پولیس کا بہادر سپوت کچہ کے ڈاکوؤں کی نفرت کا نشانہ بن گیا

نور محمد سومرو  اتوار 28 جولائی 2019
نصف درجن سے زائد حملہ آوروں نے گولیاں برسائیں، ممتاز بلا بیٹے کو بچاتے جام شہادت نوش کر گیا۔ فوٹو: فائل

نصف درجن سے زائد حملہ آوروں نے گولیاں برسائیں، ممتاز بلا بیٹے کو بچاتے جام شہادت نوش کر گیا۔ فوٹو: فائل

رحیم یار خان: پاک فوج ہو یا پولیس قیام امن کے لئے سکیورٹی فورسز کی قربانیاں لازوال ہیں۔

سرحدوں کی حفاظت ہو یا دہشتگردی کی روک تھام، بلوچستان میں امن کی کوششیں ہوں یا فاٹا میں چھپے دہشت گردوں کا خاتمہ مقصود ہو، سٹریٹ کرائم کا سدباب کرنا ہو یا کچے کے ڈاکوؤں کو لگام ڈالنی ہو، غرض ہر جگہ افواج پاکستان ، سندھ ،پنجاب، بلوچستان اور خیبرپختونخوا کی پولیس اور حساس اداروں نے ہمیشہ ملک و قوم کی حفاظت کے لئے نہ صرف اپنا بھرپور اور مؤثر کردار ادا کیا بلکہ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے امن کے مشن کو جاری رکھا ہے، اسی لئے قوم جہاں پرامن فضاء میں سانس لے رہی ہے وہیں سکیورٹی فورسز کی قربانیاں شہداء کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں حال ہی میں ہونے والی دہشت گردی اور جوانوں کی شہادت کا المناک واقعہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

رواں ماہ 14 جولائی کا دن بھی رحیم یار خان پولیس کے لئے انتہائی تکلیف دہ اور کسی بڑے صدمے سے کم نہ تھا، کیوں کہ اس دن رحیم یارخان کچہ کے علاقوں میں بدنام زمانہ اغوا برائے تاوان ، ڈکیتی، راہزنی اور قتل کی سنگین وارداتوں میں ملوث چھوٹو بکھرانی انڈھڑ، سکھانی، لنڈ، پٹ عمرانی اور سلطوشر جیسے خطرناک گینگز کے خلاف ہونے والے پولیس آپریشنز میں اہم کردار ادا کرنے والے سی آئی اے پولیس میں تعینات ہیڈ کانسٹیبل چودھری ممتاز احمد المعروف ممتاز بلا کو برقعہ پوش مسلح ڈاکوؤں نے ساتھی ڈرائیور محمد اکمل سمیت سرعام فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا۔

فائرنگ سے جہاں دو شہادتیں ہوئیں وہیں 2 افراد شدید زخمی بھی ہوئے جبکہ ہیڈ کانسٹیبل کا نوعمر بیٹا معجزانہ طور پر محفوظ رہا۔ شہید ہیڈ کانسٹیبل ممتاز احمد جو ممتاز بلا کے نام سے اس وجہ سے مشہور ہوا کہ ایک تو اس کی آنکھیں بلے کی آنکھوں سے مشابہت رکھتی تھی اور دوسرا وہ محکمہ کی جانب سے ملنے والے ہر مشکل سے مشکل مشن کو پورا کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ کچے میں چھپے ڈاکو ہوں یا بین الصوبائی منشیات فروش، بلوچستان میں روپوش دہشت گرد ہوں یا اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں ملوث ڈاکو، ان کا کھوج لگانا اس کی پسندیدہ ڈیوٹی تھی۔

اس کام کے کے لئے اس نے نہ صرف اپنے مخبروں کا جال بچھا رکھا تھا بلکہ بیشتر اوقات ناممکن کو ممکن بنانے کے لئے وہ خود بھیس بدل کر کئی کئی روز تک ملک و قوم کے دشمنوں کے علاقوں میں گھس جاتا تھا اور اپنے افسران کو مکمل حالات سے آگاہ رکھتا، جس کے باعث پولیس کی کارروائی کامیاب اور مؤثر ہو جاتی تھی۔ اسی طرح بہادر کانسٹیبل کی وجہ سے کئی منشیات فروش، خطرناک اشتہاری اور دیگر جرائم میں ملوث ملزمان گرفتار ہوئے، لیکن ان تمام کامیابیوں کا سو فیصد سہرا شہید کے سر اس لئے نہیں آسکا کہ وہ محض کانسٹیبل تھا اور کریڈٹ ایس ایچ اوز، اے ایس پیز،ڈی ایس پیز حتی کہ ڈی پی اوز کو جاتا رہا، مگر اس کی بہادری اور فرض شناسی کے چرچے آئی جی اور آر پی او آفس تک تھے۔

پانچ سال قبل چھوٹو بکھرانی گینگز کے بعد کچے میں انڈھڑ گینگ کے بڑے چرچے تھے۔ انڈھڑ گینگ کے سرغنہ بھائیوں خانو انڈھڑ، جانو انڈھڑ نے سندھ و پنجاب کی پولیس اور عوام کا جینا دوبھر کر رکھا تھا۔ اغواء برائے تاوان، ڈکیتی راہزنی، سکیورٹی فورسز اور مسافر گاڑیوں پر حملے، سندھ پنجاب بارڈر پر واقع پاکستان کی اہم سیاسی اور حکومتی شخصیات کی شوگر ملوں پر راکٹ لانچرز برسانا اور انہیں ہراساں کرنا ان کا معمول تھا۔ ان مقاصد کے حصول کیلئے ڈاکوؤں نے سندھ پنجاب بارڈر کے علاقہ داعو والا پر انڈھڑ قلعہ کے نام سے محفوظ اور مضبوط پناہ گاہ بھی بنا رکھی تھی، تاہم اس وقت کے ڈی پی اوز سہیل ظفر چٹھہ اور ذیشان اصغر، ڈی ایس پی مہر ناصر ثاقب سیال نے نہ صرف انڈھڑ قلعہ کو مسمار کیا بلکہ کچے میں قیام امن کے لئے بے مثال کام کیا پولیس نے انڈھڑ قلعہ پر قبضہ تو کر لیا مگر خانو اور جانو انڈھڑ کو گرفتار نہ کر سکی اور وہ فرار ہوگئے۔

بعد ازاں ممتاز بلا کی کوششوں اور مخبروں کے درست نیٹ ورک کے باعث دو سال قبل پولیس روپوش انڈھڑ گینگ کی رہائش گاہ پر پہنچ گئی اور رات کے آخری پہر ہونے والے پولیس مقابلے میں انڈھڑ گینگ کے سرغنہ جانو انڈھڑ سمیت ان کے خاندان کے پانچ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اس مقابلہ کے بدلے کی آگ مفرور خانو انڈھڑ اور جمیل انڈھڑ کوجلا کر راکھ کئے ہوئے تھی اور اسی وجہ سے وہ اکثر رحیم یارخان پولیس سے بدلا لینے کی دھمکیاں دیتے تھے۔

14 جولائی کو سندھ پنجاب بارڈر رحیم یار خان کے علاقہ نواز آباد میں پیپلزپارٹی کے ایم پی اے سردار ممتاز خان چانگ کی رہائش گاہ پر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور جنوبی پنجاب کے صدر مخدوم سید احمد محمود کا استقبالیہ جلسہ تھا۔ عین اس وقت جب پولیس بلاول بھٹو کی سکیورٹی پر مامور تھی تو انڈھڑ گینگ کے تین موٹر سائیکل سوار 9 مسلح افراد جن میں موٹر سائیکلیں چلانے کے علاوہ باقی تمام ڈاکو خواتین کے روپ میں برقعہ پوش تھے، کوٹ سبزل اڈہ میں داخل ہوئے جہاں شہید ممتاز بلا اپنے معصوم نوعمر بیٹے اور ساتھی ڈرائیور کے ہمراہ اپنے بھائی کی کھاد کی دکان کے اندر بیٹھا تھا کہ مسلح افراد نے حملہ کر دیا۔

مسلح افراد کو دیکھتے ہی ممتاز بلا نے خطرے کو بھانپ لیا اور میز پر بیٹھے اپنے بیٹے کو جلدی سے اٹھایا اور میز کے نیچے چھپا کر اپنے ساتھ پڑی کلاشنکوف کو اٹھانے کی کوشش کی ہی تھی کہ نصف درجن کے لگ بھگ حملہ آوروں نے سینکڑوں گولیوں کی بوچھاڑ کر دی، جن میں سے درجنوں گولیوں نے پلک جھپکتے ہی ممتاز بلا کو چھلنی کر دیا اور وہ موقع پر ہی جام شہادت نوش کر گیا، حملہ میں اس کا ساتھی ڈرائیور عبدالمالک بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا، دکان میں آئے ہوئے دو گاہک عبدالملوک اور سعید احمد بھی شدید زخمی ہوئے جبکہ شہید ممتاز بلا کا کمسن بیٹا حماد معجزانہ طور پر حملے میں محفوظ رہا۔

عینی شاہدین کے مطابق ممتاز بلا نے اپنے بیٹے کو بچانے کی کوشش میں مارا گیا اگر وہ بیٹے کو اٹھانے کے بجائے اپنے ساتھ پڑی کلاشنکوف اٹھا لیتا تو حملہ آوروں میں سے شائد ایک بھی زندہ بچ کر نہ جاتا۔ وقوعہ کے بعد شہید کی موت کا بدلہ لینے اور فرائض کی ادائیگی کے لئے ڈی پی او عمر سلامت اور ایس پی حفیظ الرحمن بگٹی کی قیادت میں پولیس نفری حملہ آوروں کا تعاقب کرکے نہ صرف دریائے سندھ میں واقع ان کی کمین گاہوں تک پہنچی بلکہ کمین گاہوں کو مسمار کر دیا، لیکن قاتل بھاگ نکلے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پولیس ممتاز بلا شہید کے قاتلوں اور امن کے دشمنوں تک ممتاز بلا کے بغیر کیسے پہنچتی ہے؟

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔