چاچا ہجرت کی عبرت انگیز کہانی

نصرت جاوید  منگل 17 ستمبر 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

میں جب دس برس کا تھا تو میرے والد کو ملنے ایک بڑے ہی شفیق بزرگ باقاعدگی سے ہمارے ہاں آیا کرتے۔ نام تو ان کا کچھ اور تھا مگر ہم بہن بھائی انھیں چاچا ہجرت کہہ کر پکارتے تھے۔ وہ ایک خوش شکل اور خوش لباس بزرگ تھے جو پکے نمازی بھی تھے۔ اکثر اوقات وہ نماز کے لیے ہمارے گھر کے قریب ایک مسجد میں جانے کے بجائے ہم سے ایک مصلیٰ منگواتے اور وہیں وضو کرنے کے بعد نماز ادا کر لیتے۔ اپنے فطری تجسس کی وجہ سے میں نے جلد ہی دریافت کر لیا کہ ان کا مسلک ہمارے محلے کی مسجد والوں سے مختلف ہے۔ ایک دن میں اسکول سے لوٹتے ہوئے اس محلے سے گزرا جہاں ’’سِریوں والا چوک‘‘ ہوا کرتا تھا جو غازی علم دین کی وجہ سے کافی مشہور ہوا۔

اس چوک سے پہلے دائیں ہاتھ کو ایک طویل گلی تھی جس کے آخری سرے پر ایک مسجد تھی جو ’’چینیاں والی‘‘ کے نام سے جانی جاتی تھی۔ ہمارے مشہور صحافی عبداللہ ملک مرحوم کا تعلق بھی اسی محلے سے تھا۔ ان کی آپ بیتی پڑھنے کے بعد مجھے پتہ چلا کہ اس مسجد کو ’’چینیاں والی‘‘ کیوں کہا جاتا تھا۔ بہرحال اس مسجد سے متصل میرے اسکول کے ایک دوست کا گھر تھا۔ اس نے ہمیں اپنے گھر اپنی ماں کے پکے قیمے والے پراٹھے کھلانے کو بلایا تھا۔ میں جب اس گھر سے برآمد ہوا تو چاچا ہجرت اس مسجد میں جمعہ کی نماز ادا کرنے کے بعد باہر آ رہے تھے۔ انھوں نے مجھے دیکھا تو پہلے بزرگوں کی طرح تفتیش کرنے کے بعد جانا کہ میں وہاں کیوں موجود تھا۔ اس کے بعد گھر تک جانے کے لیے میرے ہمراہ چل پڑے۔ میں نے موقع سے فائدہ اُٹھا کر وہ سوال کر ڈالا جو بہت دنوں سے میرے دماغ پر سوار تھا: ’’آپ کو چاچا ہجرت کیوں کہتے ہیں‘‘۔

چاچا نے پہلے تو یہ کہہ کر جان چھڑانا چاہی کہ میری عمر ابھی ایسی باتوں کو سمجھنے کے قابل نہیں ہوئی۔ میں جرأت کے ساتھ اپنے سوال پر ڈٹا رہا تو انھوں نے بتایا کہ کسی زمانے میں لاہور کے علمائے کرام کی ایک بڑی تعداد نے یہ فتویٰ دیا تھا کہ برطانیہ کے زیر تسلط بھارت مسلمانوں کے رہنے کے قابل نہیں رہا۔ انھیں کسی آزاد مسلم ملک چلے جانا چاہیے۔ چاچا ہجرت نے ان کے حکم پر عمل کیا اور اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ لاہور چھوڑ کر ایک طویل اور مشکلات بھرے سفر کے بعد افغانستان چلے گئے۔ یہاں تک ان کی بات میں کافی سمجھ چکا تھا۔ فطری طور پر اب یہ جاننا بھی ضروری تھا کہ وہ پھر واپس کب اور کیوں لوٹے۔ یہ کہتے ہوئے میں نے یہ بھی فرض کر لیا کہ شاید وہ 1947 میں پاکستان کے قیام کے بعد لاہور لوٹ آئے ہوں گے۔ ایسا مگر ہرگز نہ ہوا تھا۔ انھوں نے خود کچھ نہ بتایا۔ ’’بس آنا پڑا‘‘ کہہ کر خاموش ہو گئے۔ مگر بعد ازاں میری جستجو نے دریافت کیا کہ ان کے ساتھی افغانستان میں بڑی مشکلوں میں گھرے رہے۔ چند ایک کو ’’خطرناک‘‘ قرار دے کر اس وقت کی افغان حکومت نے برطانیہ کے حوالے کر دیا۔ چاچا کو اپنی جان کے لالے پڑ گئے۔ بڑی مشکلوں سے چھپتے چھپاتے وہ بالآخر لاہور لوٹ آنے میں کامیاب ہوئے۔

چاچا ہجرت نے جب لاہور چھوڑا تو ان کا ایک شیر خوار بیٹا اور اس سے ذرا بڑی ایک بیٹی بھی تھی۔ ان کا سسرال ایک معقول آمدنی والے کاروباری افراد پر مشتمل تھا۔ انھوں نے سمجھا کہ چاچا ان کی بیٹی اور اپنی اولاد کو چھوڑ کر بھاگ گیا ہے۔ وہ ان کو اپنے ہاں لے آئے۔ اب ان کے بیٹے کی لاہور کے صرافہ بازار میں ایک کافی بڑی دکان تھی اور پاس کے محلے میں ایک چار منزلہ بہت کشادہ مکان بھی۔ اس نے چاچا ہجرت کو رہنے کے لیے ایک فضول سا کمرہ دے رکھا تھا۔ چاچا ہجرت کے بیوی اور بچے ان سے کوئی بات چیت نہیں کرتے تھے، بس ان کے کمرے میں کھانا بھجوا دیتے اور پہننے کے لیے ان کے بیٹے کے استعمال شدہ کپڑے۔ ان کا اپنا کوئی ذریعہ آمدن نہ تھا۔ وہ دراصل میرے باپ جیسے پرانے شناسائوں کے ہاں اپنی تنہائی دور کرنے اور وقتاََ فوقتاََ روزمرہ ضرورت کے کچھ پیسے لینے آیا کرتے تھے۔ چاچا ہجرت تنہائی اور مجبوری کی گویا ایک مجسم تصویر تھے۔

بہت عرصے کے بعد مجھے یہ علم ہوا کہ چاچا ہجرت جیسے ہزاروں نہ سہی سیکڑوں لوگ ان دنوں افغانستان چلے گئے تھے اور ان کی بے پناہ اکثریت مرتے دم تک دُکھی رہی۔ اس بات پر شرمندہ بھی کہ انھوں نے افغانستان جانے کا فیصلہ کیوں کیا۔ میرے کالج کے دنوں میں ہمارے اخبارات ایسی خبروں سے بھرے ہوتے تھے جن میں بتایا جاتا کہ افغانستان پاکستان کا دشمن ملک ہے۔ اس نے پاکستان کی اقوام متحدہ کی رکنیت پر اعتراض اُٹھایا تھا۔ ہمارے پشتون علاقوں کو ہتھیا کر پختونستان بنانا چاہتا ہے۔ اس کے ایجنٹ اس وقت کے صوبہ سرحد میں آئے روز دھماکے کرتے رہتے ہیں۔ خان عبدالولی خان کی پارٹی اس کی حامی ہے۔ اسی لیے اسے کالعدم قرار دے کر اس کے رہنمائوں کو حیدر آباد جیل میں ڈال کر ان پر غداری کے مقدمات چلائے جا رہے ہیں۔

مگر پھر جنرل ضیاء الحق تشریف لائے۔ انھوں نے حیدر آباد ٹربیونل ختم کر کے ولی خان کو رہا کر دیا اور افغانستان کے صدر دائود سے دوستی کی کوششیں شروع کر دیں۔ اپریل 1978 میں مگر وہاں ’’انقلابِ ثور‘‘ ہو گیا۔ ’’انقلابیوں‘‘ نے ایک دوسرے کے گلے کاٹنا شروع کر دیے اور دستمبر 1979 میں وہاں کمیونسٹ روس کی فوجیں آ گئیں۔ جنرل صاحب جنھوں نے اپنے لوگوں کو پھانسیاں دے کر اور کوڑے لگا کر بے بس غلام بنا رکھا تھا افغانستان کو آزاد کرانے کے جہاد میں مشغول ہو گئے۔ آج کل جو حضرات دن رات اُٹھتے بیٹھتے جنرل مشرف کو ایک ’’پرائی جنگ‘‘ پاکستان پر مسلط کرنے کا ذمے دار ٹھہراتے ہیں کبھی یہ اخلاقی جرأت نہیں دکھاتے کہ کھلے دل سے یہ اعتراف بھی کر ڈالیں کہ ضیاء الحق بھی ایک ’’پرائی جنگ‘‘ میں اُلجھا تھا۔ اس جنگ کو یہ حضرات ’’پرائی‘‘ کہیں تو کیسے کہیں کہ ’’افغان جہاد‘‘ کے طفیل وہ اب مساجد کے حجروں میں نہیں قلعہ نما گھروں میں رہتے ہیں۔ ان کے پاس Delux جیپیں ہیں جن کے آگے پیچھے جدید اسلحے سے لیس محافظوں کی گاڑیاں چلتی ہیں۔ ہمارا بے باک اور مستعد میڈیا ان سے کوئی سخت سوال کرنے کی جرأت نہیں کرتا۔ اپنی اوقات میں رہتا ہے۔

ضیاء الحق کی بھڑکائی جنگ کے ذریعے غازی اور ’’فاتح افغانستان‘‘ بنے مولانا حضرات اور ان کے سرپرست ریٹائرڈ جرنیل اب ہمیں بہت برسوں سے سمجھا رہے ہیں کہ پاکستان میں دہشت گردی صرف اسی صورت ختم ہو سکتی ہے کہ جب امریکا افغانستان سے نکل جائے۔ گویا امریکا کو افغانستان سے نکالنا ’’پرایا‘‘ نہیں ہمارا اپنا مسئلہ بن گیا ہے۔ بدقسمتی سے امریکا ہماری تقریروں، پارلیمان کی قراردادوں اور ٹی وی پر دھانسو سیاپے سے تو افغانستان نہیں چھوڑے گا۔ سنا ہے طالبان نے اس کی فوجوں کو اب اپنے جوشِ ایمانی سے وہ ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے۔ بڑی اچھی بات ہے۔ اللہ کرے ایسا ہی ہو۔ مگر امریکا جیسی طاقت کو ’’ہرانے‘‘ والے طالبان اب ہماری کمزور ریاست کی بات کیوں مانیں گے۔ کابل پر دوبارہ قبضہ جما لینے کے بعد انھیں تو اپنا ’’اسلام‘‘ اور پھیلانا ہو گا۔ بہتر ہے ابھی سے سر جھکا کر ان کی بات ماننا شروع کر دیں۔ حال ہی میں منعقد ہونے والی کل جماعتی کانفرنس نے بھی یہی پیغام دیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔