کیسی معافی؟

ایاز خان  منگل 17 ستمبر 2013
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

معین خان کے موقف سے میں سو فیصد متفق ہوں کہ وہ قوم سے کس بات کی معافی مانگیں۔ زمبابوے جیسی مضبوط ٹیم سے ون ڈے سیریز دو ایک سے جیتنا‘ ٹی ٹوئنٹی سیریز میں کلین سویپ اور ٹیسٹ سیریز کو ایک ایک سے ڈرا کرنا معمولی کارنامہ نہیں ہے۔ معین خان چونکہ زمبابوے کے خلاف اتنی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرنیوالی قومی کرکٹ ٹیم کے منیجر تھے اس لیے شائقین کا فرض تھا کہ وہ بڑی تعداد میں ایئر پورٹ جاتے اور انھیں پھولوں کے ہار پہناتے۔ مجھے اس بات پر بھی حیرت ہے کہ اتنی اچھی پرفارمنس دینے والی ٹیم کے کھلاڑیوں کو الگ الگ آنے کی کیا ضرورت تھی۔

مصباح الحق‘ احسان عادل اور سعید اجمل کی مجبوری تھی کہ انھوں نے چیمپئنز لیگ میں شرکت کے لیے ہرارے سے براہ راست بھارت جانا تھا‘ دیگر کھلاڑیوں نے ایسا کیوں کیا، اس کا جواب وہی دے سکتے ہیں۔ زمبابوین ٹیم کی مضبوطی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے ساتھ ٹیسٹ سیریز شروع ہوئی تو وہ ٹاپ ٹین ٹیموں میںشامل نہیں تھی۔ سیریز برابری پر ختم ہوئی تو وہ ناصرف ٹاپ ٹین ٹیموں میں شامل ہو گئی بلکہ بنگلہ دیش کو آخری نمبر پر دھکیل کر نویں نمبر پر بھی آ گئی۔ ٹیم پاکستان چوتھے سے چھٹے نمبر پر جا چکی ہے۔ پہلے ٹیسٹ میں یونس خان ناقابل شکست ڈبل سنچری نہ بناتے تو زمبابوے کی ٹیم رینکنگ میں اور اوپر اور قومی ٹیم مزید نیچے جا سکتی تھی۔

معین خان نے ایک اور کرم فرمائی بھی کی ہے۔ وہ کہتے ہیں بورڈ نے آیندہ بھی کوئی ذمے داری دی تو اسے بخوشی قبول کر لیں گے۔ موصوف فرماتے ہیں ملک نے انھیں بہت کچھ دیا اس لیے اسے کچھ لوٹانا چاہتے ہیں۔ انھیں فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں‘ موجودہ سیٹ اپ میں ان کے لیے کچھ نہیں بلکہ بہت کچھ ہے۔ کرکٹ بورڈ ان کی خدمات سے بھرپور فائدہ اٹھائے گا۔ قومی ٹیم کی کارکردگی پر تنقید کے حوالے سے نجم سیٹھی صاحب کے ری ایکشن سے بھی میں متفق ہوں۔ نگران چیئرمین پی سی بی کو عدالت سے اس بات کی اجازت مل جاتی کہ وہ معین خان کو چیف سلیکٹر بنا دیتے تو پھر انھیں ٹیم منیجر بنانے کی نوبت نہ آتی۔ ایک تنخواہ میں دو ذمے داریاں ویسے بھی زیادتی ہے۔ جتنے دام اتنا کام۔ سابق کرکٹرز کی تنقید پر انھوں نے کہا کہ یہ لوگ نوکریاں مانگتے ہیں۔ سارے کرکٹرز کے بارے میں یہ دعویٰ نہیں کیا جاسکتا البتہ کچھ ایسے ضرور ہیں جو نوکری ملتے ہی اپنی زبان بند کر لیتے ہیں۔ معین خان نے منیجر مقرر ہونے پر کہا تھا کہ ٹیم کے سب سے بڑے ناقد وہ خود ہوں گے مگر اب… خیر شعیب بن عزیز نے ایسے ہی موقعوں کے لیے کہا ہے:

اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں

ٹیم کی پرفارمنس پر بات پہلے بھی ہو چکی ہے فی الوقت میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ انفرادی کارکردگی دورہ زمبابوے کے دوران ضرور نظر آئی البتہ ٹیم ورک کی کمی تھی۔ راحت علی دوسرے ٹیسٹ میں پرفارم کر گئے لیکن ان کی طرف سے اتنی وکٹیں لینے کا ٹیم کو کیا فائدہ ہوا؟ وہ زمبابوے کو ڈیڑھ سو رنز پر آؤٹ کر کے 5 وکٹیں لیتے تو پاکستان دوسرا ٹیسٹ بھی جیت جاتا۔ خرم منظور نے دونوں اننگز میں ففٹیاں کیں لیکن ان کا بھی ٹیم کوفائدہ نہیں ہوا۔ یونس خان نے ڈبل سینچری بنائی تو پاکستان میچ جیت گیا۔ بڑا پلیئر وہی ہوتا ہے جو پرفارم کرے تو ٹیم جیت جائے۔ مجھے تاریخ اور سال تو یاد نہیں لیکن دورۂ ویسٹ انڈیز کا ایک ٹیسٹ اس حوالے سے ذہن میں پوری طرح محفوظ ہے جس میں قومی ٹیم کی طرف سے گریٹ بیٹسمین جاوید میانداد نے سنچری بنائی تھی۔ ویسٹ انڈیز کی طرف سے رچی رچرڈسن نے بھی سنچری بنائی۔ سنچریاں تو دونوں طرف سے بن گئیں۔ یہ سنچریاں بنائی بھی پہلی اننگز میں گئیں لیکن پاکستان ڈیڑھ سو رنز کے قریب لیڈ لے گیا۔

اس کی واحد وجہ یہ تھی کہ جاوید میانداد نے ناصرف خود سنچری بنائی بلکہ دیگر کھلاڑیوں کو بھی کریز پر کھڑا ہو کر گائیڈ کرتے رہے۔ رچی رچرڈسن وکٹ پر آئے‘ انھوں نے مار دھاڑ کی‘ سنچری بنائی اور آؤٹ ہو کر چلے گئے۔ اس طرح وہ خود تو اسکور کر گئے لیکن ٹیم بڑا ٹوٹل نہیں بنا سکی۔ گریٹ اور ایک عام پلیئر میں یہی فرق ہوتا ہے۔ ٹیم ورک بھی اسی کو کہتے ہیں۔ موجودہ قومی ٹیم میں مصباح الحق اور یونس ہی دو ایسے بیٹسمین ہیں جو کریز پر کھڑے ہوں تو باقی بلے بازوں سے بھی اسکور کرا لیتے ہیں۔ دیگر کھلاڑی اپنی جگہ پکی کرنے کے چکر میں رہتے ہیں‘ پھر کلاس میں بھی فرق ہے۔ میرا خیال ہے پروفیسر حفیظ کی ٹیسٹ کرکٹ ختم ہو گئی ہے۔ اظہر علی واحد ففٹی اور اسد شفیق کی بدترین پرفارمنس کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ انھیں مزید چانس دینا چاہیے کیونکہ یہ دونوں اچھے بیٹسمین ہیں۔ اظہر کو اوپن کرا کے اگر عمر اکمل کو ون ڈاؤن پوزیشن میں آزمایا جائے تو بہتر رزلٹ مل سکتا ہے۔ اظہر کے بارے میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ وہ بہت زیادہ دفاعی انداز اختیار کر کے بولر کو خود پر حاوی ہونے کا موقع دیتے ہیں۔

عمر اکمل میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ اپنے اسٹروک پلے سے مخالف ٹیم کے بولروں کو پریشان کر سکتے ہیں۔ سری لنکا اور جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز میں چونکہ وکٹیں ہم نے خود بنائی ہیں اس لیے فاسٹ باؤلنگ کے حوالے سے زیادہ پریشانی کی ضرورت نہیں۔ ان سیریز کے بعد ہمیں اس شعبے پر ضرور توجہ دینا پڑے گی۔ ساتویں یا آٹھویں نمبر پر ایک مستند آل راؤنڈر کی بھی ضرورت ہے۔ ان سب سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ ٹیم کی سلیکشن میرٹ پر کی جائے۔ کوٹہ سسٹم کے تحت چنی جانے والی ٹیم کا وہی حشر ہوتا ہے جو زمبابوے میں ہوا۔ ون ڈے اور ٹیسٹ کے لیے فی الحال مصباح الحق کو ہی کپتان رہنے دیا جائے تو بہتر ہو گا۔ بہت زیادہ تبدیلیاں کی گئیں تو کہیں ہاکی ٹیم والا حشر نہ ہو جائے۔

میرے ایج گروپ کے نوجوانوں کو یقیناً یاد ہو گا کہ جب آسٹرو ٹرف آئی تو ہمارے ہاکی کے کرتا دھرتائوں نے سینئر پلیئرز کو فوری ریٹائر کر دیا تھا۔ ان کا موقف تھا کہ آسٹرو ٹرف پر کھیلنے کے لیے نوجوان خون کی ضرورت ہے۔ انھوں نے نوجوان کھلاڑیوں کو ٹیم میں شامل تو کر لیا لیکن قومی ہاکی کی تباہی کی بنیاد رکھ دی۔ نوجوان کھلاڑیوں کو ٹیم میں ضرور شامل کرنا چاہیے لیکن سینئر پلیئرز کی موجودگی میں تاکہ وہ ان کے تجربے سے فائدہ اٹھا سکیں۔ ٹیلنٹ کی اہمیت اپنی جگہ لیکن تجربے کا کوئی متبادل نہیں ہوتا۔ مجھے یاد ہے آسٹریلین ہاکی پلیئر چارلس ورتھ ہمارے سینئرز کی ریٹائرمنٹ کے برسوں بعد تک کھیلتا رہا۔ ان برسوں میں اس کے سر کے بال اڑ گئے لیکن اس کے کھیل اور چستی پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ آسٹریلیا‘ ہالینڈ اور جرمنی کے کئی دیگر کھلاڑی بھی تا دیر اپنے ملکوں کی نمائندگی کرتے رہے۔

معین خان سمیت کسی کو بھی قوم سے معافی مانگنے کی ضرورت نہیں۔ سری لنکا اور جنوبی افریقہ سے ہار جائیں تب بھی نہیں۔جاتے جاتے صرف یہ عرض کرنا چاہتا ہوں‘ خیال رکھیں کہیں قوم آپ سے پکی پکی معافی نہ مانگ لے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔