ایک ظالم کی مخالفت، دوسرے کی حمایت

ثناء غوری  منگل 17 ستمبر 2013
sana_ghori@live.com

[email protected]

ہم لوگ نفرت کرنے پر آتے ہیں تو تعصب کی آخری حد بھی پار کر جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ہمارے لیے ظلم اور ظالم کی تعریف بھی نفرت کے دائرے میں محدود ہو جاتی ہے۔

بارک اوباما اور بشارالاسد کے معاملے میں بھی ہم میں سے بہت سے لوگوں کا یہی چلن ہے۔ جاپان سے ویتنام اور افغانستان سے عراق تک وحشت اور دہشت کی تاریخ رقم کرنے والے امریکا کی دہشت گردیاں قابل مذمت بھی ہیں اور قابل نفرت بھی، مگر صدام حسین سے حسنی مبارک تک امریکی مفادات کے لیے کام کرتے کرتے ایک روز ان ہی مفادات کا نشانہ بن جانے والے حکمرانوں کے اپنے ہم وطنوں سے وحشیانہ سلوک کی طرح شامی صدر بشارالاسد شام کے عوام پر مظالم سے نظریں کیسے چرائی جا سکتی ہیں۔ امریکا شام پر حملہ کرتا ہے یا نہیں اور اس حملے کے اہداف اور مقاصد کیا ہیں، یہ تو آنیوالا وقت ہی بتائے گا، لیکن اس حملے کے اعلان کے بعد بعض حلقوں کے ردعمل نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ ہمارے یہاں ظالم اور مظلوم سے بھی امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک کے عوام اور اہل سیاست ہی نہیں، دنیا کی بڑی طاقتیں اور حکومتیں بھی اس روش پر گامزن ہیں۔

بشارالاسد کی مطلق العنان حکومت کے خلاف شام کے عوام 29 ماہ سے برسرپیکار ہیں اور ہر ظلم برداشت کر رہے ہیں۔ جب حکومت مخالف تحریک نے زور پکڑا اور اس پر مظالم میں شدت آ گئی تو اس لڑائی میں مظلوم شامی عوام کی مدد کے لیے مختلف جہادی تنظیموں اور گروہوں کے ارکان بھی شریک  ہو گئے، جس کے ساتھ ہی بشارالاسد کی حکومت نے ظلم کی نئی داستانیں رقم کرنا شروع کر دیں۔ جلے ہوئے جسم، کٹی پھٹی لاشیں، تصویروں اور ویڈیوز کی صورت دنیا کے سامنے آتی اور انسانیت کے حامل ہر شخص کے دماغ میں چبھتی رہیں۔ مخالفین سے اتنا بھیانک سلوک، بے خطا شہریوں پر اتنے ہولناک مظالم، آخر دنیا کب تک بے حس بنتی اور نظریں چراتی رہتی۔ عالمی رائے عامہ اس ظلم کو روکنے کے لیے یک زبان ہوتی گئی۔ مگر دنیا کے چوہدریوں کے سامنے مسئلہ یہ تھا کہ بشارالاسد کے خلاف صف آراء گروہوں میں انھیں غلبہ حاصل ہے جنھیں ’’جہادی‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

اب عالمی سطح پر اثر و رسوخ رکھنے والے ممالک سے عام لوگوں تک ایک گروہ بشار الاسد کا حامی ہو گیا اور دوسرا اس کے مخالفین کا۔ تاہم دنیا شام کے عوام پر ظلم ہوتے دیکھتی رہی۔ عالمی طاقتوں نے اس مسئلے پر عملاً تشویش کا اظہار اس وقت کیا جب انھیں اس حقیقت کا بہ خوبی علم ہو گیا کہ جہادی گروہ بھرپور عسکری قوت استعمال کرتے ہوئے شام کے ستر فی صد علاقے پر غلبہ حاصل کر چکے ہیں، اب مسئلہ صرف اس ساحلی پٹی کے حصول کا ہے جس کے ذریعے بشارالاسد کو روس سے رسد حاصل ہوتی ہے۔ اگر جہادی گروہ اس ساحلی پٹی پر قبضہ جما لیتے ہیں تو اس میں کوئی شک نہیں کہ بشار حکومت مزید کمزور ہو جائے گی۔ اور ظاہر ہے امریکا سمیت مغربی قوتیں کسی صورت جہادی قوتوں کو شام میں برسراقتدار آنے دینا نہیں چاہتیں۔21 اگست 2013 کو غوطۂ دمشق میں کیمیائی حملے کے ذریعے پندرہ سو سے زاید افراد شہید کیے گئے۔

امریکی حکومت کے لیے یہ ایک اچھا موقع تھا کہ وہ اپنی چال چل دے۔ نہ مسلم اُمہ نے اس مسئلے پر لب کشائی کی اور نہ ہی انتیس ماہ سے ہر روز شامی عوام پر ڈھائی جانے والی قیامت پر او آئی سی  نے کوئی اجلاس طلب کیا۔ ہاں، مغربی قوتیں اپنا کام پوری سرعت کے ساتھ کرتی رہیں اور لمحہ بہ لمحہ بدلتی صورت حال سے فائدہ اٹھاتی رہیں۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ کیمیائی حملے سے بہت پہلے بشارالاسد پر دباؤ ڈال کر اس خون کی ہولی کو روکا جاتا جس سے ارض شام رنگین ہو چکی ہے اور فریقین میں جنگ بندی کروائی جاتی، لیکن ظلم بڑھتا گیا اور عالمی قوتیں زبانی جمع خرچ ہی کرتی رہیں، ایسے میں مظلوم شامی عوام اپنے بچاؤ کے لیے تمام تر کوششیں کرتے رہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ مخالفین کے دارالحکومت دمشق کی طرف بڑھتے قدموں سے خوف زدہ ہو کر بشار حکومت نے کیمیائی ہتھیار آزمائے، جسے جواز بنا کر امریکا نے شام کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔

بشار حکومت پہلے تو اس حملے کی تردید کرتی رہی، مگر پھر کیمیائی ہتھیاروں کی موجودگی کے اعتراف کے ساتھ انھیں عالمی تحویل میں دینے پر رضا مند ہو گئی۔ ادھر ہمارے یہاں امریکا کی مخالفت میں شام کے مظلوم عوام کو نظر انداز کر دینے والے حلقوں نے یہ شوشہ چھوڑا کہ جہادی تنظیموں نے خود ہی یہ کیمیائی حملہ کیا ہے۔ کیسی ناقص سوچ ہے۔ جن پر الزام لگایا جا رہا ہے وہ تو پہلے ہی فتح کے قریب پہنچ چکے ہیں، انھیں کیا ضرورت ہے امریکا کا ساتھ دے کر اپنی کامیابی کو ناکامی میں بدلنے اور ایک تیسری قوت کو بیچ میں لانے کی؟ اگر انھیں یہی کچھ کرنا ہوتا تو وہ بہت پہلے کر سکتے تھے۔درحقیقت شامی حکومت کی بوکھلاہٹ نے راز افشا کر دیا کہ کیمیائی حملے کا ذمے دار کون تھا۔ بشارالاسد تمام کیمیائی ہتھیار اور مواد عالمی تحویل میں دینے کے لیے تیار ہو گئے، جس کے ساتھ یہ حقائق بھی سامنے آ گئے کہ یہ مواد کب اور کہاں سے خریدا گیا۔ اب یہ شام میں اپنے حق کے لیے لڑنے والوں کو کیمیائی حملے کا ذمے دار قرار دینے والوں پر فرض ہے کہ انھوں نے کس بنا پر یہ الزام لگایا۔

بات صرف زبانی کلامی الزام تک نہیں رہی، سوشل میڈیا پر باقاعدہ ایک وڈیو سامنے لائی گئی، جس میں کچھ لوگوں کو شام میں برسرپیکار مجاہدین قرار دیتے ہوئے انھیں میزائل کے ذریعے کیمیائی حملہ کرتے دکھایا گیا تھا۔ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ یہ وڈیو آٹھ ماہ پہلے بشار حکومت کے مخالفین کا امیج خراب کرنے کے لیے بنائی گئی، جب کہ کیمیائی حملہ گزشتہ ماہ ہوا۔ غوطۂ دمشق پر کیمیائی حملہ ڈھلتی رات میں کیا گیا تھا، جب دن کی روشنی بھی نہ پھوٹی تھی اور معصوم بچوں سمیت سیکڑوں افراد نیند ہی میں موت کی نیند سو گئے تھے، متاثرین کی آنکھوں سے خون بہنے لگا تھا اور ان کے جسم ناکارہ ہو گئے تھے، اور وہ تازہ ہوا کے ایک جھونکے کی تلاش میں خود کو گھسیٹ رہے تھے، مگر اس وڈیو میں دن کا اجالا پھیلا ہوا ہے۔ اس وڈیو کو پھیلانے والوں سے التماس ہے کہ اسے غور سے دیکھیں اور اپنے ضمیر کی عدالت میں سچ جھوٹ اور صحیح غلط کا فیصلہ کریں۔

امریکا کی طرف سے بشار حکومت کے خلاف جنگ کا اعلان اگر روبہ عمل آتا ہے تو یہ اقدام شام سمیت پورے خطے کو بھڑکتی آگ میں جھونک دے گا، لہٰذا اس کی کسی طور حمایت نہیں کی جا سکتی۔ شامی حکومت کو مختلف طریقوں سے دباؤ ڈال کر ظلم سے روکا جا سکتا ہے، مگر واشنگٹن کا مقصد شامی عوام کو ظلم سے بچانا کب ہے، اس کے تو اپنے ہی مفادات، عزائم اور ارادے ہیں۔ شام پر حملے کا امریکی اعلان قابل مذمت ہے۔ اس حملے کی صورت میں شام کے دونوں متحارب فریقوں کا نقصان ہو گا۔ اگر بشار حکومت کا خاتمہ کر کے امریکا شام میں اپنے کسی پٹھو کو اقتدار میں لے آتا ہے اور اس کی فوجیں وہاں ڈیرے ڈال دیتی ہیں، تو عراق اور افغانستان کی طرح شام کی جہادی قوتیں اس صورتحال کو برداشت نہیں کریں گی، جس سے تشدد کی آگ مزید بھڑکے گی۔ چنانچہ جنگ کی مخالفت کرنی چاہیے، لیکن امریکا کی مخالفت میں حد سے گزر کر یہ کہنا کہ شامی حکومت کے مخالف گروہ امریکا کے اشارے پر جنگ لڑ رہے ہیں، ان ہی کی نہیں حریت اور جمہوریت کے لیے ہونے والی ہر جدوجہد کی توہین ہے۔ ایسا کہنے والے دانستہ طور پر یا نادانستگی میں ایک ظالم امریکا کے مقابلے میں دوسرے ظالم بشارالاسد کے ہم نوا ہو جاتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔