معاشرے کا ایک اہم مسئلہ گداگری

نسیم انجم  منگل 17 ستمبر 2013
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

ایک دن شاپنگ کے لیے طارق روڈ جانے کا اتفاق ہوا، طارق روڈ پر معمول کے مطابق گہما گہمی اور چہل پہل تھی، فٹ پاتھ پر مال و اسباب بیچنے والوں کی قطار دور تک نظر آ رہی تھی اور سامنے ہی خریداری کے لیے جو مشہور عمارات ہیں ان میں بھی رش کا یہ عالم تھا کہ سیڑھیوں سے بے شمار لوگ چڑھ اتر رہے تھے، ہم بھی گاڑی میں بیٹھے بیٹھے یہ سوچ رہے تھے کہ اپنی مطلوبہ چیزیں خریدنے کے لیے کس طرف کا رخ کریں، ابھی ہم اسی سوچ بچار میں تھے کہ دیکھا کہ ایک شخص اپنی موٹر سائیکل بالکل ہلکی رفتار میں چلاتا ہے اور پھر رک جاتا ہے، یہ عمل اس نے کئی بار کیا اور اب اس کا رخ ہماری طرف تھا۔

وہ دیکھنے سے کسی بھی ادارے کا افسر معلوم ہوتا تھا، استری کیا ہوا بے حد شاندار لباس، چمکتے ہوئے سیاہ جوتے، سلیقے سے گردن میں بندھی ٹائی، کلین شیو، کشادہ پیشانی اور آنکھیں ذرا چھوٹی، رنگت گندمی، اس نے ایک طائرانہ سی نگاہ ہم پر ڈالی اور پھر شان بے نیازی سے بولا۔ اﷲ کا واسطہ، ہماری کچھ مدد کرو، ہم ضرورت مند انسان ہیں۔ ان کے اس شاہانہ انداز نے ہمیں کچھ مرعوب سا کر دیا تھا نہ بھیک دینے کا جی چاہتا تھا اور نہ منع کرنے کی ہمت تھی، بے رخی سے پیش آنا بھی غیر اخلاقی سی حرکت لگی، پرس کھولا تو ایک دس کا نوٹ نظر آیا، سوچا کہ دیں یا نہ دیں، یہ ’’مدد‘‘ یا بھیک ان کے شایان شان ہرگز نہ ہوگی، لہٰذا پرس کی زپ بند کی اور نگاہ دوسری طرف پھیر لی۔ وہ غصے سے پھنکارا، اگر نہیں دینا تھا تو پرس کھول کر آسرا کیوں دیا ’’بدتمیز‘‘ کہہ کر اس نے اپنی موٹر سائیکل آگے بڑھا دی اور اب وہ کسی دوسری گاڑی کے سامنے دست دراز تھا۔ واہ! بہت خوب، کیا اکڑ، کیا طنطنہ؟ اس شخص نے تو حیران ہی کر دیا۔

گداگری کے حوالے سے بہت سے واقعات منظر عام پر آتے ہیں، 11 ستمبر کے اخبار کا مطالعہ کرتے ہوئے ایک ایسی خبر پر نظر پڑی، جس نے ہمیں چونکا دیا۔ واقعہ گرو مندر کا ہے کہ ایک فقیر نے رکشہ ڈرائیور کے سر پر اس زور سے پتھر مارا کہ اس کی موت واقع ہو گئی، وجہ یہ تھی کہ رکشہ ڈرائیور محمد رئیس نے گداگر سے 8000 روپے قرضہ لیا تھا اور وہ جمیل نامی گداگر کو واپس نہیں کر پا رہا تھا لہٰذا مالدار فقیر نے اس پر تشدد کر کے اپنا غصہ ہی ٹھنڈا نہیں کیا بلکہ مقروض رئیس جس کی عمر چالیس سال تھی اسے بھی ٹھنڈا کر دیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ موصوف صاحب حیثیت تو تھے ہی ساتھ میں صاحب جائیداد بھی تھے اور جمشید کوارٹر میں ان کا مسکن تھا، اب کوارٹر ان کا ذاتی تھا، یا کرائے پر۔ اگر کرائے پر تھا تو بھی ایک غریب ترین آدمی کو اس کا کرایہ ادا کرنا بے حد مشکل ہوتا ہے، مقتول فٹ پاتھ پر سویا کرتا تھا۔اسلام میں بھیک مانگنے کی بے حد مذمت کی گئی ہے اور محنت مزدوری کر کے جائز آمدنی کمانے کا سبق پڑھایا گیا ہے، اس حوالے سے احادیث نبویؐ اور قرآنی تعلیم میں منع کیا گیا ہے، البتہ کسی سائل کو ڈانٹنا، اسے ذلیل کرنا بھی مناسب نہیں ہے۔ بعض لوگ بے حد برا سلوک کرتے ہیں اس سے ان لوگوں کی دل آزاری ہوتی ہے جو نہ جانے کسی مجبوری و لاچاری کی بنا پر بھیک مانگنے پر مجبور ہوئے یا انھیں مجبور کیا گیا، بے شمار جرائم پیشہ افراد ایسے ہیں جو معصوم بچوں اور بڑوں کو اغوا کر کے انھیں بھیک مانگنے پر مجبور کرتے ہیں، مغویوں پر طرح طرح کے ظلم ڈھائے جاتے ہیں، ان کے ہاتھ پیر توڑ دیے جاتے ہیں اور آنکھیں نکال دی جاتی ہیں۔

ایک طرف غربت نے لوگوں کا جینا حرام کر دیا ہے، تو دوسری طرف حالات یہ ہیں کہ لوگوں کے پاس دولت کی کمی نہیں ہے، وہ محض سیر و تفریح کرنے، تھیٹر اور فلمیں دیکھنے پر روپیہ پیسہ پانی کی طرح بہاتے ہیں، قیمتی موبائل ان کی جیبوں میں ہوتے ہیں، اسنیک بار اور ریستورانوں میں صبح و شام براجمان رہتے ہیں۔ ان کے پاس پیسہ کہاں سے آتا ہے یہ کسی کو نہیں معلوم، لیکن ان ہی میں سے بہت سے لوگ بے حد محنتی اور ہنرمند ہوتے ہیں۔ اپنے ہنر کی بدولت خوب کمائی کرتے ہیں بعض اوقات اپنی محنت سے زیادہ رقم بٹورتے ہیں، بے چارے مجبور لوگ اپنی ٹوٹی پھوٹی چیزوں کی مرمت کرانے کے لیے مجبوراً انھیں ناجائز پیسے دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں، اب اگر پانی کی موٹر خراب ہے یا بجلی کا کوئی کام کرانا ہو تو تب یہ حضرات موقعے سے پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ حالات یہ ہیں کہ پلمبر اور الیکٹریشن بھی ماہر سرجن یا ڈاکٹر کی طرح گھر آنے کی فیس وصول کرتے ہیں چاہے آپ کی گھریلو اشیا کو ٹھیک کریں یا نہ کریں انھیں سو دو سو روپے لازمی چاہئیں جب کہ ڈاکٹر حضرات تو مریض کا معائنہ کرتے ہیں دوائیں لکھتے ہیں۔ یہ بھی قریب قیامت کی نشانی ہے کہ چھوٹے کام کرنیوالوں کو عروج ملے گا۔ اسلام میں محنت کرنے والے کا باعزت مقام ہے، لیکن جائز پیسے وصول کرنا اور مزدور کی مزدور ی اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا کر دینا بھی اسلامی تعلیمات میں شامل ہے۔

پورے پاکستان خاص طور پر کراچی کا یہ حال ہے کہ قدم قدم پر فقیروں کی فوج ظفر موج نظر آتی ہے، فٹ پاتھ پر پورا خاندان صبح اٹھتے ہی اپنی مخصوص جگہوں پر آ جاتا ہے اور پھر یہ لوگ مختلف گاڑیوں کی سمت دوڑ لگا دیتے ہیں۔ راہ گیروں اور دکانداروں سے بھی باقاعدگی سے ہر روز بھیک مانگتے ہیں، اگر اسنیک بار پر کوئی فیملی یا ایک فرد لذیذ کھانوں کے مزے لوٹ رہا ہے تو یہ لوگ مزے کو کرکرا کرنے میں اپنا اہم رول ادا کرتے ہیں اور چکن تکہ اور کولڈ ڈرنک کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اسپتالوں میں بھی ایسا ہی حال ہے، ایک تو بے چارہ مریض پریشان ہے، ڈاکٹروں کا مہنگا علاج، مہنگی دوائیں اور وہ بھی بعض اوقات جعلی ثابت ہوتی ہیں۔ ٹرانسپورٹ کے الگ مسائل، فائرنگ، آگ، دھواں اور ٹریفک جام کے دکھ اپنی جگہ اور ایسے میں ایک نہیں کئی فقیر آپ کی راہ روک لیں تو کیا گزرے گی دل ناتواں پر، دل چاہے گا دھکا دے کر آگے بڑھ جاؤ، مگر شریف آدمی یہ بھی نہیں کر سکتا ہے، جب ایسا رویہ اختیار نہیں کرے گا تو ڈاکٹر کے پاس پہنچنے میں مزید تاخیر ہو گی مگر یہ بھک منگے اس بات کو ہرگز نہیں سمجھتے ہیں، اگر ایک کو دے کر اپنی جان چھڑا لیں تو دوسرے بہت سے بچے، عورتیں اور مرد آ کر کھڑے ہو جائیں گے۔

اب آپ سب کو بھیک دیں یا پھر خاموشی اختیار کر لیں۔ سگنلز پر جہاں گاڑیاں رکیں وہیں فقیروں کی لائن لگ گئی، یہ فقیر ذرا دوسری طرح کے ہیں، سجے بنے میک اپ کی تہیں چڑھائے، گرمی ہو یا سردی یا موسم برسات ان کے ہار سنگھار میں کسی قسم کی کمی نہیں آتی ہے، لیکن ایک بات ہے ان خواجہ سراؤں کا بھیک مانگنے کا انداز مہذبانہ ہے یہ بھیک مانگتے ہیں، دینا ہو دو، نہ دینا ہو مرضی، یہ ضد، بحث نہیں کرتے، راہ گیروں اور سفر کرنیوالوں کی جلدی ہی جان چھوٹ جاتی ہے۔کیا حکومت کو یہ چاروں طرف پھیلے ہوئے گداگر نظر نہیں آتے ہیں؟ یوں لگتا ہے کہ جیسے بھیک مانگنے کا ان کے پاس لائسنس ہو۔ ان کے لیے حکومتی سطح پر غور و خوض کرنے اور انھیں محنت مزدوری کرنے پر مجبور کیا جانا چاہیے۔ نہ مانیں تو گرفتاری کو لازمی قرار دیا جائے۔ فقیری کی آڑ میں بے شمار برائیاں بھی خوب پنپتی ہیں جن سے سب واقف ہیں۔ معاشرے کا یہ اہم ترین مسئلہ ہے اگر اس سنگین مسئلے کو حل نہیں کیا گیا تو وہ دن دور نہیں جب فقیر چمچاتی زیرو میٹر کاروں میں بیٹھ کر بھیک مانگیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔