فریٹ اسکینڈل: مرکزی کردار تفتیشی رخ موڑنے میں کامیاب

عادل جواد  منگل 17 ستمبر 2013
افسران پر کرپشن کے الزام کے بجائے کردار کشی، تحقیقات دب جانے کا خدشہ ۔ فوٹو : فائل

افسران پر کرپشن کے الزام کے بجائے کردار کشی، تحقیقات دب جانے کا خدشہ ۔ فوٹو : فائل

کراچی:  فریٹ سبسڈی کی مد میں اربوں روپے کے مالی اسکینڈل کے اصل کردار جھوٹی درخواستوں کے ذریعے تفتیش کا رخ تبدیل کرنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔

اس معاملے میں انھیں ایف آئی اے کے چند اعلیٰ افسران کی پشت پناہی حاصل ہے جو نہ صرف درخواستوں کی نوک پلک درست کرتے ہیں بلکہ انھیں تکنیکی اور قانونی اعتبار سے مضبوط بھی کرتے ہیں، مقدمے کے مفرور ملزمان کی مسلسل درخواستوں پر اعلی افسران کے ردعمل سے تنگ آکر تفتیشی افسران کی تمام تر توجہ اپنے آپ کو بچانے میں مبذول ہوگئی ہے، ملکی تاریخ کا بدترین مالی اسکینڈل فائلوں میں دب جانے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ ایف آئی اے کرائم سرکل کراچی نے گذشتہ دور حکومت میں فریٹ سبسڈی کی مد میں کئی ارب روپے کی بے قاعدگیوں کے الزام میں 3 مقدمات درج کیے تھے۔

تاہم معاملے کی تفتیش کے دوران ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے اعلیٰ افسران کی جانب سے حکومتی سرپرستی میں کیے جانے والے مالی اسکینڈل کے نئے پہلو سامنے آنا شروع ہوئے اور اب تک سامنے آنے والے حقائق کے مطابق گذشتہ چند سال کے دوران فریٹ سبسڈی کی مد میں 5 ارب روپے سے زائد کاغذی ایکسپورٹ کمپنیوں کو جاری کیے گئے اور فراڈ کی رقم ٹڈاپ کے افسران، کاغذی کمپنیوں کے مالکان، اعلیٰ حکومتی شخصیات کے نمائندہ افراد اور مڈل مین کا کردار ادا کرنے والے افراد اور کمپنیوں میں مالی اسکینڈل میں ان کے کردار کے مطابق تقسیم کی گئی۔ ایف آئی اے کرائم کراچی کے سینئر تفتیشی افسران کی نگرانی میں تحقیقات کے دوران سامنے آنے والے حقائق کی روشنی میں چند دن قبل ایک اور مقدمہ سابق وفاقی وزیر تجارت کے ڈائریکٹر فرحان جونیجو کے خلاف درج کیا گیا ہے ۔

جبکہ مزید مقدمات جلد درج کیے جانے کا امکان ہے، اب تک سامنے آنے والے حقائق کے مطابق مالی اسکینڈل کے مرکزی کردار پنجتن ایسوسی ایٹس کے مالکان مہر ہارون رئیسانی اور میاں محمد طارق ہیں جنھوں نے ٹڈاپ کے اعلیٰ افسران اورایکسپورٹ کمپنیوں کے مالکان کے درمیان پل کا کردار ادا کیا اور یہی وہ 2 کردار ہیں جنھوں نے نہ صرف کاغذی ایکسپورٹ کمپنیاں قائم کرکے مالی اسکینڈل کا بنیادی ڈھانچہ تیار کیا بلکہ جعلی کلیمز کی مد میں ملنے والی رقم تمام متعلقہ افراد میں تقسیم کرنے کی ذمے داری بھی نبھائی، تحقیقات میں سامنے آنے والے حقائق کے مطابق پنجتن ایسوسی ایٹس کے مالکان کی جانب سے متعارف کی جانے والی 60 سے زائد جعلی کمپنیوں کو تقریبا سوا 2 ارب روپے کی فریٹ سبسڈی دی گئی اور تقسیم کے فارمولے کے مطابق ایک ارب روپے سے زائد رقم پنجتن ایسوسی ایٹس کے مالکان کے حصے میں آئی۔

ذرائع نے بتایا کہ تحقیقات کے دوران یہ ثابت ہوچکا ہے کہ پنجتن ایسوسی ایٹس کے بینک اکاؤنٹ میں براہ راست 50 کروڑ روپے سے زائد کی رقم جمع کرائی گئی جبکہ باقی رقم کیش کی صورت میں وصول اور دیگر حصے داروں میں تقسیم کی گئی، ذرائع نے بتایا کہ میگا اسکینڈل کے مرکزی کرداروں ہارون رئیسانی اور میاں محمد طارق کے تقریبا 50 کروڑ روپے کے اثاثے بھی منجمد کیے جاچکے ہیں جن میں کراچی ڈیفنس میں واقع 2 بنگلے اور اپارٹمنٹس، صفورا گوٹھ میں واقع گودام،8 ایکڑ اراضی پر قائم فارم ہاؤس اور ملک کے دیگر شہروں میں واقع اثاثے شامل ہیں۔ ملزمان کے بینک اکاؤنٹس بھی سیل کیے گئے ہیں جن میں اس وقت بھی کروڑوں روپے موجود ہیں۔

ذرائع نے بتایا کہ دونوں افراد 2007 تک چند ہزار روپے کے عوض نہایت معمولی نوعیت کی نوکریاں کرتے تھے اور منجمد کیے جانے والے تمام اثاثے 2009 سے 2012 کے درمیان خریدے گئے اور یہی وہ وقت ہے جب ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی ٹڈاپ میں کئی ارب روپے کی کرپشن کی گئی، تفتیشی افسران مالی اسکینڈل کی تحقیقات میں مزید پیش رفت اور گذشتہ دور حکومت کی اعلیٰ شخصیات تک پہنچنے کیلیے مرکزی ملزمان کی گرفتاری کو نہایت اہم قرار دے رہے ہیں جبکہ دوسری جانب صورتحال یہ ہے کہ مالی اسکینڈل کے اہم کردار تفتیشی افسران کی دسترس سے بچنے کیلیے اعلیٰ افسران کو مسلسل تفتیشی افسران کی کردار کشی پر مشتمل درخواستیں ارسال کررہے ہیں۔

ایسی ہی ایک درخواست پر چند ہفتے قبل 3 تفتیشی افسران کو نہ صرف معطل کیا جاچکا ہے تاہم اسکینڈل کے مرکزی کرداروں نے اپنی تازہ درخواستوں میں ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے سے مطالبہ کیاہے کہ مالی اسکینڈل کی تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ کے ساتھ بھی یہی سلوک کیا جائے، اب تک سامنے درخواستوں یہ امر بھی انتہائی واضح ہے کہ مرکزی ملزمان براہ راست یا اپنے وکیل کے ذریعے ایف آئی اے ہیڈکوارٹرز اسلام آباد کے اعلیٰ ترین افسران کے مسلسل رابطے میں ہیں اور یہ افسران ان مفرور ملزمان کی گرفتاری میں مدد کرنے کے بجائے اپنے ہی تفتیشی افسران کو شک وشبہے کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔