ٹیکس؟ کیوں؟ کس لیے؟ کب سے

سعد اللہ جان برق  منگل 30 جولائی 2019
barq@email.com

[email protected]

ٹیکس آج کا سب سے زیادہ جانا پہچانا اور کثیرالاستعمال لفظ ہے اور اکثر لفظوں کے ساتھ یہ ہوتا ہے کہ جب وہ بہت زیادہ کثیرالاستعمال ہوجاتے ہیں تو اپنے معنی کھودیتے ہیں اور جب معانی کھودیتے ہیں تو پھر ان کا غلط اور بے جا استعمال بھی شروع ہوجاتاہے۔ٹیکس کو اگر کہیے تو یہ ایک قسم کا معاہدہ اور سمجھوتہ ہوتاہے، اگر کہیے تو’’لوٹ مار‘‘ہے اور اگر کہیے تو’’خیرکثیر‘‘اور معاشرتی نعمت عظمیٰ بھی ہے اور اس کا معاملہ بھی دوسری تمام چیزوں کی طرح یہ ہے کہ’’بنی‘‘تو بھلائی کے لیے ہوتی ہیں لیکن غلط استعمال سے’’برائی‘‘بن جاتی ہیں بلکہ بنا دی جاتی ہیں۔

اس کی ابتدا ویسے تو اس وقت سے ہوتی ہے جب’’لٹیرے‘‘نے’’لوٹ کر واپس جانے‘‘کے بجائے مستقل طور پر عوام کی گردن پربیٹھ جانے کا فیصلہ کیا یا دوسرے معنی میں’’گائے‘‘کو ایک بار کاٹ کرکھانے کے  بجائے ’’دوہ دوہ کر‘‘کھانے کے لیے ڈاکو سے’’محافظ‘‘کانام اختیارکرلیا۔لٹنے والوں نے بھی خوشی خوشی قبول کیا کہ روز روز نئے نئے ڈاکوؤں سے لٹنے کے بجائے ایک ہی ڈاکو کو رکھ لیاجائے تو بہترہے۔

پھر دونوں میں ایک معاہدہ ہوا کہ رعایا دودھ دے گی اور محافظ اسے پالے گا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس معاہدے میں بگاڑ پیدا ہونے لگا کیونکہ ’’محافظ‘‘کے پاس’’ہتھیار‘‘تھا اور رعایا گائے یا غیر مسلح ہوتی چلی گئی یا دوسرے الفاظ میں گائے کا دودھ تو دوہا جاتا تھا لیکن اسے’’رسی‘‘اورڈنڈے سے اتنا قابو کیاگیا کہ گوالا اپنے حق سے زیادہ دودھ لینے لگا یہاں تک کہ گائے کے اپنے بچھڑے کا حصہ بھی اس سے دوہنے لگا اور یہ معاہدے کا بگاڑمختلف مراحل سے گزرتے ہوئے اس درجے پرپہنچا ہواہے کہ گائے مکمل طور پر گوالے کے ظلم کا شکار ہے۔

وہ اپنی مرضی سے اس کا سارا دودھ دوہ لیتاہے، چاہے تو اس کا بچھڑا زندہ رکھے یا ماردے کیونکہ اس کے پاس بہت سارے’’انجکشن‘‘ایسے  ہیں جو گائے کی ایڑیوں کا دودھ بھی کھینچ کر لیتے ہیںاور اس کا بچھڑا خالی تھنوں پرمنہ مارتے مارتے اور یہاں وہاں چرتے ہوئے جب جوان ہوجاتاہے تو اس کی گردن پربھی ’’جوا‘‘رکھ کر اسے کام پرلگادیتاہے اور اسے طرح طرح کی آوازیں دے کرکام لیتاہے۔شاباش میرے شیر، شاباش میرے بیٹے،شاباش اور کھینچ اور کھینچ میرا بیل سب سے نرالا ، سب سے بہادر، سب سے طاقتور ،سب سے اچھا، یہ تو میرا بہادر بیٹاہے۔

زمانے گزرنے کے ساتھ گائے اور بیل کی ’’سمجھ‘‘ اتنی رہ گئی ہے جتنی رسی اور جوئے میں ہوسکتی ہے لیکن گوالے نے بہت کچھ سیکھ لیاہے ، خوب پرکشش’’نام‘‘جو یہ گائے اور بیل کو دیتاہے۔ کچھ تمغے جرس اور گھنگرو جو  ان کے گلے میں ڈال کر مست کرتے ہیں اور بلا چوں چرا کے گوالے کو پالتے رہیں یہاں وہاں چر کر سوکھی گھاس کھاکر رسی اور کیلے سے بندھ کر گائے اور بیل تو ایمانداری سے اپنے معاہدے پر عمل پیرا ہیں لیکن محافظ اپنے معاہدے سے پھرا ہواہے۔ اب استعارات سے بات نکال کر سیدھے سادے طریقے پر بیان کرتے ہیں۔حکومت اور عوام کے درمیان معاہدے کی اصل کاپی میں ان’’حقوق وفرائض‘‘کوشامل کیاگیاہے جودونوں فریقوں کے ہوتے ہیں۔

عوام کے فرائض میں داخل ہے کہ وہ اپنی کمائی میں سے کچھ حکومت کو ادا کریں گے جس کے بدلے حکومت اپنا فرض اداکرتے ہوئے ’’عوام‘‘  کو تحفظ دیاکرے گی، پھر ان حقوق وفرائض کے مختلف زمرے بھی ہوئے لیکن بنیاد ایک ہی رہی ہے۔حکومت کے ذمے  ’’تحفظ‘‘اور عوام کے ذمے اس کا معاوضہ ادا کرنا۔یا کھلے الفاظ میں یہ کہیے کہ حکومت کا ’’حق‘‘ہے کہ وہ عوام سے ٹیکس لے۔لیکن اس حق کے ساتھ ہی اس پر فرض عائد ہوتاہے کہ عوام کی حفاظت کرے، عوام کا اگر حکومت پرتحفظ کا حق ہے تو اس کے لیے ٹیکس ادا کرنا اس کا فرض ہے۔اور کچھ ممالک میں یہ معاہدہ بدستور اپنی اصلی شکل میں رائج بھی ہے لیکن پاکستان ہندوستان یا دوسرے کئی ایشیائی ممالک میں اس ’’معاہدے‘‘پرعمل نہیں کیاجاتا۔ حکومتیں اپنا حق تو ہر طریقے سے چھین لیتی ہیں کیونکہ ان کے پاس ڈنڈا ہے لیکن بدلے میں فرائض بالکل نہیں ادا کرتیں بلکہ بڑی حد تک اپنے حق سے کئی گنا زیادہ چھینتی ہیں چنانچہ اب وصول کرنے کے  بجائے ’’چھین لینے‘‘کا طریقہ اس نے اختیار کیاہوا ہے۔

حکومت عوام سے جو کچھ بھی ٹیکسوں،بلوں،فیسوں اور دوسرے ناموں سے لیتی ہے،اس کے بدلے میں اس پر جو فرائض عائد ہوتے ہیں وہ اسے یاد بھی نہیں، ان کی تفصیل میں جانے سے پہلے ’’تحفظ‘‘کی بھی وضاحت ہوجائے۔ تحفظ صرف وہ نہیں جو حکمرانیہ اور اشرافیہ کی ورد زبان ہے اور ترانوں، نغموں اور بیانوں میں اس کی قوالیاں گاتی ہے  یعنی کسی ’’غیر‘‘سے تحفظ۔ہم دشمن کی ایسی تیسی کردیں گے، ہم اینٹ کا جواب پتھر سے دیں گے، ہم جان دے دیں گے لیکن اپنے ’’عوام‘‘پر آنچ نہیں آنے دیں گے حالانکہ یہ تو محض حکمرانیہ کا اپنا معاملہ ہے کہ اس گائے کو صرف ہم دوہیں گے، کسی اور کو نہیں دوہنے دیں گے، اس باغ کا پھل ہم خود کھائیں گے، اس شکارگاہ میں صرف ہم شکار کریں گے۔

وہ اپنی گائے، اپنے باغ ، اپنی شکارگاہ کی حفاظت کرتی ہے جس سے گائے، باغ اور شکارگاہ کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ لوٹے وہ لوٹے۔اسے بہرحال لٹنا ہوتاہے، اس لیے گوالے، باغبان اور شکاری کے بدلنے سے اسے کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہوتا۔اصل مسئلہ تو عوام کو اپنی ’’سطح‘‘پرحفاظت کا درپیش ہے۔اور جن جن ممالک میں یہ معاہدہ دیانت داری سے قائم ہے اور صحیح طریقے پرچل رہاہے وہاں عوام کے تحفظ کے چار شقیں ہیں(۱)ان کی جان،مال،شرم وحیا اور عزت وحرمت کی حفاظت(۲)جہالت سے تحفظ کے لیے تعلیم(۳) امراض سے حفاظت کے لیے صحت کا تحفظ۔اور بھوک سے حفاظت کے لیے روزگار۔جو حکومتیں ٹیکس لیتی ہیں، وہ یہ چاروں  حفاظتیں عوام کو اس کے بدلے میں مہیاکرتی ہیں لیکن جہاں ہم رہتے ہیں جہاں کی ہم بات کرتے ہیں یا جہاں یہ ’’معاہدہ‘‘ ٹوٹا ہوا بلکہ ختم ہوچکاہے، ٹیکس یاحق تو وصول کیاجاتاہے لیکن بدلے میں کوئی بھی تحفط نہیں دیاجاتا۔                  (جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔