کشمیر ثالثی کو یقینی بنانے کی ضرورت

ایڈیٹوریل  اتوار 28 جولائی 2019
پاکستان ٹرمپ عمران ملاقات کے بعد کی پیدا شدہ صورتحال پر مودی کو کسی قسم کی کہہ مکرنی کا موقع نہ ملے۔ فوٹو: فائل

پاکستان ٹرمپ عمران ملاقات کے بعد کی پیدا شدہ صورتحال پر مودی کو کسی قسم کی کہہ مکرنی کا موقع نہ ملے۔ فوٹو: فائل

کشمیر پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی تجویز نے عالمی حلقوں میں بڑی سرسراہٹ پیدا کی ہے، دنیا جو فی الواقع کشمیر میں بھارت جنگجویانہ مظالم اور خطے میں عدم استحکام اور امریکا کے افغان صورتحال کی ہولناکی سے الگ ہونے پر طالبان سے مکالمہ پر سنجیدہ ہو گئی ہے، وزیراعظم عمران خان کی ٹرمپ سے ملاقات کے دوران ثالثی اور مسئلہ کشمیر پر بات کے بعد پوری عالمی برادری متحرک ہو گئی ہے۔

میڈیا کی تازہ اطلاعات کے مطابق چین نے امریکا ثالثی کی پیشکش کا خیرمقدم کرتے ہوئے اس کی حمایت کا اعلان کر دیا ہے جب کہ ادھر ترک صدر رجب طیب اردوان نے وزیراعظم عمران خان سے ٹیلیفونک رابطہ کیا ہے جس میں دونوں رہنماوں نے افغان امن عمل اور مسلئہ کشمیر پر تفصیلی گفتگو کی، طیب اردوان اورملائشین مہاتیر محمد کے درمیان بھی ملاقات ہوئی ہے، جس میں اسلامی ممالک میں اتحاد پیدا کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔

خیال رہے وزیراعظم عمران خان اور ترک صدر رجب طیب اردوان کا ٹیلی فون پر رابطہ ہوا ہے، دونوں رہنماؤں نے باہمی دلچسپی اور خطے کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ جمعہ کو وزیر اعظم ہاؤس کی طرف سے جاری اعلامیے میںکہا گیا ہے کہ ترک صدر نے پاکستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات میں قیمتی جانوں کے نقصان پر اظہار افسوس کیا ہے۔

اعلامیے کے مطابق پاک ترک قیادت نے دو طرفہ برادرانہ تعلقات اور تعاون پر اظہار اطمینان کیا۔ وزیر اعظم عمران خان اور ترک صدر رجب طیب اردوان نے دو طرفہ تعاون کے اہم شعبوں میں پیش رفت کا جائزہ بھی لیا۔ دونوں ملکوں کی قیادت نے اس عزم کا اظہار کیا کہ پاک ترک اعلیٰ سطح سٹرٹیجک کونسل کے پاکستان میں اجلاس سے دو طرفہ تعاون مزید فروغ پائے گا۔

چین، ترکی اور ملائیشیا کے مابین خطے کی بدلتی صورت حال پر تبادلہ خیال ایک اہم پیش رفت ہے، وزیر اعظم عمران خان نے اس موقع پر کہا کہ سٹرٹیجک کونسل کے اجلاس میں شرکت کے لیے پاکستانی عوام ترک صدر کے دورے کے منتظر ہیں۔ اس موقع پر طیب اردوان نے پاکستان میں حالیہ دہشت گردی کے واقعے میں قیمتی جانوں کے نقصان پر اظہار افسوس کیا، گفتگو میں دونوں رہنماؤں نے دو طرفہ برادرانہ تعلقات پر اظہار اطمینان کیا اور وزیر اعظم عمران خان کے دورہ ترکی میں کیے گئے معاہدوں پر پیش رفت کا بھی جائزہ لیا گیا۔

اعلامیہ کے مطابق پاک ترک اسٹریٹجک تعاون پر مبنی کونسل کا اجلاس رواں سال کے آخر میں اسلام آباد میں ہو گا، دونوں ممالک میں مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے پر مزید پیش رفت ہو گی۔ وزیراعظم عمران خان نے ترک صدر کو کونسل اجلاس میں شرکت کے لیے دورہ پاکستان کی دعوت دی جو انھوں نے قبول کر لی۔ گفتگو کے دوران ترک صدر نے افغان امن عمل کے لیے بین الاقوامی کوششوں پر وزیر اعظم کی تعریف کی اور ترکی کی جانب سے افغان امن عمل میں بھرپور حمایت کی یقین دہانی بھی کرائی۔

ادھر دفترخارجہ کے مطابق ترک صدر رجب طیب اردوان نے وزیر اعظم عمران خان کو ٹیلیفون کیا۔ اس دوران دونوں رہنماؤں نے افغان امن عمل اور مسئلہ کشمیر کی صورت حال پر گفتگو کی۔ ترک صدر اور وزیر اعظم کے درمیان دو طرفہ تعلقات اور علاقائی امور پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیر اعظم عمران خان نے ترک صدر کو افغان امن عمل میں پاکستان کے کردار اور مقبوضہ کشمیرکی صورتحال سے بھی آگاہ کیا۔ دونوں رہنماؤں میں پاکستان ترکی، ملائشیا، سہ فریقی عمل پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔ پاک ترک تزویراتی تعاون کونسل کارواں سال اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس پر بھی گفتگو کی گئی۔

ادھر آئی این پی کے مطابق ملائیشیاکے وزیراعظم مہاتیر محمد نے ترک صدر سے ملاقات کی ہے۔ ملائشیا کے وزیراعظم مہاتیر محمد اسلامی ممالک کے دورے کے دوران ترکی پہنچے۔ جہاں انھوں نے ترک صدر رجب طیب اردوان سے ملاقات کی جس میںدو طرفہ تعاون بڑھانے اور اسلامی ممالک میں تعاون اور تجارت بڑھانے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

دریں اثنا گزشتہ روز چینی وزارت خارجہ کی ترجمان ہوا چھن اینگ نے ہفتہ وار بریفنگ کے دوران مسئلہ کشمیر پر امریکی ثالثی کی پیشکش کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاک بھارت تعلقات کی بہتری کے لیے امریکا سمیت تمام عالمی برادری کے کردارکے حامی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ چین پاکستان اور بھارت کا مشترکہ ہمسایہ ملک ہے، دلی خواہش ہے کہ دونوں ملک ہم آہنگی سے رہیں۔

ترجمان چینی وزارت خارجہ نے کہا کہ ان کی خواہش ہے فریقین مسئلہ کشمیر پر امن طریقے سے حل کریں، دونوں ملکوں کو دیگر تنازعات بھی مذاکرات کے ذریعے ختم کرنا ہوں گے، دونوں ملکوںکو خطے میں امن و استحکام کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں۔ امریکا کے بعد چین کی جانب سے ثالثی کا خیر مقدم بھارت کے لیے ایک اور سفارتی دھچکا قرار دیا جا رہا ہے۔

عالمی ذرائع ابلاغ اور سفارتی حلقوں کے مطابق نریندر مودی وقت کے تیور دیکھ رہے ہیں جب کہ ٹرمپ کی ثالثی تجویز در حقیقت ’’ٹرمپ کارڈ‘‘ کے طور پر مقبولیت حاصل کر رہی ہے، عالم اسلام اور خطے میں مزید ہمسایہ ممالک بھی اس مسئلہ کے حل کے لیے رجوع کرنے والے ہیں، مودی کی خاموشی معنی خیز بھی ہو سکتی ہے، مثال کو طور پر گزشتہ دنوں اپنی کتاب کی تقریب رونمائی میں میں سابق بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید نے ثالثی کے حوالے سے خیال آرائی کی کہ ہو سکتا ہے مودی نے ٹرمپ سے مراقبہ meditation کا کہا ہو اور ٹرمپ نے اسے ثالثیmediation  سمجھ لیا ہو۔

سفارتی حلقوں کے مطابق مودی کے لیے ثالثی والا لفظ ڈراؤنا تو ہو سکتا ہے جب کہ مراقبہ ان کا پسندیدہ موضوع ہے اور یوگا کی مشقوں میں شریک ہوتے رہے ہیں۔ ادھر بھارتی میڈیا نے انکشاف کیا ہے کہ عمران خان کی ٹرمپ سے ملاقات بھی رنگ لائی ہے، بھارتی اخبار انڈین ایکسپریس کے مطابق امریکی حکومت نے پاکستان کو اس کے F-16 جیٹ طیاروں کے لیے غیر ملکی ملٹری سیلز کی مد میں 125 ملین ڈالرکی منظوری دی ہے جو ڈیفنس سیکیورٹی کوآپریشن ایجنسی کے توسط سے ملے گی۔

واضح رہے بھارتی وزیر خارجہ جے ایس شنکر نے بھی خطے کی نئی جدلیات اور مضمرات کے سیاق سباق میں بے پر کی اڑائی کہ عالمی انصاف نے کلبھوشن کی سزائے موت پر چونکہ نظر ثانی کے لیے کہا ہے اس لیے کلبھوشن کی فوری رہائی کو یقینی بنایا جائے ۔

اب ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان ٹرمپ عمران ملاقات کے بعد کی پیدا شدہ صورتحال پر مودی کو کسی قسم کی کہہ مکرنی کا موقع نہ ملے۔ بھارت کے لیے اب ثالثی سے بچنا محال نظر آتا ہے، اسی لیے کسی وقت قلابازی کھا سکتا ہے۔ مشتری ہشیار باش۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔