پولیس، کرپشن اور ہمارا معاشرہ

محمد ساجدالرحمٰن  منگل 30 جولائی 2019
روزانہ چائے پانی کے نام پر عوام سے موٹی رقم بٹوری جاتی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

روزانہ چائے پانی کے نام پر عوام سے موٹی رقم بٹوری جاتی ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ہمارے ملک کی پولیس کا پوری دنیا میں کوئی ثانی نہیں۔ پولیس، تھانہ اور کچہری میں شریف لوگ نہ صرف جانے سے گھبراتے ہیں بلکہ کسی چوراہے پر بھی کوئی کانسٹیبل نظر آجائے تو عوام مجبوراً اپنا راستہ بدل لیتے ہیں۔ ایک بار مجھے مجبوراً پولیس اسٹیشن درخواست دینے کا اتفاق ہوا، لیکن اپنی اس غلطی کا اتنا پچھتاوا ہوا جو شاید زندگی میں پھر کبھی نہ ہو۔ آنکھوں دیکھے رشوت دی اور لی جارہی تھی۔ غلطی سے شکایت تو رجسٹر کروا دی لیکن ان کے رویے اور تفتیش کے انداز کے باعث مسئلہ سلجھنے کے بجائے مزید الجھ گیا۔

پولیس کے نظام میں سیاسی مداخلت سرائیت کرچکی ہے۔ ممبران اسمبلی کا کیسز پر اثر انداز ہونا پولیس اپنے لیے فخر کا باعث سمجھتی ہے۔ ہمارے ملک کی اشرافیہ اپنا ہر جائز و ناجائز کام کروانے کےلیے پولیس کو استعمال کرتی ہے۔ کراچی جیسے شہر میں سیاسی یا غیر سیاسی بنیادوں پر بے گناہ شہریوں کو ہراساں اور قتل کرنا تو پولیس کےلیے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ پولیس کی جانب سے بھتہ نہ ملنے پر بے گناہ شہریوں کے قتل کی بیسیوں مثالیں موجود ہیں۔ چوروں اور لٹیروں کو ان کی پشت پناہی حاصل ہے۔ رشوت کی تو بات ہی مت کیجیے، چائے پانی کے نام پر عوام سے موٹی رقم بٹوری جاتی ہے۔

ایک مرتبہ عید کے موقع پر والد صاحب کے ساتھ بائیک پر گھر جارہا تھا۔ ایک چوراہے پر چند پولیس اہلکار ہر آنے والی گاڑی کو روکتے، ضروری کاغذات طلب کرتے اور عیدی کی فرمائش کرتے۔ چند سمجھدار تو سو پچاس دینے میں ہی عافیت سمجھتے، جبکہ انکار کرنے والوں کی گاڑیوں اور موٹر سائیکلو ں کو بند کیا جارہا تھا۔ عید کے موقع پر ذلالت سے بچنے کےلیے ہم نے بھی دھرتی ماں کے ان کڑیل سپوتوں کو حسب استطاعت رقم بطور فطرانہ ادا کیا اور گھر کی راہ لی۔

پولیس کو بنانے کا مقصد ایسی ٹیم کا قیام تھا جو نہ صرف قوانین پر عمل درآمد کرواسکے بلکہ شہریوں کے جان ومال کی حفاظت کو بھی یقینی بنائے، مگر ہمارے معاشرے میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ عوام اپنے حقوق لینے سے بھی گھبراتے ہیں، کیونکہ انہیں چور، ڈاکوؤں اور مافیا سے زیادہ پولیس اہلکاروں سے خوف آتا ہے۔ پولیس کے نظام میں کافی اصلاحات ہونا باقی ہیں، لیکن اداروں پر بلاجواز تنقید کرنے سے مسائل حل نہیں ہوتے، بلکہ مسائل کے پیچھے چھپی اصل وجوہات کو جاننا نہایت ضروری ہے۔

ہمارے معاشرے میں بچوں کی تعلیم وتربیت کےلیے نرم اور شائستہ رویے سے کام لیا جاتا ہے، کیونکہ سختی سے بچے ضدی اور چڑچڑے ہوجاتے ہیں۔ یہی مثال پولیس کی ہے کہ ہمارے معاشرے میں ہر طرف سے کرپٹ، بے ایمان اور رشوت خور کی صدائیں بلند ہورہی ہیں۔ جس سے پولیس اہلکاروں کے رویے میں سختی اور چڑچڑا پن عام فہم بات ہے۔ پولیس اہلکاروں کے رویوں میں کڑواہٹ کی اصل وجہ معاشرے میں ہر طرف سے ملنے والی نفرت ہے۔ دونوں جانب سے بڑھتی ہوئی نفرت معاملات کو سلجھانے کے بجائے حالات کو مزید سنگین بنانے کا باعث بن رہی ہے۔

عظیم چینی مفکر کنفیوشس نے کہا ہے کہ آنکھ والا وہ ہے جو اپنے آپ کو دیکھے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں تقریباً ہر شخص اندھا ہے۔ ہم لوگ صرف دوسروں کو ہی برا بھلا کہنا جانتے ہیں، کبھی اپنے گریبان میں جھانکنے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔ غیر قانونی کام میں رشوت لینا اور دینا تو بعد کی بات ہے، ہر روز ہزاروں افراد اپنے قانونی کام کروانے کےلیے بھی پیسوں کی پیشکش کرتے ہیں۔ ہر شخص نجانے کس جلدی میں ہے۔ پورا معاشرہ دوڑ میں ہے کہ جلد سے جلد ان کا کام ہوجائے۔ اس قوم میں انتظار کرنے کی عادت بالکل ختم ہوچکی ہے۔ پولیس کو رشوت کی لت لگانے میں معاشرے کے شرفا کا اہم کردار رہا ہے۔ پولیس کرپٹ نہیں، دراصل پورا معاشرہ کرپٹ ہے، جو اپنے کام نکلوانے کےلیے ہر جائز اور ناجائز راستہ اپناتا ہے۔ پولیس کے کرپٹ کردار کے اصل ذمے دار ہم خود ہیں۔

چلملاتی دھوپ میں چوراہے پر کھڑا وارڈن جب کسی شہری کو روک کر لائسنس یا ضروری کاغذات طلب کرتا ہے تو حیلے بہانوں سے کام لیا جاتا ہے۔ اکثریت کی کوشش ہوتی ہے کہ منت سماجت سے ہی کام بن جائے، لیکن اگر پھر بھی بات بنتی مشکل دکھائی دے تو بند مٹھی کے سلام کا آخری حربہ اپنایا جاتا ہے۔ کرپشن اور بے ایمانی کا راگ الاپنے والی قوم کی اس حالت پر صرف ترس ہی کیا جاسکتا ہے۔

اس ملک میں پولیس کی نوکری سب سے زیادہ تکلیف دہ ہے۔ میرے کئی احباب اس شعبہ میں ملازمت کررہے ہیں۔ جب کبھی بھی ان سے ملاقات ہوئی، شدید پریشانی اور اضطراب میں مبتلا نظر آئے۔ ایک کانسٹیبل کو ہر روز 12 سے 16 گھٹنے ڈیوٹی کرنا ہوتی ہے۔ اب انسانی فطرت ہے کہ جب انسان کو ذہنی سکون میسر نہ ہو تو وہ بے چینی میں مبتلا ہوجاتا ہے اور سکون کی عدم دستیابی معمول بن جائے تو اس کا نفسیاتی مریض بننا یقینی ہے۔

بے روزگاری اور روزمرہ اشیائے خورونوش کی دسترس عوام کی پہنچ سے باہر ہونے کے باعث جرائم کی شرح میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ پولیس کا فرض ہے کہ جرائم کو کنٹرول کرے اور پولیس اہلکار شب و روز اس مقصد کو پورا کرنے کےلیے کوشاں بھی ہیں۔ میرا آبائی گاؤں سرگودھا اور جھنگ کی باؤنڈری لائن پر واقع ہے۔ تھانہ کی حدود میں مزید 25 گاؤں بھی ہیں، جبکہ اس پورے علاقے میں جرائم کی شرح کو کنٹرول کرنے کےلیے صرف 12 اہلکار تعینات ہیں۔ یہی صورتحال پنجاب سمیت دیگر صوبوں میں بھی ہے۔ تنقیدی نقطہ نظر رکھنے والے احباب سے میرا سوال ہے کہ کیا اتنے بڑے علاقے میں امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کےلیے اتنی نفری کافی ہے؟

چند تھنک ٹینک جرائم پر قابو پانے کےلیے مغربی ممالک کا حوالہ دیتے ہوئے کمیونٹی پولیس ماڈل کو لاگو کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ کیونکہ مقامی آبادی سے تعلق رکھنے والا اہلکار جرائم پیشہ افراد اور عوام کی نفسیات کو بہتر طریقے سے سمجھ سکتا ہے۔ شاید انہیں خبر نہیں کہ وہاں پولیس کی ملی بھگت سے منشیات اور اسمگلنگ کے غیر قانونی کام کروائے جاتے ہیں اور کیونکہ ایک پولیس اہلکار کی حدود کا تعین پہلے ہی کردیا جاتا ہے، اس لیے ڈنکے کی چوٹ پر جرائم پیشہ افراد کی سرپرستی کی جاتی ہے۔ جبکہ ہمارے ہاں چند ماہ بعد افسران اور اہلکاروں کے تبادلے کیے جاتے ہیں۔ یہ طریقہ کار نہ صرف کیسز میں سیاسی اثرو رسوخ کو کم کرنے میں مدد دیتا ہے، بلکہ جرائم پیشہ افراد کے ساتھ پولیس کی وابستگی کو بھی کم کرتا ہے۔

پولیس اہلکاروں کی تنخواہیں انتہائی کم ہیں، جبکہ اخراجات کافی زیادہ ہیں۔ آدھی تنخواہ تو وردی کی دھلائی اور استری کروانے میں صرف ہوجاتی ہے۔ کسی بھی مجرم کو جیل لانے، لے جانے اور کھانے پینے کے اخراجات تفتیشی ٹیم کے ذمے ہوتے ہیں۔ 30 سے 40 ہزار تنخواہ وصول کرنے والے اہلکار کو ایک ماہ میں کئی بار شہر کا چکر لگانا پڑتا ہے، جبکہ ادارے کی جانب سے ان اخراجات کو پورا کرنے کےلیے کوئی بل بھی نہیں دیا جاتا۔ جس کا مطلب ہے کہ ادارہ خود ہی پولیس اہلکاروں کو رشوت لینے پر مجبور کرتا ہے۔ کرپشن پر قابو پانے کےلیے حکمران طبقے اور انتظامیہ کےلیے یہ معاملہ انتہائی غور طلب ہے۔

عزت کسی بھی شخص کا سب سے بڑا سرمایہ ہوتی ہے اور اس پر سمجھوتہ کرنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے، لیکن پولیس اہلکاروں کو دیکھتے ہی ’چِھلڑ‘ جیسے الفاظ کہنا نوجوان نسل کا وطیرہ بن چکا ہے۔ معاشرے میں خوف قائم کرنے میں والدین بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ بچپن سے ہی پولیس کا لفظ بچوں کو ڈرانے کےلیے استعمال کیا جاتا ہے، اور وہی ڈر ہمارے دلوں میں سرائیت کرچکا ہے۔

خود احتسابی ایک مثبت عمل ہے۔ کرپشن پر قابو پانے کےلیے پولیس حکام نے اپنے اہلکاروں کے احتساب کا فیصلہ کیا۔ دور حاضر میں کوئی بھی شہری کسی اہلکار کے خلاف شکایت درج کروا سکتا ہے۔ شکایت درج ہونے کے بعد متعلقہ اہلکار کو لائن حاضر کردیا جاتا ہے اور انکوائری میں بے گناہ ثابت ہونے پر ہی نوکری پر دوبارہ بحال کیا جاتا ہے۔ شہریوں کو چاہیے کہ انتقامی کارروائیوں کے بجائے صرف کرپٹ مافیا کی نشاندہی کریں تاکہ معاشرہ ان کالی بھیڑوں سے پاک ہو سکے۔

نظام پولیس میں بھی چند اہم اصلاحات کا نفاذ بہت ضروری ہے۔ ہمارے ملک میں کئی اہم امور میں اصلاحات محض اس لیے نہیں کی جارہیں کیونکہ اس سے اشرافیہ اور ان کے حواری دن دگنی رات چوگنی ترقی کررہے ہیں۔ پولیس اہلکاروں کے کام کے اوقات کو 16 گھنٹوں سے کم کیا جانا چاہیے۔ 8 گھٹنے کی شفٹ اگر ممکن نہ ہو تو اوور ٹائم سے ملنے والی رقم تمام دکھوں اور تکلیفوں کا مداوا کرسکتی ہے۔ لیکن ہمارے ان سپوتوں سے ڈبل شفٹ کروانے کےلیے انتظامیہ کو صرف ملازمت سے نکالے جانے یا انکوائری کی دھمکی ہی کافی ہوتی ہے۔ نظام پولیس میں اصلاحات کے ساتھ ساتھ نئی بھرتیوں کا قیام بھی انتہائی اہم ہے۔ اس سے کام کا بوجھ نہ صرف کم ہوگا بلکہ جرائم کی بڑھتی شرح پر قابو پانا بھی مزید آسان ہوجائے گا۔

پولیس اور عوام میں دوریوں کو کم کرنا انتہائی ضروری ہے۔ معاشرے میں جاری پولیس کی تذلیل کو بند کیا جانا چاہیے۔ والدین اپنے بچوں میں پولیس کے بارے میں منفی تاثر ختم کرنے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں، کیونکہ پولیس اہلکار بھی اتنے ہی احترام کے مستحق ہیں جتنا کہ معاشرے کا کوئی اور فرد۔ حکام کی جانب سے عوام دوست میٹنگز کا انعقاد کیا جائے، جس سے نہ صرف پولیس اور عوام کے درمیا ن خلا کو پر کرنے میں مدد مل سکے بلکہ پولیس اہلکاروں کی حوصلہ افزائی بھی ہو۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔