دنیا بھر میں مخالفانہ مہم چل پڑی؛ پلاسٹک شاپنگ بیگ پابندی کی زد میں

سید عاصم محمود  اتوار 28 جولائی 2019
اس کاروبار سے وابستہ لاکھوں پاکستانیوں کو متبادل معاشی تحفظ فراہم کرنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ فوٹو: فائل

اس کاروبار سے وابستہ لاکھوں پاکستانیوں کو متبادل معاشی تحفظ فراہم کرنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ فوٹو: فائل

آپ کو وطن عزیز کے کسی شہر یا قصبے کی سڑک پر چلنے کا اتفاق ہو تو کوئی اور شے نظر آئے نہ آئے، ایک چیز ضرور دکھائی دے گی… پلاسٹک بیگ کی تھیلی جسے عرف عام میں ’’شاپر‘‘ کہا جاتا ہے۔

اکثر گزرگاہوں پر پلاسٹک سے بنے یہ شاپنگ بیگ پودوں سے لپٹے، مین ہولوں میں پھنسے، فٹ پاتھوں پر بکھرے حتیٰ کہ بجلی کی تاروں سے لٹکے نظر آتے ہیں۔ گویا یہ رنگ برنگ اور چھوٹے بڑے شاپر اچھے خاصے ماحول کو بدنما بناڈالتے ہیں۔ مگر یہ ان کا صرف ایک منفی روپ ہے۔ ان کا زیادہ خطرناک پہلو یہ ہے کہ شاپر انسانی و حیوانی زندگی کے لیے خطرہ بن چکے ہیں۔

ماضی میں پلاسٹک کی اشیا قدرتی چیزوں مثلاً ربڑ، سیلولوز، کولاجن یا جیلٹن سے بنتی تھیں۔ انیسویں صدی میں سائنس داں کیمیائی مادوں اور رکازی ایندھن (کوئلہ، گیس، تیل) کے ذریعے مصنوعی پلاسٹک بنانے لگے۔ آج دنیا بھر میں 99 فیصد پلاسٹک مصنوعی ہی بنتا ہے۔ پلاسٹک کی کئی اقسام ہیں۔ بیشتر شاپنگ بیگ ’’پولیتھین پلاسٹک‘‘ سے بنتے ہیں۔ یہ پلاسٹک 1933ء میں برطانوی کمپنی، امپرئیل کیمیکل انڈسٹریز کے ماہرین نے تیار کیا۔ 1965ء میں سویڈن کی کمپنی، سیلوپلاسٹ نے پولیتھین سے شاپنگ بیگ ایجاد کرلیا۔

اس وقت دنیا بھر میں لوگ پٹ سن یا سوت سے بنے تھیلے خریداری کے لیے استعمال کرتے تھے۔ ایک دو کلو وزنی اشیا گاہک کو دینے کے لیے کاغذ سے بنی تھیلیاں موجود تھیں۔ پاکستان میں دکان دار عموماً اخبار میں لپیٹ کر سودا بیچتے تھے مگر 1980ء کے عشرے میں پلاسٹک بیگ انسانی معاشروں میں برتے جانے لگے۔ یہ ہلکے ہونے کے باوجود مضبوط اور استعمال میں آسان تھے، اسی لیے دیکھتے ہی دیکھتے پوری دنیا میں مقبول ہوگئے۔ سپر مارکیٹوں سے لے کر ٹھیلوں والوں تک سبھی شاپر استعمال کرنے لگے۔

شاپر نے خریداری کے عمل کو سہل ضرور بنا دیا مگر یہ اس کی اکلوتی خوبی ہے۔ شاپر کی خامیاں رفتہ رفتہ سامنے آئیں۔ سب سے پہلے افشا ہوا کہ شاپنگ بیگ کو ٹھکانے لگانا بہت مشکل عمل ہے۔ یہ پانی میں دس تا بیس سال کے عرصے میں حل ہوتا ہے جبکہ زمین میں گلنے گھلنے میں پانچ سو برس تک لگا سکتا ہے۔ جب دنیا بھر میں ہر سال کھربوں پلاسٹک بیگ بننے اور سڑکوں پر بکھرے نظر آنے لگے، تو ان کی ایک اور خامی اجاگر ہوئی۔ اب لوگوں کو احساس ہوا کہ شاپر ماحول کی صفائی ستھرائی اور خوبصورتی برباد کردیتے ہیں۔

شاپروں کی کثرت پھر ترقی پذیر ممالک میں سیوریج کی پائپ لائنیں بند کرنے لگیں۔ 2000ء میں بنگلہ دیش میں شدید بارشوں نے تباہی مچادی تھی۔ تب سیوریج میں شاپر پھنس جانے کی وجہ سے بنگلہ دیشی شہروں میں سیلاب آگیا اور بہت سا جانی و مالی نقصان ہوا۔ تب بنگلہ دیشی حکومت نے شاپنگ بیگوں کے استعمال پر پابندی لگادی۔ بنگلہ دیش پہلا ملک ہے جس نے شاپروں کا عام استعمال ممنوع قرار دیا۔

قبل ازیں بتایا گیا کہ ننانوے فیصد پلاسٹک اشیا بشمول شاپر بیگ کیمیائی مادوں سے بنتے ہیں۔ ان میں شاپر بیگ اس لیے زیادہ خطرناک ہیں کہ یہ پانی اور مٹی کا حصہ بن رہے ہیں۔ جب یہ رفتہ رفتہ گل سڑ جائیں تو ان کے کیمیکل پانی اور مٹی میں شامل ہوجاتے ہیں۔ انسان اور جانور یہ پانی نوش کریں اور مٹی میں اگائی غذا کھائیں تو مختلف بیماریوں کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ دور جدید کی بہت سی ایجادات نے انسانی زندگی آرام دہ ضرور بنادی مگر وہ خفیہ طور پر انسان کو امراض کا شکار بھی بنارہی ہیں۔ انسان کو پتا ہی نہیں چلتا کہ وہ کیوں بیمار ہوگیا؟ اکثر اوقات یہ امراض جان لیوا ثابت ہوتے ہیں۔

سمندروں اوردریاؤں میں شاپنگ بیگ آبی و ارضی جانوروں کے لیے مصیبت بنتے ہیں۔ کبھی وہ کسی پرندے کے حلق میں پھنس کر اس کا گلا گھونٹ دیتے ہیں۔ وجہ یہ کہ پرندے شاپروں کو جیلی فش سمجھ کر چٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ حال یہ ہے کہ پرندوں کے مردہ بچوں کے معدوں سے شاپروں کے اجزا نکل رہے ہیں۔ یاد رہے، دنیا میں کئی ممالک شاپروں سمیت اپنا بیشتر فضلہ سمندروں میں انڈیلتے ہیں۔ چناں چہ یہ سمندر دیوہیکل کوڑے دان کی شکل اختیار کرنے لگے ہیں۔ کئی پرندے شاپروں کے جھنڈ میں پھنس کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

شاپنگ بیگ سے وابستہ خطرات کے باعث ہی اب دنیا بھر میں وفاقی، صوبائی (ریاستی) یا مقامی حکومتیں ان کے استعمال پر پابندی لگارہی ہیں۔ تاہم یہ اقدام ترقی پذیر ممالک میں معاشی بدحالی، بیروزگاری اور بے چینی بھی پیدا کررہا ہے۔ وجہ یہ کہ ترقی یافتہ ممالک میں تو حکومتیں شاپنگ بیگ کے کاروبار سے وابستہ افراد کو متبادل روزگار اور رقم بھی فراہم کرتی ہیں۔ لیکن ترقی پذیر ممالک میں شاپنگ بیگ کے کاروبار سے متعلق لاکھوں افراد کو اس قسم کی سہولتیں میسر نہیں۔ لہٰذا وہ بیروزگار ہوکر معاشی پریشانیوں میں مبتلا ہوچکے۔

پاکستان میں بھی وفاقی اور صوبائی حکومتیں شاپنگ بیگوں کے استعمال پر پابندی لگانا چاہتی ہیں۔ اس سلسلے میں کئی بار قوانین بنائے جاچکے مگر ان پر سختی سے عملدرآمد نہیں ہوا۔ لیکن اب حکومتیں ماحول صاف ستھرا رکھنے کی خاطر شاپنگ بیگ کی خریدوفروخت سختی سے روک رہی ہیں اور اس ضمن میں نئے قوانین بھی بن رہے ہیں۔مثال کے طور پہ 14 اگست کے بعد اسلام آباد میں یہ بیگ استعمال نہیں ہوسکیں گے۔ اسی طرح کراچی اور دیگر شہروں کے کنٹونمنٹ علاقوں میں شاپنگ بیگوں کی خریدوفروخت ممنوع قرار دی جاچکی۔ مگر دیکھنا چاہیے کہ کیا وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتیں شاپنگ بیگوں کے کاروبار سے وابستہ پاکستانیوں کو مختلف سہولتیں فراہم کررہی ہیں تاکہ وہ معاشی مسائل میں گرفتار نہ ہوں؟

اعدادو شمار کے مطابق پاکستان میں شاپنگ بیگ بنانے والے آٹھ ہزار سے زائد چھوٹے بڑے کارخانے کام کررہے ہیں۔ ان میں سے اکثر غیر دستاویزی معیشت کا حصہ ہیں۔ کارخانوں میں پونے دو لاکھ افراد کام کرتے ہیں جبکہ بیگوں کی خریدو فروخت سے تقریباً چھ لاکھ افراد کا روزگار وابستہ ہے۔ ظاہر ہے، پلاسٹک بیگوں پر پابندی ان ہم وطنوں کو بیروزگار بناکر معاشی مسائل میں مبتلا کردے گی۔ لہٰذا انہیں بھی مالی طور پر سہارا دینا ہوگا تاکہ وہ اپنے گھر کی معاشی گاڑی رواں دواں رکھ سکیں۔

ایک حل یہ ہے کہ رجسٹرڈ کارخانوں کو سوت سبسڈی پر فراہم کیا جائے۔ پاکستان کپاس پیدا کرنے والا دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہے۔ سوت اسی قدرتی نعمت سے بنتا ہے۔قدرتی شے ہونے کے باعث پلاسٹک کے مقابلے میں ماحول دوست ہے۔ انسانی صحت کے لیے بھی مضر نہیں۔ سوت سے بنے چھوٹے بڑے تھیلوں کی خاصیت یہ ہے کہ انہیں کئی بار استعمال کرنا ممکن ہے۔ ایک بار سوتی تھیلا خریدیے اور اس سے کئی ماہ کام لیجیے۔ یوں پاکستانی ماحول دوست قوم بن جائیں گے۔ نیز پاکستان میں کپاس اور سوت کے شعبوں کو فروغ حاصل ہوگا۔

اگر شاپنگ بیگ بنانے والی فیکٹریوں کو بتدریج متبادل مٹیریل کو استعمال کے ذریعے ماحول دوست بیگ بنانے کی طرف منتقل کر دیا جائے تو بیروزگاری کا بحران بھی پیدا نہ ہوگا اور انڈسٹری بھی دوبارہ اپنے پاؤں پر کھڑی ہو جائے گی۔ مزید براں شاپنگ بیگ بنانے والے کارخانے دیوالیہ ہونے سے بچ جائیں گے اور لاکھوں پاکستانیوں کے بیروزگار ہونے کا خدشہ بھی جاتا رہے گا۔ یاد رہے اس وقت شاپنگ بیگوں کی تیاری کے لیے خام مال باہر سے آتا ہے۔ اگر پاکستانی کارخانے مقامی سوت سے بیگ بنانے لگے، تو یوں بہت سا زرمبادلہ بھی بچ جائے گا۔

سوتی تھیلوں کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ناکارہ ہونے کے بعد وہ ماحول کو نقصان نہیں پہنچاتے۔ اگر کوڑے میں پھینک دیئے جائیں تو چند ماہ بعد کھاد کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔ جراثیم کے ذریعے جلد گل سڑ جانے والا مواد اصطلاح میں ’’بائیوڈیگر یڈایبل‘‘ (biodegradable) کہلاتا ہے۔ کاغذ، پٹ سن اور دیگر نامیاتی مادوں سے بنی اشیا کوڑے کا حصہ بن جانے کے بعد جلد گل سڑ جاتی ہیں اور ماحول کو طویل عرصے تک نقصان پہنچاتیں۔ پاکستان اور دیگر ممالک کی حکومتیں انہی بائیو ڈیگر یڈایبل مادوں سے تیار کردہ شاپنگ بیگ کی منظوری دے رہی ہیں۔بائیو ڈیگریڈایبل مادوں سے بنے شاپنگ بیگ مگر مہنگے ہوتے ہیں جبکہ پلاسٹک شاپنگ بیگ کی تیاری پر کم خرچ آتا ہے۔ اسی لیے دکان دار، گاہکوں کو مفت دے دیتے ہیں لیکن بائیو ڈیگر یڈایبل شاپنگ بیگوں کا چلن شروع ہوا تو دکاندار گاہکوں سے ان کی بھی قیمت وصول کرسکتے ہیں۔

ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اگر چھوٹے سائز کے شاپروں پر بتدریج پابندی لگا کر بڑے اور مضبوط شاپروں کی حوصلہ افزائی کی جائے تو مہنگے ہونے کے باعث لوگ انہیں سڑکوں پر نہیں پھینکیں گے اور انہیں ری سائیکل کیا جا سکے گا۔ ایسے مختصر المدتی اور طویل المدتی اقدامات کیے جائیں کہ ان پاکستانیوں کو متبادل اور باعزت روزگار مل جائے اور پاکستانی معاشرے سے پلاسٹک شاپنگ بیگ کا چلن بھی ختم ہوجائے۔ اس طرح دونوں مقاصد حاصل ہو سکیں گے۔

ہنزہ میں ماحولیاتی انقلاب
ترقی پذیر ممالک کی حکومتیں پلاسٹک شاپنک بیگ کی تیاری پر وقتاً فوقتاً پابندی لگاتی رہتی ہیں مگر اس سلسلے میں قانون کا نفاذ سختی سے نہیں کیا جاتا۔ وجہ یہی کہ ان شاپنگ بیگوں کے کاروبار سے نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے ہزاروں لاکھوں افراد کا روزگار جڑا ہوتا ہے۔ حکومتیں ان غریبوں کو بیروزگار کرنے سے کتراتی ہیں۔ اسی لیے بیگوں کی تیاری جاری رہی۔ مگر اب پاکستان میں سختی سے قانون کا نفاذ کررہی ہیں تاکہ پلاسٹک بیگوں کی روک تھام ہو سکے۔

مثال کے طور پر وادی ہنزہ میں انتظامیہ نے پلاسٹک شاپنگ بیگوں کی تیاری اور خریدو فروخت پر پابندی لگاتے ہوئے دفعہ 144 نافذ کردی ۔ اب وادی میں جو شخص شاپر استعمال کرتے پکڑا گیا اسے بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔ نیز اسے جیل بھی ہوسکتی ہے۔یہ ایک مستحسن اقدام ہے۔ وادی ہنزہ میں ہر سال لاکھوں سیاح آتے ہیں مگر ان کے ذریعے جنم لینے والا کوڑا کرکٹ خصوصاً پلاسٹک کی تھیلیاں قدرتی حسن ماند کرنے لگی تھیں۔ لہٰذا شاپروں پر پابندی لگانا ضروری ہوگیا۔وادی ہنزہ کی انتظامیہ نے سیاحوں کو سوت اور کاغذ سے بنے بیگ دینے کا اہتمام کیا ہے۔

یہ ایک اچھا اقدام ہے۔ یہ بیگ انہی کاریگروں سے بنوائے جارہے ہیں جو پہلے پلاسٹک بیگ بناتے تھے۔ اس طرح انتظامیہ نے تدبر و حکمت سے نہ صرف شاپر کی لعنت ختم کر ڈالی بلکہ مقامی کاریگروں کو بھی بیروزگار نہیں ہونے دیا۔وطن عزیز کے شمالی علاقہ جات قدرتی حسن و دلکشی سے مالا مال ہیں۔ مگر جابجا پھیلے پلاسٹک شاپر بیگ ان کا حُسن دھندلا کررہے ہیں۔ لہٰذا ان علاقوں کا فطری دلکش روپ محفوظ رکھنے کی خاطر لازم ہے کہ وہاں شاپر لانے پر پابندی عائد کردی جائے۔ سیاح ایسے تھیلوں میں اشیا لائیں جنہیں دوبارہ استعمال کیا جاسکے۔اس چلن کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ ان خوبصورت علاقوں میں کوڑے کرکٹ کے انبار جنم نہیں لیں گے۔
گنے کا قیمتی پھوک

بنگلہ دیش کی حکومت اپنے شہریوں کو بائیو ڈی گریڈ ایبل شاپنگ بیگ کے یونٹ لگانے کی خاطر مالی امداد دے رہی ہے۔ ان یونٹوں میں گنے کے پھوک، کیساوا (آلو جیسی سبزی) کی جڑوں اور دیگر نامیاتی مواد سے شاپنگ بیگ بنتے ہیں۔ یہ بیگ کئی بار استعمال ہوسکتے ہیں۔ نیز جب ناکارہ ہوکر کوڑے میں پھینکے جائیں تو دو تین ماہ بعد تحلیل ہوجاتے ہیں۔

پاکستان میں گنا اور گندم اہم فصلیں ہیں۔ ان کی تلچھٹ بھی شاپنگ بیگ بنانے میں کام آسکتی ہے۔ یوں شاپنگ بیگ بنانے والوںکو خام مال اپنے ملک ہی سے میسر آئے گا۔ بنگلہ دیشی خام مال بیرون ملک سے منگواتے ہیں۔ اسی لیے بائیوڈ گریڈ ایبل شاپنگ بیگ بنانا انہیں مہنگا پڑتا ہے۔لیکن پاکستانی ہنرمندوں کو خام مال اپنے ملک ہی سے مل جائے گا۔ لہذا پاکستان میں بائیو ڈی گریڈ ایبل شاپنگ بیگ بنانے پر کم لاگت آئے گی اور وہ سستے ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔