرپٹوکرنسی موضوع بحث رہی۔ جی ٹوئنٹی ممالک نے ایک طرف بٹ کوائن اور دیگر کرپٹو کرنسی کو قانونی شکل دینے پر زور دینے کے ساتھ بلاک چین جیسی منفرد ٹیکنالوجی اور کرپٹو کرنسی کو محفوظ اور فول پروف بنانے پر بھی بحث کی ، اس اجلاس میں کرپٹو کرنسی پر ’چیک اینڈ بیلنس‘ رکھنے، اسے ٹیکس کے دائرہ کار میں لانے، منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری، ٹیرر فنانسنگ میں اس کے استعمال کے روک تھام پر بھی بات کی گئی۔

جب جی ٹوئنٹی کے طاقت ور اور ترقی یافتہ ممالک کرپٹونسی کو منظم اور قانونی شکل میں ڈھالنا چاہ رہے ہیں تو یہ اس بات کا عندیہ ہے کہ جلد ہی ان ممالک کی فاریکس مارکیٹ میں بٹ کوائن اور دیگر کرپٹو کرنسیز کی خرید و فروخت اسی طرح ہوگی جس طرح ڈالر، پاؤنڈ، اور یورو جیسی روایتی کرنسی کی ہوتی ہے۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ’حکومت پاکستان کو چاہیے کہ کرپٹو کرنسی کو منظم اور قانونی شکل دینے لیے ٹھوس پالیسی مرتب کرے، تاکہ روپے کی گرتی ہوئی قدر کی وجہ سے گرتی معیشت کو سہارا دیا جاسکے، اس کی سب سے بڑی مثال جنوبی امریکا کے ملک وینزویلا کی ہے۔ وینز ویلا نے فروری 2018ء میں  Petro کے نام سے  قانونی اور حکومتی حیثیت رکھنے والی کرپٹو کرنسی  متعارف کروائی، اس کرنسی کے متعارف ہوتے ہی 24 گھنٹوں میں735 ملین ڈالر اکٹھے کر لیے گئے۔ اسی ماہ کی 4 تاریخ کو وینزویلا کے صدرNicolas Maduro  نے ایک حکم نامے کے تحت شہریوں کو مرکزی بینک Banco de Venezuela کو بھی  Petroکے لین دین کی اجازت دے دی۔

اسی سال سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک نے بھی  Libra کے نام سے اپنی کرپٹوکرنسی متعارف کروانے کااعلان کیا ہے۔ کرپٹو کرنسی بہت تیزی سے دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے،  بیش تر ممالک میں اس کو سرکاری اور قانونی حیثیت بھی دی جا رہی ہے۔ آپ امریکا کے سیکیوریٹی ایکسچینج کمیشن کو دیکھ لیں، قبرص کی قانون سازی دیکھ لیں، یا یورپی یونین کی رکن پارلیمنٹ ’ایوا کیلی‘ کی جانب سے پیش کیے جانے والے بلز کا مطالعہ کرلیں، یا پھر’ مالٹیٰز ڈیجیٹل انوویشن اتھارٹی‘ اور اس سے جُڑے ہوئے’ مالٹیز ڈیجیٹل اثاثوں‘ کے لیے کی گئی قانون سازی کا مشاہدہ کرلیں، یہ سب اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ کرپٹوکرنسی کی قانون سازی پچھلے دس سالوں میں اتنی تیزی سے نہیں کی گئی، جس تیزی سے اب کی جا رہی ہے ۔‘

٭بلاک چین ڈیویلپر اور ملازمت کے مواقع

اس بابت احسن خان نے بتایا کہ ’ٹیکنالوجی کی ایک ویب سائٹ TECH CRUNCH  کے اعدادوشمار کے مطابق مارکیٹ میں بلاک چین ڈیویلپر کی طلب دن بہ دن بڑھ رہی ہے، گذشتہ سال اس عہدے کے لیے پوسٹ کی گئی 14 ملازمتوں کے لیے صرف ایک بلاک چین ڈیویلپر موجود تھا۔ اس شعبے میںماہر افراد  کی طلب بہت زیادہ اور رسد بہت کم ہے۔  پاکستان دنیا بھر میں فری لانس کام کرنے والے ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے، ہم اپنے ملک کے نوجوانوں کو بلاک چین ڈیویلپمنٹ کی تربیت دے کر اس طلب کو پورا کرسکتے ہیں۔ فری لانس کام کرنے کی بدولت ریمٹنس کی مد میں خطیر زرمبادلہ پاکستان آئے گا۔ بلاک چین ڈیویلپر بننے کے لیےC++  اور جاوا لینگویج پر عبور، اسکرپٹنگ یا پروگرامنگ لینگویجز جیسے کہ Ethereumبلاک چین کی Solidity  وغیرہ کو بہت آسانی سے سیکھا جا سکتا ہے۔  آج کے دور میں بلاک چین ڈیویلپر بننا یا کسی بھی قسم کی ڈیویلپمنٹ کی تربیت حاصل کرنا بہت ہی آسان ہے۔

انٹرنیٹ پر تربیتی مواد  پر مشتمل ویڈیوز، ٹولزتحریری مواد بامعاوضہ اور مفت میں موجود ہے۔ بہت سارے لوگ بلاک چین ڈیویلپمنٹ سیکھ کر فری لانس کام کر رہے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان میں ڈیڑھ سو کے قریب بلاک چین ڈیویلپرز ایسے ہیں جو کسی نہ کسی شکل میں اس کام سے  فری لانس وابستہ ہیں، کچھ اس کی تربیت حاصل کر رہے ہیں، کچھ اپنی مہارتوں کو مزید نکھار رہے ہیں، ہم نے دس ہزار بلاک چین ڈیویلپرز کو تربیت دینے کا ایک پروگرام شروع کیا تھا لیکن وسائل کی عدم دست یابی کی وجہ سے اس پر عمل درآمد نہیں کیا جاسکا۔

حال ہی میں صدر پاکستان کی جانب سے ایک پروگرام ’ پریذیڈینشل انیشی ایٹو فار آرٹیفیشل انٹیلیجنس اینڈ کمپوٹنگ ( پی آئی اے آئی سی ) کے نام سے شروع کیا گیا ہے۔ PIAIC کی کورس آؤٹ لائن بہت ہی عمدہ بنائی گئی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ بلاک چین ڈیویلپر بننے کے خواہش مند افراد کو PIAIC سے تربیت لینا چاہیے، کیوں کہ اس کی فیکلٹی بہت اچھی ہے۔ اگر تعلیمی اداروں کی سطح پر بات کی جائے تو اس وقت آئی بی اے غالباً واحد ادارہ ہے جہاں ’بلاک چین انووینش سینٹر‘ کے نام سے ایک علیحدہ بلاک بنایا گیا ہے جس کے بلاک چین سے متعلقہ بے شمار تربیتی پروگرام اور کنسلٹینسی پراجیکٹ بھی متعارف کروائے گئے ہیں۔

آئی بی اے سکھر نے حکومت سندھ کے تعاون سے نے ’سینٹر آف روبوٹکس، آرٹیفیشل انٹیلی جنس اور بلاک چین(CRAIB)  متعارف کروایا ہے اور آئندہ مالی سال میں اس کے لیے بجٹ بھی مختص کیا گیا ہے۔ اور آئی بی اے کے اس پروگرام کی طرز پر پورے پاکستان میں کالج اور جامعات کی سطح پر اس طرح کے شعبے قائم کیے جانے چاہییں۔ حال ہی میں آئی بی اے کے ’بلاک چین انوویشن سینٹر‘ نے بلاک چین ٹیکنالوجی کی مدد سے لینڈ رجسٹری اور تعلیمی اسناد کی  تصدیق کا نظام بھی تیار کیا ہے۔ آئی بی ایم، سام سنگ جیسی بڑی کمپنیوں کا بلاک چین کی جانب بڑھتا رجحان اسے اور بھی اہمیت کا حامل بنا رہا ہے۔ اگر آپ بلاک چین میں دل چسپی رکھتے ہیں تو اس پر عبور آپ کو ایک روشن مستقبل فراہم کرسکتا ہے۔ دنیا بھر میں اس ٹیکنالوجی پر بہت تیزرفتاری سے کام ہورہا ہے،جس کا حصول ہمارے لیے بھی اہم ہے، اگر ہم نے اپنا سرمایہ اور وقت ان نت نئی ٹیکنالوجیز پر نہ لگایا تو ہمارے لیے مستقبل میں بہتری کے امکانات مزید کم ہوجائیں گے۔

٭بلاک چین ٹیکنالوجی اور اس کی کاسٹ

اس بابت احسن خان نے بتایا کہ ’بلاک چین ٹیکنالوجی میں بنیادی طور پر دو بڑے اخراجات ہوتے ہیں: ایک Deployment Expense اور ایک Operational Expnse۔ اگر بٹ کوائن (Bitcoin) کی مثال لیں تو اس کا ڈپلائمنٹ خرچ کچھ خاص نہیں، لیکن اس کی آپریشنل کاسٹ بہت زیادہ ہے، مثال کے طور پر کرپٹو کرنسی کی مائننگ کے لیے استعمال ہونے والے کمپیوٹرز کی قیمتیں ہزاروں ڈالر میں ہیں۔ مائنرز اپنی مشین کی انوسٹمنٹ کرتے ہیں اور Bitcoin کی ٹرانزیکشن اور مائننگ کرتے ہیں جس کی بدولت انہیں کوائنز کی شکل میں incentive ملتا ہے وہی ان کی ریٹرن آف انوسٹمنٹ ہوتی ہے۔

یہ مثال پبلک بلاک چین Bitcoin سے جڑی ہوئی ہے، اگر آپ انٹرپرائز لیول پر بات کریں تو جیسے اگر کوئی کمپنی اپنی سپلائی چین کو زیادہ شفاف یا مؤثر بنانا چاہتی ہے تو وہ کلاؤڈ سرورز اور کلاؤڈ کمپیوٹنگ استعمال کرے گی، Deployment اور آپریشنل Cost بھی کلاؤڈ کی ہی ہوگی۔ بلاک چین کو اگر خدمات کے تناظر میں دیکھا جائے تو ایمازون، مائیکروسافٹ اور آئی بی ایم جیسی کمپنیز پہلے اس مد میں خدمات فراہم کر رہی ہیں، نجی کمپنیاں اپنے بلاک چین کی ڈپلائمنٹ اور آپریشنز کو کلاؤڈ پر رکھ سکتی ہیں لیکن اس کے لیے انہیں اپنے ریسورسز کے حساب سے فیس دینی ہوگی۔ اب بات کرتے ہیں بلاک چین ٹیکنالوجی کی ٹرانزیکشن کاسٹ کی ۔ یہ بات درست نہیں ہے کہ بلاک چین ٹرانزیکشن کاسٹ سے مبرا ہے ۔ بلاک چین کی ٹرانزیکشن ہوتی ہے چاہے وہ پبلک ہو یا پرائیویٹ بلاک چین Cost ہمیشہ ہوتی ہے، یہ کم زیادہ یا مختلف اشکال میں بھی ہوسکتی ہے ۔

٭ بلاک چین ٹیکنالوجی اور اس کا مستقبل

اس بارے میں احسن خان کا کہنا ہے کہ ’میرا موضوع کرپٹوکرنسی نہیں بلکہ اس کے پس پردہ کام کرنے والی بلاک چین جیسی طاقت ور ٹیکنالوجی ہے۔ پاکستان میں کچھ لوگ انفرادی سطح پر بلاک چین پر کام کر رہے ہیں، لیکن ان کے پراجیکٹ باہر کی کمپنیوں کے ہیں۔ وہ اپنے اوورسیز صارفین کو سروس دے رہے ہیں۔ حال ہی میں سندھ کے وزیربرائے انفارمیشن ٹیکنالوجی تیمور تالپور صاحب سے بلاک چین اور اس متعلق آئی ٹی کے معاملات پر گفت گو ہوئی۔ ان کی وزارت کے تحت ’سندھ آئی ٹی بورڈ ‘ کے نام سے ایک ادارے کے قیام کا ڈرافٹ بھی تیار ہوگیا ہے، جسے جلد ہی منظوری کے لیے سندھ اسمبلی میں پیش کردیا جائے گا۔

اس بورڈ کے قیام کا مقصد گورننس، ڈیجیٹیلائزیشن  کے ساتھ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ایک خصوصی جامعہ کے قیام اور نجی شعبے کو اس حوالے سے  سہولتیں فراہم کرنا ہے۔ آئی ٹی بورڈ میں بلاک چین اور دیگر ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز کا بھی اہم کردار ہوگا۔ جہاں تک پاکستان میں کرپٹوکرنسی کے مستقبل کی بات ہے تو یہ ایک ایسا وائرس ہے جو دنیا بھر کو تیزی سے اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے۔

اس کے بارے میں آگاہی تھرڈورلڈ ممالک، ترقی پذیر ممالک اور ابھرتی ہوئی مارکیٹوں میں بھی پہنچ گئی ہے، ترقی پذیر ممالک کی حکومتیں، انسٹی ٹیوشنز اس کے فروغ اور اسے اپنانے کے لیے کام کر رہے ہیں، ضرورت کے تحت قانون سازی اور مختلف پالیسیاں بھی بنا رہے ہیں، جیسے امریکا، یورپی ممالک، گلف ممالک، ملائیشیا، کمبوڈیا، ویت نام وغیرہ اور ان ملکوں نے یہ اس لیے کیا ہے کہ یہ اس ایجاد سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، کیوںکہ اس کا مستقبل اور وسعت بہت شان دار ہے۔  پاکستان میں مرکزی بینک نے بٹ کوائن اور دیگر کرپٹو کرنسیوں کی خریدوفروخت پر پابندی عائد کر رکھی ہے، لیکن دنیا کے دیگر ممالک میں اس کی ترقی کے بہت زیادہ امکانات ہیں۔ کچھ عرصے قبل بلاک چین اور کرپٹو کے فروغ کے لیے کام کرنے والی ایک خو مختار  ویب سائٹ ہیکر نون نے ’’بلاک چین۔ گلوبل پراسپیکٹیو‘‘ کے نام سے ایک مضمون شایع کیا، جس میں بلاک چین کی ایپلی کیشنز استعمال کرنے والی ان مختلف کمپنیوں اور حکومتوں کو نمایاں کیا گیا ہے جن کا کرپٹوکرنسی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

اگر آپ بلاک چین کو کرپٹوکرنسی سے الگ کرکے دیکھیں تو اس کی وسعت بہت زیادہ ہے، لہٰذا آپ کی توجہ کا مرکز بلاک چین ہونا چاہیے۔ کرپٹوکرنسی کے بارے میں سوچنے کے لیے آپ کو قانونی معاملات، پالیسیز اور ریگولیشنز کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ سرمایہ کاری (افرادی قوت، وقت اور پیسے کی شکل میں) کرنی پڑ ے گی۔ لیکن اگر آپ کرپٹوکرنسی سے ہٹ کر صرف بلاک چین کے استعمال پر کام کرنا چاہتے ہیں تو یہ بہت ہی آسان ہے اور اس کی بڑھوتری بھی بہت زیادہ ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر کی بہت سی نجی کمپنیاں بلاک چین ایکوسسٹم میں دو ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کرچکی ہیں، ایک ہزار سے زیادہ فعال کمپنیز موجود ہیں، آئندہ کچھ ہی سالوں میں  اس کی گلوبل مارکیٹ 290 بلین ڈالر تک  پہچنے کی توقع کی جا رہی ہے۔

ٹیکس اور مالیاتی معاملات  میں مشاورت فراہم کرنے والی برطانوی کمپنی ’پرائس واٹر ہاؤس کوپرز‘ PWC کی جانب سے گزشتہ سال ایک سروے کیا گیا، جس میں 14ٹریٹوریز کے 600 ایگزیکٹیوز کو شامل کیا گی، اس میں سے 84 فی صد Respondents بلاک چین میں شامل ہیں، 30 فی صد کو یہ لگتا ہے کہ چین بلاک چین کو لیڈ کرے گا، اور 28 فی صد کا خیال ہے کہ Interperobaility اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ گلوبل ریسرچ  فرم  Gartnerکی پیش گوئی کے مطابق  2030 تک صرف امریکا میں بلاک چین  3 کھرب ڈالرسالانہ  تک کابزنس ویلیو پیدا  کرسکتی ہے، جب کہ دنیا کا 10 سے 20 فی صدانفرااسٹرکچر 2030 تک بلاک چین  ٹیکنالوجی کی بنیاد پر بننے والے نظام پر منتقل ہوچکا ہوگا۔

PWC کے مطابق بلاک چین پر 20 فی صد تحقیق ہو رہی ہے، 32 فی صد ڈویلپمنٹ، 10 فی صد پائلٹ پروجیکٹ اور 15 فی صد پروجیکٹس فعال ہوچکے ہیں اور  7 فی صد کسی وجہ سے رکے ہوئے ہیں۔ ورلڈاکنامک فورم کے مطابق بلاک چین  عالمگیر تجارت میں تقریباً1 کھرب ڈالر اضافہ کرسکتی ہے، جوکہ SMEs پر منحصر ہوگا۔ بٹ کوائن اور ڈیجیٹل کرنسیوں پر کام کرنے والی ویب سائٹ Coin Desk میں شایع ہونے والے ایک  آرٹیکل کے مطابق دنیا کے 40 سینٹرل بینک بلاک چین ایپلی کیشز کو ترجیح دے رہے ہیں، ان میں سے اکثریت کی دلچسپی کا محور’ ایبسینٹ  کرپٹوکرنسی‘ کی بنیاد پر بننے والی ایپلی کیشنز ہیں، لیکن انڈسٹری ٹریڈ، فنانس، بینکنگ، ٹیکنالوجی، پیمنٹس اور  ریمٹنیس  وغیرہ بھی ان کی ترجیحات میں شامل ہیں ۔

Deloitte کے 2019 کے سروے کے مطابق بلاک چین اب میچوریٹی فیز میں داخل ہو رہی ہے۔ فروری 2018 سے مارچ 2019 کے درمیان کیے گئے اس سروے میں 12 ممالک  کو شامل کیا گیا تھا جن میں امریکا، کینیڈا، جنوبی  امریکا، یورپ اور  خلیجی ممالک   شاملتھے۔ اس سروے میں  امریکا کی وہ کمپنیاں  شامل کی گئیجن کی سالانہ آمدنی 500 ملین ڈالر یا اس سے زیادہ تھی اور امریکا کے علاوہ دیگر ممالک کی ان کمپنیوں کو اس سروے کا حصہ بنایا گیا جن کی سالانہ آمدنی 100 ملین ڈالر یا اس سے زیادہ تھی۔

اس سروے میں 50ملین ڈالر  سالانہ سے کم آمدن رکھنے والی ان  ابھرتی ہوئی کمپنیوں کو بھی شامل کیا گیا جن کا تعلق بلاک چین سے تھا۔  اس سروے رپورٹ  کے مطابق 40 فی صد  کمپنیاں اگلے 12 ماہ میں بلاک چین میں تقریباً 5 ملین ڈالر سرکی مایہ کاری کرنا چاہتی ہیں، 53 فی صد کا خیال ہے کہ بلاک چین ایک ’ خطرناک ترجیح ‘ ہے، 83 فی صد کا ماننا ہے کہ بلاک چین کا استعمال قدرے بہتر اور اہمیت کا حامل ہے، جب کہ بلاک چین  اکثر کمپنیوں کی سرفہرست 5 ترجیحات میں شامل ہے، 23 فی صد کمپنیاں اس پر  پہلے ہی کام شروع کرچکی ہیں۔ درج بالا تمام ریسرچ اور سروے کے نتائج سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بلاک چین کس تیزی سے دنیا میں مقبولیت حاصل کر رہی ہے ۔

کرپٹوکرنسی کیا ہے؟
ڈیجیٹل کرنسی کی ایک منفرد بات یہ بھی ہے کہ کوئی بھی اس کا مالک نہیں ہے اور نہ ہی کوئی اس کے پس منظر میں کام کرنے والی ٹیکنالوجی کی ملکیت کا دعوے دار ہے۔ کرپٹوکرنسی کو دنیا بھر میں موجود اس کے استعمال کنندہ ہی کنٹرول کرتے ہیں، ڈویلپرز اس سافٹ ویئر کو مزید بہتر تو بنا سکتے ہیں، لیکن وہ اس کرنسی کے پروٹوکول میں تبدیلی نہیں کرسکتے، کیوں کہ ہر استعمال کنندہ کو اپنی مرضی کا سافٹ ویئر اور ورژن استعمال کرنے کی مکمل آزادی ہے۔ ایک دوسرے سے مطابقت رکھنے کے لیے تمام استعمال کنندگان کو ایک جیسے اصول پر پورا اترنے والے سافٹ ویئر استعمال کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کرپٹوکرنسی اسی صورت میں صحیح کام کرتی ہے جب تمام استعمال کنندگان کے درمیان مکمل مطابقت ہو۔ یہی وجہ ہے کہ تمام استعمال کنندہ اور ڈویلپرز اس مطابقت کو تحفظ دینے کے لیے سخت محنت کرتے ہیں۔

کرپٹوکرنسی کس طرح کام کرتی ہے؟
ایک استعمال کنندہ کے نقطۂ نظر سے کرپٹوکرنسی ایک ایسی موبائل ایپلی کیشن اور کمپیوٹر پروگرام سے زیادہ کچھ نہیں ہے جو ذاتی کرپٹوکوائن والیٹ فراہم کرتا ہے اور استعمال کنندہ اس کے ذریعے کوائن (ڈیجیٹل کرنسی) بھیجتا اور وصول کرتا ہے۔ لیکن استعمال کنندہ کے نقطۂ نظر کے برعکس اس کا پس منظر دیکھا جائے تو ڈیجیٹل کرنسی کا کوائن نیٹ ورک ایک عوامی لیجر (بہی کھاتا) میں شریک کرتا ہے جو ’’بلاک چین‘‘ کہلاتا ہے۔ اس لیجر میں تمام ٹرانزیکشن کی تفصیلات موجود ہوتی ہیں اور ہر ٹرانزیکشن کی درستی کے لیے استعمال کنندہ کے کمپیوٹر کی تصدیق کی جاتی ہے۔ کسی جعل سازی سے بچنے کے لیے ہر ٹرانزیکشن کو ڈیجیٹل دستخط سے تحفظ فراہم کیا جاتا ہے، جب کہ کمپیوٹر یا مخصوص ہارڈویئرز کے ذریعے یہ سروس فراہم کرنے پر بطور انعام کوائن بھی دیے جاتے ہیں، جسے اکثر لوگ ’’مائننگ‘‘ کہتے ہیں۔

٭ کرپٹوکرنسی سے ادائیگی کا طریقۂ کار:
ڈیجیٹل کرنسی سے خریداری کریڈٹ یا ڈیبٹ کارڈ سے زیادہ سہل ہے اور اسے کسی بھی مرچنٹ اکاؤنٹ کے بغیر وصول کیا جاسکتا ہے۔ رقوم کی ادائیگی والیٹ ایپلی کیشن کے ذریعے کی جاتی ہے اور یہ ایپلی کیشن آپ اپنے کمپیوٹر اور اسمارٹ فون سے بھی استعمال کرسکتے ہیں، پیسے بھیجنے کے لیے وصول کنندہ کا ایڈریس اور ادا کی جانے والی رقم لکھ کر Send کا بٹن دبا دیں۔ وصول کنندہ کا ایڈ ریس لکھنے کا طریقہ مزید سہل بنانے کے لیے اسمارٹ فون کی مدد سے QRکوڈ (ایڈریس، فون نمبرز، ای میل ایڈریس اور ویب سائٹ کی معلومات پر مبنی مخصوص کوڈ جو سیاہ اور سفید چوکور خانوں پر مشتمل ہوتا ہے اور اسکین کرنے پر تمام معلومات فون میں منتقل کردیتا ہے) اسکین کرلیں۔ اس طریقۂ کار کے ذریعے دنیا بھر میں کسی بھی جگہ کسی بھی وقت رقوم کی منتقلی اور وصولی فوراً ہوجاتی ہے۔

یہ طریقۂ کار کسی سرحد، کسی بینک ہالیڈے اور حکومتی پالیسیوں کی قید سے آزاد ہے۔ کرپٹوکرنسی استعمال کنندہ کو اپنی رقم پر مکمل کنٹرول دیتی ہے۔ ڈیجیٹل کرنسی سے کی جانے والی ادائیگیوں پر کوئی فیس نہیں لی جاتی، تاہم بٹ کوائنز کو کاغذی نوٹوں میں تبدیل کروانے یا فروخت کنندہ کے بینک اکاؤنٹ میں براہ راست جمع کرانے پر معمولی فیس لی جاتی ہے، جو کہ Pay Pal اور کریڈٹ کارڈ نیٹ ورکس کی نسبت بہت کم ہوتی ہے۔

کرپٹوکرنسی سے کی جانے والی ٹرانزیکشنز محفوظ، ناقابل واپسی ہیں اور ان میں صارف کی حساس اور نجی معلومات بھی شامل نہیں ہوتیں۔ یہی وجہ ہے کہ کاروباری مقاصد کے لیے یہ ایک محفوظ اور بھروسے کے قابل کرنسی سمجھی جا رہی ہے اور تجارت پیشہ افراد کریڈٹ کارڈ سے ہونے والے فراڈ سے بھی ممکنہ حد تک بچ سکتے ہیں۔ ڈیجیٹل کرنسی کے استعمال کنندہ کو اپنی ٹرانزیکشن پر مکمل کنٹرول ہوتا ہے اور فروخت کنندہ کے لیے کرپٹو کرنسی کے ذریعے ادائیگی کرنے والے صارف سے فیس کی مد میں اضافی فیس وصول کرنا ناممکن ہے۔

٭ کرپٹوکرنسی کے نقصانات:
کرپٹوکرنسی مکمل طور پر اوپن سورس اور ڈی سینٹرلائزڈ ہے، جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ کوئی بھی کسی بھی وقت مکمل سورس کوڈ پر قابض ہوکر دنیا بھر کے لاکھوں افراد کو ان کی متاع حیات سے محروم کرسکتا ہے۔ تاہم ایسا ہونا بظاہر ناممکن ہے، کیوں کہ یہ مکمل نظام ’’cryptographic algorithms‘‘ پر مشتمل ہے اور کوئی فرد یا تنظیم ڈیجیٹل کرنسی کے چین بلاک پر مکمل کنٹرول حاصل نہیں کرسکتی۔ ڈیجیٹل کرنسی کے سب سے بڑے نقصانات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ زیادہ تر لوگ ابھی تک اس بارے میں بہت کچھ نہیں جانتے۔ کرپٹو کرنسی کا ایک بڑا نقصان اس کی مالیت میں تیزی کے ساتھ ہونے والا اتار چڑھاؤ ہے، جس کا سب سے زیادہ اثر ڈیجیٹل کرنسی وصول کرنے والے چھوٹے تاجروں اور کاروباری اداروں پر پڑتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔