خطے میں امن کے حوالے سے پاکستان کی کوششوں کا اعتراف!!

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 29 جولائی 2019
ماہرینِ امور خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہارِ خیال

ماہرینِ امور خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہارِ خیال

وزیراعظم عمران خان امریکا کے تاریخی دورے کے بعد وطن واپس آچکے ہیں۔ اس دورے میں مسئلہ کشمیر، افغان بحران، پاک امریکا تجارت، سٹرٹیجک معاملات و دیگر امور پر بات چیت کی گئی۔ گزشتہ روز امریکا کی جانب سے پاکستان کی فوجی امداد بھی بحال کر دی گئی ہے جسے اس دورے کی اہم کامیابی کہا جاسکتا ہے۔

اس دورے میں جہاں وزیراعظم کو پزیرائی ملی وہیں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا بھی پرجوش استقبال کیا گیا،انہیں گارڈ آف آنر پیش کیا گیا اور 21 توپوں کی سلامی بھی دی گئی جو یقینا بہت بڑی بات ہے۔ ’’وزیر اعظم کا دورئہ امریکا اور خطے پر اس کے اثرات‘‘ کے موضوع پر ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ اور سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

 پروفیسر ڈاکٹر سجاد نصیر
(ماہر امور خارجہ و سیاسی تجزیہ نگار)

وزیراعظم کامیاب دورئہ امریکا کے بعد ملک واپس آچکے ہیں۔ ان کے اس دورے سے دوررست نتائج نکل سکتے ہیں تاہم اب سوال یہ ہے کہ وہ مزید کیا ایکشن لیں گے اور آئندہ بننے والی صورتحال کو کس طرح ہینڈل کریں گے۔میرے نزدیک افغانستان کا مسئلہ حل کرنا آسان نہیں ہے بلکہ یہ انتہائی پیچیدہ مسئلہ ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آج بھی افغانستان کے 60 سے 70 فیصد لوگ طالبان کے ساتھ ہیں جبکہ باقی امریکا اور پاکستان کے ساتھ مل کر اس معاملے کو چلانا چاہتے ہیں۔

اہم سوال یہ ہے کہ پاکستان، افغانستان کی اکثریت سے کیسے ڈیل کرے گا اور ان ناراض لوگوں کو کس طرح منائے گا کہ وہ افغان بحران کو امریکا کے مطابق حل کریں۔ سوچنا تو یہ ہے کہ خدانخواستہ اگر امریکا اور پاکستان مل کر اس مسئلے کو حل نہیں کرپائے تو کیا ہوگا؟ کیا امریکا پھر سے افغانستان میں لڑنے آئے گا؟ اس وقت تو امریکا کی کوشش ہے کہ وہ اپنے لوگ افغانستان سے باحفاظت نکال لے مگر ضروری نہیں کہ آئندہ صورتحال ٹھیک رہے یا وہی ہو جیسا ہم چاہ رہے ہیں۔ اس دورے کے حوالے سے بات کریں تو وزیراعظم نے اس دورے میں بہتر گفتگو کی۔ وہ پر اعتماد نظر آئے اور انہوں نے ہر بات پر ٹرمپ کو موثر جواب دیا۔ اس کے علاوہ USIP و دیگر اداروں سے خطاب یا انٹرویو میںبھی ان کی پرفارمنس اچھی رہی۔ امریکی صدر اس وقت پھنسے ہوئے ہیں۔

وہ آئندہ انتخابات میں افغانستان میں وکٹری کلیم کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہتے ہیں کہ انہوں نے افغانستان سے باحفاظت اپنی فوج نکال لی جو بہت بڑی بات ہوگی۔ صدر ٹرمپ نے فی الحال بھارت کو بھی سائڈ لائن کر دیا ہے اور بھارتی وزیراعظم کی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے ثالثی کی درخواست کو بھی عالمی سطح پر عیاں کر دیا جس سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امریکا ، پاکستان سے بہتر تعلقات کا خواہاں ہے چاہے اس کے پیچھے اس کے اپنے مفادات ہی کیوں نہ ہوں۔ امریکی صدر کے بیان کے بعد بھارت میں کہرام مچ گیا اور اب مودی پر ایک بار پھر مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے بیرونی دباؤ آگیا ہے جو پاکستان کیلئے بہتر ہے۔  خطے کی بات کریں تو یہاں پاکستان کے علاوہ امریکا، چین، ایران، بھارت اور روس بھی بڑے پلیئرز ہیں جن کے اپنے اپنے مفادات ہیں۔

خصوصاََ افغانستان کی بات کریں تو وہاں بھی چین کے مفادات ہیں۔ اس نے افغانستان میںامن کی کوششوں کا آغاز کیا، طالبان سے امن کے قیام کے وعدے بھی کیے۔ اسی طرح ایران بھی افغانستان میں اثر و رسوخ رکھتا ہے اور وہاں ہمیشہ سے ہی اس کا کردار اہم رہا ہے۔ بھارت نے بھی گزشتہ برسوں میں افغانستان میں اپنا اثر و رسوخ بڑھایا ہے، وہاں سے وہ پاکستان کے لیے مسائل بھی پیدا کرتا رہا ہے اور اب بھی کرتا ہے۔ میرے نزدیک افغان بحران کے حل میں ان تمام پلیئرز کی شمولیت کے بغیر افغانستان کا مسئلہ خراب ہوسکتا ہے لہٰذا اہم یہ ہے کہ تمام علاقائی ممالک افغانستان کے مسئلے کے حل میں اپنا مثبت کردار ادا کریں، یہ نہ صرف اس خطے کیلئے بلکہ عالمی امن کیلئے بھی فائدہ مند ہوگا۔ وزیراعظم کو اب افغانستان و خطے کے مسائل کے حل کیلئے جامع منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔

 جنرل (ر) غلام مصطفی
(دفاعی تجزیہ نگار)

وزیراعظم کا دورہ، امریکا کے کہنے پر ہوا اور پاکستان نے اس حوالے سے خود کوئی درخواست نہیں کی۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ریٹائرمنٹ میں چند ماہ باقی ہیں مگر عہدہ سنبھالنے کے بعد  سے وہ امریکا نہیں گئے تھے حالانکہ ماضی میں پاکستان کی سول ملٹری قیادت عہدہ سنبھالتے ہی چین، سعودی عرب ، امریکا جیسے اہم ممالک کے دورے ضرور کرتی تھی۔ اس مرتبہ پاکستان کی تبدیل شدہ پالیسی سے امریکا کو سمجھ آگئی تھی کہ اب پاکستان کو ماضی کی طرح ڈیل نہیں کیا جاسکتا بلکہ اب تعلقات کی نوعیت مختلف ہوگی۔ اس سارے پس منظر میں یہ دورہ ہوا جس میں وزیراعظم پاکستان کے ساتھ ملٹری قیادت بھی امریکا گئی۔ اس دورے کے محرکات میںافغانستان کی صورتحال بھی ہے۔

پاکستان نے اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے طالبان کو امریکا کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بٹھایا جو معمولی بات نہیں۔ اس کے علاوہ افغانستان میں کچھ اور بھی ڈویلپمنٹ ہوئی جسے نظر انداز کیا گیا تاہم میرے نزدیک اسے سمجھنا ضروری ہے۔افغانستان میں چین نے اپنا کردار بڑھایا اور طالبان کے ساتھ امن بات چیت کو آگے بڑھایا جبکہ ایران وہاں ہمیشہ سے ہی اہم پلیئر رہا ہے۔ چند ہفتے قبل پاکستان میں طالبان کے ساتھ مذاکرات ہوئے۔ حکمت یار جو پاکستان کے شدید مخالف ہیں وہ بھی یہاں آئے۔ اس سے قبل دوحہ میں بھی مذاکرات ہوئے لہٰذا آہستہ آہستہ معاملات آگے بڑھ رہے تھےْ

جس کے بعد امریکا کو معلوم ہوا کہ اب بڑے فیصلوں کا وقت آگیا ہے۔ بیجنگ میں بھی افغانستان کے حوالے سے میٹنگ ہوئی جس میں چین، امریکا اورروس شامل تھے، اس میں پاکستان کو دعوت دی گئی جبکہ بھارت کو فریق نہیں بنایا گیا۔ یہ اشارہ تھا کہ اب امریکا پاکستان کے ساتھ بات کرنے کیلئے تیار ہے۔ وزیراعظم عمران خان کا حالیہ دورہ ورکنگ وزٹ تھا مگر ٹرمپ سے ان کی ملاقات میں حالات یکسر تبدیل ہوگئے۔ملاقات سے قبل وزیراعظم کا ’ایرینا ون‘ میں فقید المثال جلسہ بھی اس تبدیلی کی وجہ بنا۔ ’ایرینا ون‘ میں وزیر اعظم نے کہا کہ چین کا سسٹم بہتر ہے اور سی پیک منصوبہ مکمل کریں گے۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ امریکا کے ساتھ برابری کی سطح پر بات چیت کی جائے گی۔ میرے نزدیک وائٹ ہاؤس سے تھوڑا دور کھڑے ہوکر یہ باتیں کرنا معمولی نہیں ہے۔

اس دورے کی کامیابی یہ ہے کہ امریکا نے پاکستان کو اس خطے کا اہم ترین پلیئر مان لیا ہے۔ اسے معلوم ہوگیا ہے کہ افغانستان میں رہنے یا نکلنے کیلئے پاکستان کا ساتھ انتہائی اہم ہے۔ امریکا کو احساس ہے کہ اگر پاکستان ہاتھ سے نکل گیا تو اس کے لیے صورتحال مشکل ہوجائے گی کیونکہ اگر پاکستان ، روس، چین و دیگر طاقتوں نے مل کر اسے افغانستان سے نکلنے پر مجبور کیا تو اس کے لیے یہاں کا رستہ ہمیشہ کیلئے بند ہوجائے گا اور اس کی بطور عالمی طاقت ساکھ بھی متاثر ہوگی۔آرمی چیف کا پینٹاگون میں فقید المثال استقبال کیا گیا۔ انہیں گارڈ آف آنر اور 21 توپوں کی سلامی دی گئی جو سربراہ مملکت کو دی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا نے پاک فوج کو دہشت گردی کے خلاف کامیاب جنگ لڑنے پر خراج تحسین پیش کیا گیا۔ اس دورے کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا جارہا تھا۔

USIP میں خطاب سے وزیراعظم نے ان خدشات کو دور کیا اور واضح کردیا کہ افغانستان میں امن صرف ہماری ذمہ داری نہیں ہے۔ ہم افغان بحران کے حل کیلئے مثبت کوشش کر رہے ہیں لہٰذا دیگر طاقتوں کو بھی اس میں اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایران کے بغیر امن قائم نہیں ہوسکتا، اگر وہاں کوئی خرابی ہوئی اس کا نقصان طالبان سے بھی زیادہ ہوگا اور سب اس کی لپیٹ میں آئیں گے۔ میرے نزدیک وزیراعظم نے جس انداز میں ایران کا مقدمہ لڑا کوئی دوسرا نہیں لڑ سکتا۔

صدر ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر کے حوالے سے مودی کی ثالثی کی درخواست کو عالمی سطح پر بیان کر دیا جس سے بھارت میں صف ماتم بچھ گئی۔ ایسا نظر آرہا ہے کہ اگر پاکستان یہ دباؤ ڈالے کہ ہم افغانستان کا مسئلہ حل کریں گے، امریکا مسئلہ کشمیر کو حل کرے تو یہ بیلنسنگ ایکٹ ہوگا اور اس سے بہتری آسکتی ہے۔ اس دورے کا ایک اور پہلو یہ ہے کہ امریکی ہارڈویئر پر بات ہوسکتی ہے کہ وہ افغانستان سے نکلتے وقت پاکستان کو ملے۔ اس کے علاوہ ہمارا کولیشن سپورٹ فنڈ و دیگر امداد بھی بحال ہوجائے گی۔ اس دورہ میںپاک امریکا تجارت پر بھی بات ہوئی۔ اگر تجارتی حجم ٹرمپ کے کہنے کے مطابق 10 سے 20 گنا بڑھ گیا تو پاکستان کو فائدہ ہوگا۔

ڈاکٹر ارم خالد
(سیاسی تجزیہ نگار )

 وزیراعظم عمران خان کے دورئہ امریکا میں عوامی سفارتکاری کے نئے ٹرینڈز متعارف ہوئے۔ پہلی مرتبہ امریکا نے دیکھا کہ کسی غیر ملکی شخصیت نے اس کی ریاست میں اتنا بڑا عوامی جلسہ کیا ہو۔ میرے نزدیک وزیراعظم کی آمد پر لوگوں کا والہانہ آنا غیر معمولی بات ہے۔ وزیراعظم کا یہ دورہ بہت بڑی ڈویلپمنٹ ہے جس سے پاکستان کا سافٹ امیج قائم ہوا۔ 9/11 کے بعد سے پاکستان کو دہشت گردی کے تناظر میں دیکھا جاتا تھا مگر اس مرتبہ صورتحال مختلف ہے۔ امریکی صدر نے وزیراعظم پاکستان سے ملاقات میں پاکستان کے مثبت کردار اور دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے کوششوں کو سراہا۔ افغانستان میں امن مذاکرات کے حوالے سے بھی ہمارے کردار کی تعریف کی۔ وزیراعظم عمران خان ٹرمپ کے سامنے پراعتماد تھے۔

پاک امریکا تعلقات کی تاریخ میں پہلی مرتبہ دیکھنے میں آیا کہ کسی پاکستانی سربراہ نے برابری کی سطح پر بات کی ۔امریکی سینیٹرز کے ساتھ ملاقات ہو، ’USIP‘ میں خطاب ہو یا میڈیا انٹرویو، ان سے بہت سارے اندرونی و بیرونی معاملات پر سوالات ہوئے جن کا انہوں نے با آسانی اسی انداز میں جواب دیا جس طرح وہ پاکستان میں بولتے ہیں۔

اس سے ایک بات تو بالکل واضح ہے کہ اب اندرونی و بیرونی سطح پر ایک ہی بات ہوگی ۔ وزیراعظم نے افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے ممکنہ کردار پر بات کی اور امریکا کوبتایا کہ جنگ مسئلے کا حل نہیں۔ جب ان سے ایران کے بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں ایران کے حوالے سے ممکنہ خطرات کی بات کی کہ اگر امریکا ایران کے لیے کوئی پالیسی بناتا ہے تو اس کے اثرات پاکستان پر بھی پڑیں گے لہٰذا اس وقت پاکستان سیاسی و سماجی سطح پر کوئی نیا بحران برداشت نہیں کر سکتا۔ وزیراعظم کے ساتھ آرمی چیف پہلی مرتبہ نہیں گئے، ماضی کی حکومتوں میں بھی سول ملٹری قیادت اکٹھے جاتی رہی ہے۔ ساتھ جانے کا مقصد یہ تھا کہ امریکا کو پیغام دیا جائے کہ ہم اکٹھے ہیں، ہماری طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں ہے لہٰذا اگر آپ دہشت گردی اور افغان بحران کا ٹھوس حل چاہتے ہیں اورسنجیدہ ہیں تو ہم تعاون کرنے کے لیے تیار ہیں۔ میرے نزدیک اکٹھے جاکر عالمی پراپیگنڈہ کو کاؤنٹر کیا گیا جو بہت اچھا قدم ہے ۔

سلمان عابد
(سیاسی تجزیہ نگار )

وزیراعظم پاکستان کا دورئہ امریکا کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ دورہ اس لیے بھی اہم ہے کہ گزشتہ چند ماہ میں پاکستان نے افغان بحران کے حل میں جو کردار ادا کیا اسے امریکا میں تسلیم کیا گیا اور کہا گیا کہ پاکستان نے پہلی مرتبہ ہمیں اس سارے معاملے میں بہتر طریقے سے سہولت فراہم کی ہے۔  یہ واضح ہونا چاہیے کہ افغانستان کا مسئلہ صرف امریکا کا نہیں بلکہ یہ ہمارے لیے بھی بڑا مسئلہ ہے اور اس کا تعلق اس خطے کے امن و استحکام سے ہے۔ پاکستان نے مری مذاکرات کی میز سجائی تھی جسے بھارت نے سبوتاژ کیا۔

افغانستان کے تناظر میں امریکا کو تین بڑے مسائل درپیش ہیں۔ پہلا طالبان اور افغان حکومت کو آپس میں بات چیت پر راضی کرنا، دوسرا فوجی انخلاء اور تیسرا افغانستان کے آئندہ انتخابات کے بعد وہاںحکومت بنانے کا ہے۔ اس دورے میںٹرمپ نے افغانستان کے مسئلے میں پاکستان کے مثبت کردار کو تسلیم کیا اور کہا کہ افغان بحران کے حل کی کنجی پاکستان کے پاس ہے۔انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ طاقت مسائل کا حل نہیں حالانکہ جب عمران خان یہ کہتے تھے تو لوگ ان کا مذاق اڑاتے تھے۔یہ بات انہوں نے ٹرمپ کے سامنے بھی کہی۔ اس دورے کے حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کو افغان بحران حل کرنے کا کردار ملاہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان ، طالبان اور افغان حکومت کو آپس میں مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے اپنے کارڈ کیسے کھیلتا ہے۔

مسئلہ کشمیر پر بات کرکے ٹرمپ نے پاکستان کے حق میں بہتر کیا۔ ٹرمپ کی جانب سے ثالثی کردار ادا کرنے کا کہنا بہت بڑی بات ہے۔ یہ ہم سب جانتے ہیں کہ جب تک بڑی طاقتیں اپنا کردار ادا نہیں کریں گی، مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوگا۔ میرے نزدیک نریندر مودی نے کسی نہ کسی انداز میں ڈونلڈ ٹرمپ کو ضرور کہا ہوگا کہ وہ مسئلہ کشمیر کے حل میں کردار ادا کریں۔ میرے نزدیک ٹرمپ کے اس بیان کے بعد پاکستان کو سفارتی محاذ پر کھیلنے کا اچھا موقع ملا ہے۔ وزیراعظم نے یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس میں کہا کہ یہ اہم نہیں کہ پاکستان کیا چاہتا ہے، اہم یہ ہے کہ کشمیری کیا چاہتے ہیں جو انتہائی اہم اور مثبت بات ہے۔ ٹرمپ نے صرف کشمیر ہی نہیں یہ بھی کہا کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان پل کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں۔ بیک ڈور ڈپلومیسی میں چین، روس اور مشرق وسطیٰ بھی کردار ادا کر رہے ہیں۔

نریندر مودی نے ابھی تک ٹرمپ کے بیان کی تردید نہیں کی۔اب گیند بھارت کی کورٹ میں ہے۔ سی پیک ہو، کشمیر ہو یا افغانستان کا مسئلہ، ان سب کے تناظر میں اس خطے میں اب بھارت پر زیادہ بوجھ پڑ گیا ہے کہ وہ مثبت کردار ادا کرے۔ کرتارپور راہداری بہترین قدم ہے۔ اگر نریندر مودی پاکستان آتے ہیں تو علاقائی سیاست کے لیے یہ بہت بڑا بریک تھرو ہوگا جس کا فائدہ دونوں ممالک کو ہوگا۔ٹرمپ نے یہ تسلیم کیا ہے کہ دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کا کردار انتہائی اہم ہے۔عمران خان نے جس انداز سے پاکستان کا مقدمہ لڑا وہ انتہائی اہم ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اس دورے کے حوالے سے بہترین ہوم ورک کیا جس کے اچھے نتائج سامنے آئے ہیں۔ اس میں سول ملٹری قیادت ایک پیج پر نظر آئی جو انتہائی مثبت ہے۔

آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کی موجودگی کے باجود فرنٹ پر وزیر اعظم ہی نظر آئے جو بہترین سٹرٹیجک عمل تھا تاکہ منفی پراپیگنڈہ کو ختم کیا جاسکے۔ امریکا میں دہشت گردی کے ساتھ ساتھ تجارت اور امداد کی بحالی کی جو باتیں ہوئی ہیں وہ بھی انتہائی اہم ہیں۔ افغان بحران کا حل آسان نہیں ہے۔ طالبان اور افغان حکومت کو مذاکرات کی میز پر بٹھانا بہت مشکل ہے جس کے لیے پاک فوج کو بہت زیادہ محنت کرنی پڑے گی۔ میرے نزدیک اس معاملے میں امریکا، افغان حکومت ، بھارت سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔اس سارے عمل میں یہ تاثر ابھرنا کہ بھارت تنہا ہورہا ہے، خطے کے فائدے میں نہیں،اس سے نقصان ہوسکتا ہے لہٰذا افغانستان کے تناظر میں بھارت کے مفادات کو بھی دیکھنا ہوگا۔

پاکستان کا ایک بڑا چیلنج اندرونی سیاست ہے۔ خارجہ محاذ پرجتنا بھی اچھا کھیل لیں، اگر اندورنی انتشار بڑھتا جائے گا تو نقصان ہوگا۔ اس وقت معاشی بحران میں بھی اضافہ ہو رہا ہے لہٰذا عمران خان اگر وہی انداز اپنائے رکھیں گے جو انہوں نے ’ایرینا ون‘ کے جلسے میں اپنایا تو اس سے تفریق بڑھے گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ نئے بنتے ہوئے الائنس، سی پیک منصوبہ، چین، روس، سعودی عرب جیسی بڑی طاقتوں کے ساتھ پاکستان کیسے ڈیل کرتا ہے۔مجھے امید ہے کہ حالات بہتر ہوں گے کیونکہ پاکستان اپنے کارڈز اچھے طریقے سے کھیل رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔