سیاسی جماعتوں کی قربانی

ڈاکٹر توصیف احمد خان  منگل 17 ستمبر 2013
tauceeph@gmail.com

[email protected]

کراچی کے شہریوں کا گزشتہ ہفتے ایک دن پھر ضایع ہوا۔ گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد ایوانِ صدر سے چھٹی لے کر دبئی چلے گئے۔ سارا دن گورنر عشرت العباد کے استعفیٰ کی خبر گردش کرتی رہی۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار کی ٹیلی فون پر بات چیت کے بعد گورنر سندھ نے واپس آنے کا فیصلہ کیا۔ کراچی میں جیل میں فرائض انجام دینے والے ایک اور پولیس افسر کا قتل ہوگیا۔ ایک سال میں جیل کے قتل ہونے والے افسران کی تعداد 20 تک پہنچ گئی۔ حکومت نے غیر قانونی ہڑتالوں کے خلاف قانون سازی کا فیصلہ کرلیا ہے۔ کراچی میں گزشتہ 15 دن سے آپریشن جاری ہے۔ یہ آپریشن شہر کے مختلف علاقوں میں ہورہا ہے۔ پولیس ہر آپریشن کے بعد اپنی نئی کامیابیوں کا دعویٰ کرتی ہے۔ پولیس افسران کا کہنا ہے کہ رینجرز اور پولیس مشترکہ طور پر کارروائی کررہی ہے۔ کراچی پولیس کے نئے سربراہ شاہد حیات کا دعویٰ ہے کہ رینجرز اور پولیس کے مشترکہ آپریشن کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔

اس ماہ کے وسط میں جب وزیراعظم نواز شریف کی زیر قیادت کراچی کے امن و امان کے بارے میں آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی تھی تو متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا تھا کہ رینجرز مکمل اختیارات سے لیس ہو کر آپریشن کرے گی۔ پولیس رینجرز کے ساتھ مشترکہ حکمت عملی کے تحت فرائض انجام دے گی۔ تمام خفیہ ایجنسیاں اس آپریشن کی معاونت کریں گی۔ کہا جاتا ہے کہ پولیس رینجرز کے علاوہ ایف آئی اے، آئی بی، ایم آئی اور آئی ایس آئی بھی مشترکہ آپریشن میں شریک ہوں گے۔ پولیس، رینجرز اور خفیہ ایجنسیاں نادرا کے ڈیٹا بیس کے ذریعے سیاسی جماعتوں کے ان کارکنوں کو تلاش کررہی ہیں جن کا مجرمانہ ریکارڈ ہے۔ ایف آئی اے اس آپریشن میں پولیس اور رینجرز کی معاونت کررہی ہے ۔ اخبارات میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ہزاروں کارکنوں کا ریکارڈ اکٹھا کیا گیا۔ اس ریکارڈ کے مطابق بہت سے چھپے ہوئے افراد گرفتار ہوئے ہیں۔ شہر کے مختلف علاقوں میں مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔

کراچی میں کرائم رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ آپریشن سے پہلے مختلف سیاسی جماعتوں کے کارکن روپوش ہوگئے۔ ان کا کہنا ہے کہ رینجرز اور پولیس کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کرسکی ہے۔ مگر ایم کیو ایم اپنے خلاف آپریشن کی شکایت کررہی ہے۔ ایم کیو ایم کے رہنماؤں نے پہلے 11 ستمبرکو اپنے ایک سابق رکن اسمبلی کی گرفتاری کے خلاف شہر میں ہڑتال کرائی، پھر 13 ستمبر کو کراچی پریس کلب کے سامنے کئی گھنٹے تک مظاہرہ کیا ۔ اب وزیرداخلہ چوہدری نثار نے ایم کیو ایم کے سینیٹر بابر غوری کو یقین دہانی کرائی ہے کہ آپریشن میں کسی خاص جماعت کو نشانہ نہیں بنایا جائے گا۔ کراچی پولیس کے نئے سربراہ شاہد حیات کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کے سابق رکن اسمبلی ندیم ہاشمی کی جوائنٹ انٹروگیشن ٹیم JIT کی رپورٹ میڈیا کو جاری کردی جائے گی۔ اس رپورٹ سے یہ ظاہر ہوگا کہ ہاشمی پر لگائے گئے الزامات کی حقیقت کیا ہے۔ کراچی آپریشن میں ہونے والے مختلف آپریشن میں جوائنٹ انٹرو گیشن ٹیم کی رپورٹس ہمیشہ متنازعہ رہی ہیں۔

90 کی دہائی میں پولیس نے ایم کیو ایم کے کئی کارکنوں سے تفتیش کے دوران حاصل ہونے والی معلومات اخبارات کے لیے جاری کی تھی۔ ان میں سے ایک رپورٹ میں گرفتار افراد نے بھارت سے تربیت حاصل کرنے کا اعتراف کیا تھا۔ جے آئی ٹی کی ان رپورٹوں کی خوب تشہیر ہوئی تھی مگر جب پولیس نے ان افراد کے خلاف عدالتوں میں چالان پیش کیے، ان افراد نے عدالتوں کے سامنے پولیس اور خفیہ ایجنسیوں کے سیف ہاؤسز میں ہونے والے تھرڈ گریڈ کے تشدد کا الزام لگایا۔ جو کچھ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پولیس اس مواد کی سچائی کو ثابت کرنے کے لیے عدالتوں میں کوئی ثبوت پیش نہ کرسکی۔ اس طرح یہ لوگ رہا ہوگئے۔ فوجداری مقدمات کی پیروی کرنے والے وکلاء کا کہنا ہے کہ جے آئی ٹی اس وقت قائم ہوتی ہے، جب پولیس کے علاوہ دوسری خفیہ ایجنسیاں ملزمان سے تفتیش کرتی ہیں تو اس تفتیش کا مقصد ملزمان کے خلاف ثبوت اکٹھا کرنا ہوتا ہے۔ جے آئی ٹی رپورٹ کی تشہیر ملزمان یا سیاسی جماعتوں کا میڈیا ٹرائل بھی ہوتا ہے مگر ٹھوس ثبوت کے بغیر یہ تشہیر منفی ثابت ہوتی ہے۔

ماضی میں یہ تجربات ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ اس لیے اب پولیس کو ٹھوس ثبوت تلاش کرنے چاہئیں۔ محض تفتیش کی تشہیر سے بنیادی مقصد حاصل نہیں ہوسکتا۔ اب یہ طریقہ کار متروک ہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ ایم کیو ایم کو اپنے کارکنوں کی گرفتاریوں پر احتجاج اور ہڑتال کی حکمت عملی سے سخت تنقید کا سامنا ہے۔ غیر جانبدار مبصرین کا کہنا ہے کہ کسی فرد کی گرفتاری پر ہڑتال اور دباؤ قانونی عمل کو روکنے کے مترادف ہے۔اس سے شہر کی معاشی و سماجی تباہی یقینی ہوجائیگی۔ایم کیو ایم عدالتوں میں اپنے کارکنوں کا دفاع کرکے زیادہ موثر نتائج حاصل کرسکتی ہے۔ پورے شہر کو بند کرنے سے ہر شخص متاثر ہوتا ہے، اس طرح پورے ملک میں ایم کیو ایم کے حوالے سے ایک منفی فضا بنتی ہے۔ حکومت نے غیر قانونی ہڑتالوں کو روکنے کے لیے قانون سازی کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ ایک خوش آئند اقدام ہے مگر اس طرح کے قانون کی تیاری سے پہلے وکلاء اور سول سوسائٹی کے اراکین سے مشاورت ضروری ہے۔ اس قانون میں شہریوں کے بنیادی حقوق پر ضرب پڑسکتی ہے۔ انسانی حقوق کا عالمی منشور ہر شہری کو پرامن احتجاج کا حق دیتا ہے۔ پاکستان کے آئین نے عوام کے احتجاج کے حق کی توثیق کی ہے۔

احتجاج صرف اپنے خیالات کے اظہار کے لیے ہو تو قابل قبول ہے مگر دوسرے شہریوں کی زندگی مفلوج کرنا بنیادی قانون سے متصادم ہے۔یہ فسطائیت ہے ، اس طرح آپریشن کو شفاف بنانے کے لیے ضروری ہے کہ گرفتار ہونے والے تمام افراد کی فہرست جاری کی جائے جس میں تحریر کیا جائے کہ ان افراد کا پیشہ کیا ہے اور ان افراد کا کس جماعت سے تعلق ہے۔ اس فہرست کے اجراء سے کسی سیاسی جماعت کو یہ الزام لگانے کا موقع نہیں ملے گا کہ صرف اس کے کارکن گرفتار ہورہے ہیں۔ کراچی کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے سیاسی جماعتوں کو عملی طور پر برداشت کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور بڑے نقصانات برداشت کرنے ہوں گے۔ کراچی کے بیشتر علاقے بے امنی کا شکار ہیں۔ بڑی جماعت آپریشن سے زیادہ متاثر ہوگی۔ اگر سیاسی جماعتوں نے ماضی کی روش پر چلتے ہوئے اپنے کارکنوں کو آپریشن سے مستثنیٰ قرار دینے کی کوشش کی تو کراچی برباد ہوجائے گا۔ سیاسی جماعتوں کی قربانی کراچی کی روشنیاں بحال کردے گی۔ سیاسی جماعتوں کو قانون نافذ کرنے والے اداروں اور عدالتوں کو اپنے فرائض پورا کرنے کا موقع دینا چاہیے۔قانون شکنوں کا قلع قمع ہونا خود سیاسی جماعتوں کے حق میں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔