پورس کے ہاتھی، امریکی الیگزینڈر اور طالبان

مدثر حسیب  بدھ 31 جولائی 2019
پورس اور اس کی فوج نے الیگزینڈر کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا تھا۔  (فوٹو: انٹرنیٹ)

پورس اور اس کی فوج نے الیگزینڈر کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا تھا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

یہ شائد 326 قبل مسیح میں مئی کا مہینہ تھا۔ دریائے ہوداسپس (موجودہ دریائے جہلم) دیکھ رہا تھا کہ اس کے دونوں اطراف کسی بڑی جنگ کا میدان سجایا جارہا ہے۔ دریا کے کنارے دنیا کی سپر پاور مقدونیہ (موجودہ یونان، شمالی مقدونیہ، سربیا اور بقیہ بلقانی ریاستیں) کا بے رحم اور جنگی چالوں کا ماہر الیگزینڈر اپنی نہایت قابل اور ٹیکنالوجی سے لیس چونتیس ہزار فوج کے ساتھ موجود ہے۔ اس کے پاس اپنے وقت کی جدید ترین ہتھیاروں کی ماں منجنیق موجود ہے اور سائنسی بنیادوں پر بنائی گئی دیگر آرٹیلری بھی۔ نقشوں پر کام کرنے والے اور ماہر جنگی چالیں چلنے والے فوجی جرنیل بھی ہیں۔

ہند پر فتح کا جھنڈا لہرانے، اپنی تہذیب پھیلانے اور ہند کے مال پر قبضہ کرنے کےلیے آنے سے پہلے الیگزینڈر نے ٹیکسلا کے مہاراجہ امبانی اور فارس کے شاہ کو اپنے ساتھ ملا کر ایک مضبوط نیٹو بھی بنالی تھی۔ فارس کا شاہ طاقتور تھا۔ ہند آنے سے پہلے یونانی فوجوں نے پہلے اسے پتھر کے دور میں بھیجا اور ایک کلنگ مشین کی طرح کام کرتے ہوئے انہیں روند ڈالا اور بعد میں اپنی من چاہی حکومت قائم کرکے انہیں اپنے ساتھ ملا لیا تھا۔ ٹیکسلا کا راجہ امبانی سپر پاور کے ساتھ الجھنا نہیں چاہتا تھا، اس لیے اس نے الیگزینڈر کے ساتھ الائنس بنالیا۔ راجہ نے اپنی فوج کے مضبوط دستے الیگزینڈر کی فوج کو دے دیئے اور ساتھ میں ہر قسم کی فوجی اور غیر فوجی امداد کا وعدہ کیا، اس شرط پر کہ جیت میں اس کا بھی پورا حصہ ہوگا۔ الیگزینڈر نے ہاں کردی۔

یہاں تک الیگزینڈر کو کوئی مشکل پیش نہیں آئی تھی، لیکن الیگزینڈر کی فوجیں جونہی ہند کے بارڈر کو کراس کرتی ہیں، ان کی مشکلات شروع ہوجاتی ہیں۔ کنار، بنیر، سوات اور پشاور کے مہاراجوں نے یونانی فوجوں کو ناکوں چنے چبوا دئیے۔ انہی لڑائیوں کے دوران الیگزینڈر دی گریٹ کو ٹخنے پر شدید چوٹ لگی۔ حالانکہ وہ فوج کے ایلیٹ باڈی گارڈز کے نرغے میں ہوتا تھا۔ لیکن یونانی فوج بھی آخر سپرپاور تھی اور چھوٹی ریاستوں پر قبضوں کی ماہر۔ نتیجتاً ان ریاستوں کی راج گدی یونانیوں کے ہاتھ آگئی۔ لیکن اس دوران یہ خوبصورت وادیاں مقامی شہریوں اور لڑنے والے آزادی کے پروانوں کے خون سے رنگ گئی تھیں۔ نہ صرف یہ بلکہ ایک موقع پر سپر پاور کی فوجیں رات کو شہر کے سوئے ہوئے نہتے شہریوں پر چڑھ دوڑیں اور مردوں، عورتوں اور بچوں کا قتل عام کیا، جبکہ ایک دوسرے واقعے میں تو پورے کے پورے شہر کو ذبح کردیا گیا۔ لیکن سپرپاور کو اس کی پرواہ نہیں تھی، سو آگے بڑھ کر دریائے ہوداسپس کے کنارے پہنچ کر پڑاؤ ڈال لیا۔ اس کا اگلا مقابلہ پوروا (موجودہ پاکستانی پنجاب) کے راجہ پورس کے ساتھ تھا۔

راجہ پورس اچھے قد کاٹھ کا اور اچھی شہرت کا حامل تھا۔ پوروا کی ریاست بھی ہند کی ایک چھوٹی اور خوشحال ریاست تھی، جس کے باسی زراعت سے وابستہ تھے۔ اس کی کوئی باقاعدہ فوج نہیں تھی۔ یونانیوں کی اطلاع ملنے پر جو فوج بنائی گئی تھی، وہ بھی زیادہ تر مقامی لوگوں کو اکٹھا کرکے بنائی گئی تھی۔ زراعت پیشہ ہونے کی وجہ سے ریاست کے لوگوں کی جسمانی ساخت مضبوط اور عادات محنت کش تھیں۔ پورس جیسے تیسے کرکے بیس ہزار پیادہ اور دو ہزار گھڑسواروں پر مشتمل فوج دریا کے دوسرے کنارے لے کر پہنچ گیا۔ فوج کے ساتھ نہایت تربیت یافتہ مہاوت اور ان کے جنگ میں استعمال ہونے والے دو سو ہاتھی بھی تھے، جو جنگ کا رخ بدلنے میں مدد دے سکتے تھے۔ دریا کی دوسری طرف کھڑے یونانی فوج کے گھوڑوں کی آنکھوں میں پورس کے ہاتھیوں کا خوف محسوس کیا جاسکتا تھا۔ پوروا کی فوج کے پاس کچھ خاص کمانیں بھی موجود تھیں، جن کی لمبائی تقرییاً دو میٹر ہوگی۔ اس کمان سے نکلا ہوا ایک تیر کئی لوگوں کی جان لے سکتا تھا۔ دونوں طرف کھڑی فوجوں نے کئی دن ایک دوسرے کا مشاہدہ کرتے ہوئے گزار دیئے۔

ایک دن جنگ شروع ہوتی ہے۔ پوروا کی بڑی بڑی کمانوں سے نکلنے والے تیروں نے شروع میں سپرپاور کی فارمیشن کو ہلا کر رکھ دیا۔ نیٹو کے دانت کھٹے ہونے شروع ہوئے ہی تھے کہ مقدونیہ کی فوج میں پڑنے والے شگافوں میں پوروا کے ہاتھی چڑھ دوڑے۔ دیوقامت ہاتھی کے ماہر مہاوتوں نے یونانیوں کے خیموں تک کو اپنے پیروں تلے روند ڈالا۔ ہاتھی اپنی سونڈ سے یونانی سپاہیوں کو اٹھاتے اور پٹخ کر مارتے تھے، جبکہ پوروا کے لوگ اپنے تیروں اور نیزوں سے انہیں ادھیڑ رہے تھے۔ ہند کے پوروی لڑ رہے تھے اور دریائے ہوداسپس کا بہتا پانی گواہی دے رہا تھا کہ مغربی فوجی اتحاد ٹوٹ رہا ہے۔ یہ ان کےلیے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہورہا ہے۔

اسی دوران پورس کے بھائی امر کی کمان سے تیر نکلتے ہیں اور الیگزینڈر کے پسندیدہ گھوڑے بوسیفیلس کو جا لگتے ہیں۔ ایک کے بعد ایک تیر، بوسیفیلس زمین پر آگرتا ہے اور کبھی نہیں اٹھتا، جبکہ الیگزینڈر بھی زمین پر آ رہتا ہے۔ الیگزینڈر پہلے ہی گھائل ہوتا ہے، گرنے سے مزید لڑنے کے قابل نہیں رہتا۔ پورس بہادری کا مظاہرہ کرتا ہے۔ الیگزینڈر کے محافظوں کا حصار توڑتے ہوئے الیگزینڈر کے سامنے آجاتا ہے۔ اب الیگزینڈر کا سینہ پورس کے نیزے کے نشانے پر ہے۔ پورس الیگزینڈر کو دوبارہ گھوڑے پر سوار ہونے کا کہتا ہے۔ اسی لمحے عظیم سپر پاور کے محافظ اپنے عظیم بادشاہ کو اٹھا لیتے ہیں، جبکہ پورس کا نیزہ الیگزینڈر کا نشانہ ازخود نہیں لیتا۔

پورس اور اس کی فوج نے الیگزینڈر کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیا تھا۔ جنگ کے بعد فوج اتنی بددل ہوگئی کہ فوج میں بغاوت اٹھ کھڑی ہوئی اور الیگزینڈر کے ماہر جرنیلوں نے اسے پیچھے ہٹنے کا مشورہ دے دیا۔ کیونکہ انھیں اطلاعات تھیں کہ وہ ہند کی ایک چھوٹی ریاست پر دوبارہ حملے کی صورت جیت بھی جائیں تو آگے انھیں دریائے گنگا کے کنارے نندوں کی ریاست ’’مگدھ‘‘ کا سامنا کرنا پڑے گا، جو پہلے ہی دو لاکھ پیادہ، اسی ہزار گھڑ سوار اور چھ ہزار ہاتھیوں کے ساتھ یونانیوں کا انتظار کررہے ہیں۔ اس حالت میں نندوں سے لڑنا، جبکہ سپر پاور پورووں سے شکست کھا کر بیٹھی ہوئی ہے، بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے۔ اس لیے واپسی ہی واحد فیس سیونگ راستہ ہے۔

واپسی پر سپر پاور کو ہر جگہ سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، حتیٰ کہ ملتان کے قریب ملاووں سے لڑتے ہوئے گریٹ الیگزینڈر کو سینے میں تیر لگا اور وہ اسی زخم سے اپنا آخری سفر بابل (موجودہ عراق) کے مقام پر طے کرگیا۔ بوسیفیلس اور اپنے سب سے قابل جرنیل نکایا کو وہ ہند میں ہی دفن کرگیا تھا۔ بعض روایا ت کے مطابق بوسیفیلس موجودہ پاکستان کے شہر پھالیہ ضلع منڈی بہاؤالدین میں دفن ہے۔

اب یہاں سے ایک نئی روداد شروع ہوتی ہے۔ دو ہزار سال تک دنیا یہ سمجھتی رہی کہ الیگزینڈر نے ہند کا علاقہ فتح کیا اور پورس کے ہاتھیوں نے اپنی ہی فوج کو روند ڈالا اور اسے اپنے ہی علاقے میں اپنا گورنر بنایا گیا۔ الیگزینڈر، جو راتوں رات شہروں کے شہر لوٹ لیتا تھا اور لوگ ذبح کروا دیتا تھا، وہ راجہ پورس سے اتنا متاثر ہوگیا کہ اس نے ری کونسیلیشن کرنے کے بعد پورس کو اس کی ریاست ہنسی خوشی دان کردی اور تیس دن اپنی ریاست میں قیام کرنے کے بعد واپس چلا گیا۔

یہ کہانی ایک من گھڑت روایت اور یورپی تاریخ دانوں کے گھڑے ہوئے کئی جھوٹوں میں سے ایک جھوٹ ہے۔ جسے سب سے پہلے ایک برطانوی تاریخ دان نے ہی جھوٹ قرار دیا۔ اس کے بعد کئی ایک ریسرچرز نے اسے غلط کہا۔ پورس کے ایسے کوئی پاگل ہاتھی نہیں تھے جنہوں نے اپنی فوج روند ڈالی، بلکہ نہ صرف الیگزینڈر یہ جنگ ہارا، بلکہ وہ ڈر کر بھاگ گیا اور راستے میں اسی ہند میں تیر کا شکار بھی ہوا جس سے الیگزینڈر کی موت ہوئی۔ ہمارے ہاں بھی بعض لکھاری اپنے ذاتی مقاصد کےلیے پنجابیوں کو بلاوجہ اس کا قصوروار ٹھہراتے ہوئے کہ پنجاب کے اس علاقے میں آنے والا ہر حملہ آور کامیاب ہوا، غلط بیانی سے کام لیتے ہیں اور لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں۔

بالکل اسی طرح کا حملہ 2001 میں سپر پاور امریکا کے اس وقت کے صدر بش کی طرف سے کیا گیا، جو امریکی الیگزینڈر بن کر افغانستان پر ٹوٹ پڑا۔ جن کی حکومت نہ تو کوئی باقاعدہ عام طرز کی حکومت تھی اور نہ کوئی ایسی فوج تھی جیسی آج کل کی فوجیں ہوتی ہیں۔ ایک نیا ورلڈ آرڈر بنایا گیا۔ چالیس مضبوط ترین ملکوں کو اکٹھا کرکے نیٹو بنائی گئی۔ پوری دنیا میں اس کی حمایت کےلیے حکومتوں کو پتھر کے دور میں جھونکنے کی دھمکیاں دی گئیں۔ دنیا کے عام لوگوں کو بے وقوف بنانے کےلیے ملک در ملک جھوٹی رپورٹوں کو پبلش کروایا گیا اور جعلی، لبرل، آزاد میڈیا کا بے سروپا واویلا کیا گیا۔ انتہائی سخت چہروں کے ساتھ ٹی وی پر تقریریں کی گئیں اور دہشت گردی کا ہوا کھڑا کیا گیا۔ مسلمان اور دہشت گردی کو سوچی سمجھی چال سے نتھی کیا گیا۔ دنیا کی جدید ترین ٹیکنالوجی، جی پی ایس، فوجی سیٹلائٹس کی مدد، بے پناہ سرمایہ، جنگی ڈرونز اور نان نیوکلیئر بموں کی ماں، باپ اور معلوم نہیں کون کون سے رشتے داروں سے حملہ کردیا گیا۔

یہ تاریخ کی پہلی جنگ ثابت ہوئی جس میں ایک طرف پوری دنیا اور دوسری طرف صرف امارات اسلامی افغانستان کی طالبان حکومت تھی۔ گھمسان کی جنگ ہوئی اور ہوتی ہی گئی۔ تقریباً انیس سال گزر گئے، امریکی الیگزینڈر کی سب سے لمبی جنگ بن گئی۔ پھر اسی دنیا نے دیکھا، تاریخ نے دیکھا کہ سائنس، جمہوریت، سرمایہ، لبرل میڈیا اور طاقتور بموں کو شکست ہوئی۔ اٹھارہ سال میں ہزاروں فوجی اور لاکھوں شہریوں کی اموات ہوئیں۔ کیپیٹلزم کا اکٹھا کیا گیا سرمایہ ڈوب گیا۔ سائنس و ٹیکنالوجی ہار گئی۔ وہی لبرل میڈیا چیخ چیخ کر کہنا شروع ہوگیا کہ کہاں غلطی ہوئی، کیسے شکست ہوئی اور کون اس کا ذمے دار ہے؟ لیکن سرمائے کا بادشاہ اس کا جواب نہیں دے رہا۔

جمہوریت کا لبادہ اوڑھے یہ بادشاہت کسی کو جواب دینے کی پابند نہیں۔ اس کو خود بھی سمجھ نہیں آرہی کہ وہ نیٹو کا اعتماد اور دنیا میں اپنی بچی کچھی عزت کیسے بچائے؟ افغانستان سے کیسے بھاگے؟ لوگوں سے اپنا منہ کیسے چھپائے؟ کیونکہ یہ نہ صرف شکست ہے، بلکہ دنیا میں ہونے والی جنگوں کی انوکھی شکست ہے۔

تب یہاں فیس سیو کرنے کےلیے ایک نئی چال چلی جاتی ہے۔ مذاکرات کی چال۔ ان سادہ شلوار قمیض والوں، پگڑی والوں اور لمبی داڑھی والوں کو میز پر لے آئو۔ نہیں۔ ہم نہیں بیٹھیں گے، افغان حکومت بیٹھے گی، پاکستان بٹھائے گا۔ جبکہ زمینی حقائق کچھ اور کہہ رہے ہیں۔ جنگ جاری ہے۔ جس طرح سپر پاور یونانی الیگزینڈر کے لبرل میڈیا نے ایک جھوٹ گھڑ کر الیگزینڈر کو جتوایا تھا اور ملبہ پورس کے ہاتھیوں پر ڈالا تھا، اسی طرح آج سپر پاور امریکی الیگزینڈر کوشش کر رہا ہے۔ لیکن تاریخ شائد اس بار الیگزینڈر کا ساتھ نہ دے اور ملبہ ڈالنے کےلیے اسے کوئی ہاتھی نہ مل سکے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مدثر حسیب

مدثر حسیب

بلاگر نے مالیات (فائنانس) کے شعبے میں ایم فل کیا ہوا ہے اور دس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ آج کل متحدہ عرب امارات میں بھی شعبہ مالیات میں کام کررہے ہیں۔ ان سے [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔