دہشت گردی کیخلاف جنگ… ابہام دور کرنا ہو گا

ایڈیٹوریل  منگل 17 ستمبر 2013
گزشتہ دنوں آل پارٹیز کانفرنس میں شریک تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر طالبان سے مذاکرات کی حمایت کی تھی۔ . فوٹو: فائل

گزشتہ دنوں آل پارٹیز کانفرنس میں شریک تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر طالبان سے مذاکرات کی حمایت کی تھی۔ . فوٹو: فائل

پاک فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے پیر کو اپنے بیان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ ہر قیمت پر لڑنے کا اعادہ کر کے واضح کر دیا ہے کہ پاک فوج میں اس حوالے سے کوئی ابہام نہیں ہے اور وہ دہشت گردی اور دہشت گردوں کے خلاف پوری جرأت سے سینہ سپر ہے۔ انھوں نے یہ بیان فاٹا میں 14اور 15 ستمبر کے دوران شہید ہونے والے پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے جاری کیا۔ انھوں نے دو ٹوک اورغیرمبہم انداز میں کہا ہے کہ پاک فوج کے پاس دہشت گردوں سے لڑنے کی قابلیت بھی ہے اور اہلیت بھی‘ پاک فوج دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے پرعزم ہے اور پاک فوج عوام کی امنگوں کے مطابق ہر قیمت پر دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑے گی اور اس لعنت کے خاتمہ تک جنگ جاری رہے گی۔ انھوں نے کہا کہ امن کے عمل کو موقع ضرور دینا چاہیے۔ دہشت گرد زبردستی شرائط نہیں منوا سکتے نہ ہی انھیں اپنا ایجنڈا تھوپنے دیں گے۔ انھوں نے مزید کہ کہ کسی کو یہ گمان نہیں ہونا چاہیے کہ ہم دہشت گردوں کی شرائط مانیں گے‘ دہشت گردی کے ذمے داروں کو ہر قیمت پر کٹہرے میں لایا جائے گا‘ پاک فوج سیاسی عمل کی حمایت کرتی ہے۔

پاک فوج کے سربراہ کے بیان کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو یہ دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کے غیرمتزلزل عزم وحوصلے اور اس کے ساتھ ساتھ سیاسی عمل کو جاری رکھنے کی خواہش کا اظہار ہے۔ انھوں نے واضح کیا ہے کہ امن کو ایک موقع ملنا چاہیے۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ جمہوری حکومت اور ملک کی دیگر سیاسی جماعتیں اگر دہشت گردوں سے مذاکرات کرنا چاہتی ہیں تو وہ اپنا یہ عمل ضرور جاری رکھیں کیونکہ اگر اس طریقے سے معاملات سدھرتے ہیں تو اسے ضرور بروئے کار لانا چاہیے لیکن مخالف فریق کو یہ تاثر نہیں دیا جانا چاہیے کہ وہ طاقتور ہے اور ریاست کمزور پوزیشن پر ہے۔ کالعدم تحریک طالبان ہو یا سوات میں بروئے کار شریعت محمدی‘ ماضی میں حکومتیں ان سے مذاکرات کر چکی ہیں۔ ان مذاکرات کا جو نتیجہ نکلا وہ سب کے سامنے ہے۔ ماضی کے اس تلخ تجربے کے باوجود موجودہ حکومت اگر سمجھتی ہے کہ وہ مذاکرات کے ذریعے دہشت گردی کا کوئی حل نکال سکتی ہے تو اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی کسی نے حکومت کی اس پالیسی پر اعتراف کیا ہے لیکن زمینی حقائق کو بھی نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اگر ایسا کیا گیا تو اس کے نتائج خطرناک ہوں گے۔

گزشتہ دنوں آل پارٹیز کانفرنس میں شریک تمام سیاسی جماعتوں نے متفقہ طور پر طالبان سے مذاکرات کی حمایت کی تھی۔ موجودہ حکومت اس حوالے سے خاصی پرامید ہے۔ دیگر سیاسی جماعتیں جن میں تحریک انصاف‘ جے یو آئی (ف) جماعت اسلامی بھی بڑی شد ومد سے طالبان کے ساتھ مذاکرات کی حمایت کر رہی ہیں۔ جب اے پی سی کا مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا تو اس کے بعد کالعدم تحریک طالبان نے بھی اسے خوش آیند قرار دیا تھا۔ اس کے بعد ایسا تاثر پیدا ہوا کہ شاید اس بار حالات میں بہتری آ جائے گی لیکن عملاً ہوا یہ کہ فاٹا میں طالبان کی کارروائیاں بدستور جاری رہیں اور پھر سانحہ اپردیر رونما ہوا جس میں میجر جنرل ثناء اللہ نیازی‘ لیفٹیننٹ کرنل توصیف احمد اور لانس نائیک عرفان ستار دہشت گردی کی ایک کارروائی میں شہید ہو گئے۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے اس کی ذمے داری قبول کر لی۔ طالبان کی اس کارروائی کا مطلب یہ ہے کہ اس نے اے پی سی کے مشترکہ اعلامیے کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ اگر وہ اس اعلامیے کو اہمیت دیتے تو اپنی سرگرمیوں کو روکنے کا اعلان کرتے لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ پاک فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اپنے بیان میں 14 اور 15 ستمبر کو ہونے والی دہشت گردوں کی کارروائیوں کا ذکر کیا ہے۔

اخبارات میں شائع ہونے والے ان کے بیان میں کہا گیا ہے کہ 14 اور 15 ستمبر کی درمیانی رات بنوں کے نزدیک خاصہ داروں کی پٹرولنگ پارٹی کو نشانہ بنایا گیا‘ اس میں ایک خاصہ دار شہید ہوا‘ 15 ستمبر کی صبح پاک فوج کی میران شاہ اور میر علی دو چیک پوسٹوں کو دہشت گردوں نے بارودی سرنگوں سے نشانہ بنایا۔ اس واقعے میں پاک فوج اور ایف سی کا ایک ایک جوان شہید ہوا۔ 15 ستمبر کو دوپہر 12:5 بجے ضلع اپردیر کے گاؤں گٹکوٹلی کے قریب بارودی سرنگ کے ذریعے جی او سی 17 ڈویژن سوات میجر جنرل ثناء اللہ خان کی کارکردگی کو نشانہ بنایا گیا جس میں ان سمیت تین فوجی شہید ہوئے۔ اس تفصیل کو مدنظر رکھا جائے تو طالبان نے حکومت کی جانب سے ان کے ساتھ مذاکرات کی باتوں کی کوئی اہمیت نہیں دی اور وہ مسلسل اپنی کارروائیاں کر رہے ہیں۔ وطن عزیز کے سنجیدہ حلقے محسوس کر رہے ہیں کہ دہشت گردی کے حوالے سے اعلیٰ حکومتی سطح پر ابہام موجود ہے۔

سیاسی جماعتوں میں بھی ایسا ہی ابہام ہے‘ اس وجہ سے دہشت گرد تنظیمیں کامیابی سے اپنے ٹارگٹس کو سیٹ کر رہی ہیں۔ ملک کی سیاسی قیادت کو اس امر کا احساس ہونا چاہیے کہ اس ملک کے کروڑوں لوگ ان کے حامی ہیں‘ اگر وہ کسی معاملے میں ابہام پیدا کریں گی تو یہ ملک وقوم کے حق میں اچھا نہیں ہو گا۔ پاک فوج کی حکمت عملی اور حکومت کی پالیسی میں ہم آہنگی ہونی چاہیے۔ ملک کی سیاسی جماعتوں کی قیادت کو بھی اس سے متفق ہونا چاہیے۔ پاکستان میں دہشت گردی پر قابو نہ پانے کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ملک کی سیاسی قیادت کا ذہن اس حوالے سے واضح نہیں ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سیاسی قیادت کے پاس اطلاعات کی بھی کمی ہے اور وہ نظریاتی تقسیم کو بھی سمجھنے سے قاصر ہے۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت شاید یہ سمجھتی ہے کہ القاعدہ‘ طالبان اور دہشت گردی اپنی اصل میں کوئی خطرہ نہیں بلکہ یہ امریکا کی افغانستان میں موجودگی کی وجہ سے خطرہ بنی ہے۔

وہ القاعدہ اور طالبان کی نظریاتی حکمت عملی کا یا تو گہرائی سے مطالعہ نہیں کر رہی یا اس میں ویژن کی کمی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان مسلسل دہشت گردی کا نشانہ بن رہا ہے او ردہشت گردوں کے خلاف وہ کارروائی نہیں ہو رہی جو انھیں حقیقی معنوں میں وہ ضرب لگا سکے جس کی تاب نہ لاتے ہوئے، وہ مذاکرات اور پھر سرنڈر پر مجبور ہو جائیں۔ پاک فوج کے سربراہ نے واضح کر دیا ہے کہ پاک فوج کے پاس دہشت گردوں سے لڑنے کی اہلیت بھی ہے اور وہ اس کی صلاحیت بھی رکھتی ہے۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑنے کے حوالے سے ابہام کو دور کیا جائے۔جس دن یہ ابہام دور ہو گیا دہشت گردی کو شکست دینا مشکل نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔