ہم نے بڑی دوستی نبھائی

شبیر احمد ارمان  پير 29 جولائی 2019
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

وزیراعظم پاکستان عمران خان امریکا کا دوروزہ سرکاری دورہ کرکے پاکستان پہنچ چکے ہیں اور اس حوالے سے تمام تر معلومات ملکی اور غیر ملکی میڈیا میں تشہیر ہوچکی ہے۔ اب اس حوالے سے ملک اور بیرون ممالک کے میڈیا میں تبصروں اور تجزیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ حکومت اور حکومتی حلقے اس دورے کوکامیاب قرار دے رہے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان اپنے پیشرو وزرائے اعظم کی طرح امداد لینے نہیں گئے بلکہ امریکا سے برابری کی بنیاد پر بات چیت کرکے لوٹے ہیں جب کہ دوسری طرف ملک کی اپوزیشن پارٹیاں اسے ناکام دورے سے تعبیر کررہی ہیں ان کے بقول عمران خان نے اتحاد کی بات نہ کرکے بڑا اچھا موقع گنوا دیا ہے ۔

بہرحال جتنے منہ اتنی باتیں لیکن مسئلہ کشمیر پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ثالثی کا اعلان پاکستان کی سفارتی فتح اس لیے بھی ہے کہ امریکا ہمیشہ سے یہ کہتا آیا ہے کہ مسئلہ کشمیر پر دونوں فریق یعنی پاکستان اور بھارت باہم ملکر حل کریں اگر فریقین چاہیے تو ثالثی کا کردار ادا کیا جاسکتا ہے لیکن بھارت ہمیشہ سے امریکی ثالث سے انکاری رہا ہے ، مگر وزیر اعظم عمران خان کے اس دورے کے موقع پر خاص طور پر عمران خان سے گفتگو کے دوران امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نے یہ انکشاف کیا کہ حال ہی میں بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے ان سے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ثالثی کی درخواست کی ہے ۔

جس کے بعد بھارت کی اپوزیشن اور میڈیا نے مودی کو آڑے ہاتھوں لیا ہوا ہے اور ان سے کہا جارہا ہے کہ وہ اس ضمن میں اپنی وضاحت پیش کریں لیکن مودی سرکار نے اس حوالے سے چپ سادھ لی ہے جب کہ امریکی صدر کے ایک مشیر کا کہنا ہے کہ امریکی صدر نے جو کہنا تھا کہہ دیا ہے ۔ جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ مودی نے واقعی مسئلہ کشمیر کے حل کے حوالے سے امریکی ثالثی کی درخواست کی ہے جس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ اب بھارت بھی محسوس کررہا ہے کہ کشمیر ایک متنازع مسئلہ ہے جس کو حل کیے بغیر جنوبی ایشیا میں امن کا خواب ادھورا ہے ۔

اسی ملاقات میں امریکی صدر نے وزیراعظم پاکستان سے کہا ہے کہ وہ افغان طالبان کو افغان حکومت سے مذاکرات کرنے پر آمادہ کریں، جس پر وزیر اعظم عمران خان نے امریکی صدرکو یقین دہانی کرائی ہے۔ اس تناظر میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ اب امریکا خطے میں امن کا خواہ ہے جو اچھی پیش رفت ہے۔ دیر آید درست آید کے مصداق دنیا کے پر امن لوگوں نے امریکی صدر کی اس کاوش کو سراہا ہے جن کا شروع سے یہ کہنا تھا کہ افغان مسئلہ کا حل جنگ سے نہیں مذاکرات سے ممکن ہے لیکن امریکا نے کسی کی ایک نہ مانی اور افغانستان پر جنگ مسلط کردی 18سالہ اس جنگ میں لاکھوں افغانی شہری ہلاک ہوگئے ، پانچ ہزار کے قریب امریکی اور اتحادی فوجیں بھی ہلاک ہوگئے جب کہ پاکستان کے 70ہزار نوجوان اور شہری شہید ہوئے اور اربوں روپے کا نقصان بھی ہوا اور دنیا میں ایک خوف کا ماحول مسلط ہوا۔

خود امریکی شہری اپنے ملک میں خوف محسوس کرنے لگے، اسی طر ح دنیا کے دیگر ممالک بھی خود کو غیر محفوظ تصورکرنے لگے تھے اور دنیا جنگ برائے جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتی ، جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔ دنیا میں اب تک جتنی بھی جنگیں لڑی گئی ہیں سب کا خاتمہ مذاکرات برائے امن کی میز پر ہوا ہے ۔ اگر شروع سے مذاکرات کا راستہ اپنایا جاتا توآج دنیا کے بے گناہ انسان یوں ضایع نہ ہوتے اور نہ ہی دنیا خوف میں مبتلا ہوتی۔ بہرحال دیرآید درست آید اب دنیا امن کی راہ پر گامزن ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے جس سے خوشحالی آئے گی اور لوگ بلاخوف و خطر ایک ملک سے دوسرے ملک جاسکیں گے۔ دنیا کا ہر شہری خود کو محفوظ تصورکرنے لگے گا ۔

یادش بخیر ! تاریخی حقیقت یہ ہے کہ امریکا کے کہنے کے مطابق افغانستان سے سوویت یونین کی فوجوں کو نکالنے کے لیے جہاد کا نعرہ بلند کیا گیا تھا اور جب ان فوجیوں کا انخلاہوا اور سوویت یونین کا شیرازہ بکھرگیا تو ہمیں (پاکستان) کو کیا ملا ؟ اوجڑی کیمپ کا دھماکہ جس میں افغان جنگ میں استعمال ہونے والا گولا بارود تھا جس کے نتیجے میں بیک وقت پانچ ہزار سے زائد گھر تباہ ہوگئے اور ہزاروں پاکستانی بے گناہ بے موت مارے گئے،اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان محمد خان جونیجو نے اس واقعے کی سچائی سے قوم کو آگاہ کرنا چاہا تو اس وقت کے صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے ان کی حکومت برطرف کردی ،لیکن خود بھی اپنے رفقاء کار سمیت امریکی مفاد پرستی، خود غرضی سے محفوظ نہ رہ سکے ۔سترہ اگست 1988ء کو C-130جہاز میں حادثے کا شکار ہو گئے۔

قبل ازیں افغان وارکی معرفت ملک میں کلاشنکوف کلچر متعارف ہوچکا تھا۔ ہیر وئن کی تجارت معمول بن چکی تھی۔پبلک مقامات بم دھماکوں کی زد میں آچکے تھے اورامریکا ہمیں بھول چکا تھا۔ نیو یارک 9/11کے بعد امریکی ترجیحات پھر بدل گئی اور ایک مرتبہ پھر ہم (پاکستان) امریکا کے لیے اہم ہوگئے تو یہ کھلا راز بھی دعوت فکر دیتا ہے کہ امریکا پاکستان پراس قدرکیوں مہربان ہوا؟ اس مہربانی کے ایک نہیں کئی پہلو ہیں جنھیں سمجھنے کی ضرورت تھی اور ہے۔ جنھیں دودھ پلا پلا کر پالا پوسا گیا ، انھیں جن بنانے میں امریکی کردار سے انکار ممکن نہیں ہے۔

انھیں بوتل میں بند کرنے کے لیے جو امریکی اسٹیج سجایا گیا اس کی میعاد 18سال تک محیط ہے ، کل تک جن ممالک نے امریکی مفادات پرمبنی جنگ میں اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کیا تھا ان ہی ممالک کے توسط سے بتوں کو شوکیس میں بند کیا جارہا ہے اورکچھ کو توڑا بھی گیا ، اور ساتھ ساتھ ان ممالک کے اندر مختلف النوع قسم کی دہشت گردی بھی عروج پر رہی ہے۔

اگر غورکیا جائے تو دہشت گردی کی کڑیاں ایک جیسی نہیں رہی تھی بلکہ دہشت گردی کے بعض واقعات سے گمان گزرتا تھا کہ انھیں دانستہ طور پر مذہبی انتہا پسندی سے تعبیر کرنے کی ناکام کوشش کی گئی تھی جسے جواز بنا کر اگلا قدم اٹھایا جاسکتا تھا جس سے بچنے کے لیے مسلم ممالک امریکی پالیسیوں کے مضمرات سے واقفیت حاصل کرچکے تھے ۔ماضی قریب میں یہ بات اس وقت کے سعودی ولی عہد نے اپنے ایک انٹرویو میں کہی تھی کہ سعودی عرب میں گزشتہ ماہ دہشت گردوں کے حملے میں دو امریکیوں سمیت متعددمغربی باشندے ہلاک ہوگئے تھے اور ان حملوں کے بعد یہ واضح ہوگیا ہے کہ ان کے پیچھے یہودیوں کا ہاتھ ہے ،یہودیوں اور القاعدہ کے مقاصد ایک ہی ہیں ، سو فیصد یقین سے تو نہیں کہہ سکتا لیکن 96فیصدمجھے یقین ہے کہ دونوں کے مقاصد ایک ہی ہیں اور وہ اپنے مفادات کی خاطر سعودی عرب کو کمزور اور سعودی حکومت کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں ۔ اس وقت کے سعودی وزیر داخلہ شہزادہ نائف بن سلطان نے بھی اس بیان کی تصدیق کی تھی کہ اسرائیل اور یہودی لابی القاعدہ کی پس پردہ حمایت کر رہی ہے۔

اگر9/11کے سانحے کے ہلاک شدگان کی فہرست پر نظر ڈالیں تو آپ کو ان میں ایک بھی یہودی کی لاش نہیں ملے گی جس روز9/11کا واقعہ پیش آتا ہے اس روز ایک یہودی ملازم بھی نوکری پر نہیں آتا۔ 11ستمبر کے حوالے سے امریکی کمیشن کی رپورٹ بھی خاموش ہے کہ ایسا کیوں ہوا ؟ بعد ازاں بہت سے حقائق سامنے آئے لہٰذا صرف اس زاویے پر نظر نہ کریں کہ دہشت گردی کے واقعات، دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کا ردعمل ہے۔

پاکستان 13ستمبر 2001ء کی رات سے عالمی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہے جس دوران ہزاروں پاکستانی شہری شہید ہوئے پھر بھی پاکستان سے شکایتیں کی جاتی رہی ہیں ،اب جب کہ امریکا کو پھر پاکستان کی ضرورت ہے تو وہ پاکستان کی قربانیوں کو تسلیم کر رہا ہے۔ عالمی سطح پر دوستیاں مفادات کے تابع ہواکرتی ہیں ،ہم نے ماضی میں امریکا سے بڑی دوستی نبھائی ہے لیکن بدلے میں مونگ پھلی کا دانا ملا ! اور ایک مرتبہ پھر دوستی نبھانے کی یقین دہانی کرکے آئے ہیں، دیکھتے ہیں اس مرتبہ بدلے میں کیا ملے گا ؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔