پی ٹی آئی کے ناراض رہنماؤں کی تنقید حکومتی ساکھ متاثر کرنے لگی

رضوان آصف  بدھ 31 جولائی 2019
تحریک انصاف کے اہم ترین رہنماؤں کی ناراضگیاں بھی کھل کر سامنے آرہی ہیں۔

تحریک انصاف کے اہم ترین رہنماؤں کی ناراضگیاں بھی کھل کر سامنے آرہی ہیں۔

 لاہور:  پاکستان تحریک انصاف حکومت میں آنے کے بعد آج بھی مضبوط اور منظم سیاسی پارٹی بننے کی بجائے بے قابو ہجوم کی مانند دکھائی دے رہی ہے۔

عمران خان وزیر اعظم بننے کے 11 مہینے بعد بھی ’’بقاء‘‘ کی جنگ میں مصروف ہیں اور ان کی حکومت کے5 برس مکمل ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ ایک اہم عہدے کی ’’توسیع‘‘ کے فیصلے سے جڑا ہوا ہے۔غیر ملکی دورے تو کامیاب رہے لیکن ملکی معیشت میں کوئی واضح سدھار نظر نہیں آرہا ہے۔کسی حکومت کی مقبولیت کا گراف جاننے کیلئے جتنے بھی اشاریے ہوتے ہیں وہ تمام نیچے جا رہے ہیں اور ایسی صورتحال میں تحریک انصاف کے اہم ترین رہنماؤں کی ناراضگیاں بھی کھل کر سامنے آرہی ہیں۔ روٹھے ہوئے رہنماوں کے شکوے شکایات اور انکشافات حکومت کی ساکھ کو مزید کمزور کر رہے ہیں۔

دوسری جانب تحریک انصاف کے رہنما، ٹکٹ ہولڈرز اور کارکن اپنی حکومت کے وزراء اور بیوروکریسی کے رویے اور عدم تعاون سے شدید مایوس ہو کر روٹھے ہوئے ہیں۔ دو روز قبل اعجاز چوہدری کی رہائشگاہ پر گفتگو کرتے ہوئے گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے بھی یہ شکوہ کیا تھا کہ بیوروکریسی کا رویہ تحریک انصاف کے رہنماوں اور کارکنوں کے ساتھ اچھا نہیں ہے۔ ملک بھر میں سینکڑوں کی تعداد میں ایسے رہنما موجود ہیں جنہیں حکومتی عہدے ملنا چاہیے تھے اور وہ حکومت کیلئے بہت فائدہ مند ثابت ہوتے لیکن اکثریتی حکومتی عہدے میرٹ کی بجائے سفارش اور ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر بانٹے جا رہے ہیں اور اہم ترین عہدوں پر ایسے لوگ تعینات ہو رہے ہیں جن کے پاس اس عہدے کے مطابق نہ تو ذہنی استعداد ہے اور نہ ہی وہ اس کے اہل ہیں۔ ان سب معاملات کی وجہ سے بھی تحریک انصاف میں ناراضگیاں بڑھ رہی ہیں۔

2018 ء میں ہونے والے عام انتخابات سے 2 برس قبل عمران خان نے اسد عمر کو اپنی آنے والی حکومت کا وفاقی وزیر خزانہ نامزد کردیا تھا، یہ’’اعزاز‘ کسی دوسرے پارٹی رہنما کو حاصل نہیں ہوا تھا۔ عمران خان کو امید تھی کہ اسد عمر پاکستان کی معیشت کو تیزی کے ساتھ بلندی پر لے جائیں گے گو کہ ایسا نہیں ہو سکا اور اس میں اسد عمر کا اتنا قصور نہیں جتنا بیان کیا جاتا ہے۔آئی ایم ایف پروگرام کے حوالے سے اسد عمر نے چند روز پہلے اپنی ایک تقریر میں انکشاف کیا ہے کہ میں آئی ایم ایف پروگرام لینے کے حق میں نہیں تھا کیونکہ معیشت بتدریج بہتر ہو رہی تھی اور سکوک بانڈز کے اجراء کے بعد صورتحال بہت بہتر ہو جاتی۔

میں نے وزیر اعظم کو ایک متبادل معاشی پلان سے بھی آگاہ کیا تھا لیکن معیشت کو مکمل تبدیل کرنے کا موقع سنسر کردیا گیا۔ اسد عمر کا یہ بیان حکومت کے موجودہ معاشی پلان کیلئے کافی بڑا دھچکا ہے کیونکہ یہ سمجھا جا رہا ہے کہ اگر واقعی آئی ایم ایف پروگرام لیئے بغیر صورتحال قابو میں آرہی تھی تو محض 6 ارب ڈالر کے پروگرام کی خاطر سخت ترین شرائط کو قبول کرنا کہاں کی عقلمندی تھی،اس فیصلے سے عمران خان کی فیصلہ سازی پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں۔اسد عمر سے جس انداز میں وزارت واپس لی گئی اس پر وہ خود بھی اور تحریک انصاف کے کارکن خوش نہیں ہیں گو کہ انہیں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا چیئرمین بنایا گیا ہے لیکن ناراضگی اور فاصلے بدستور قائم ہیں۔

عمران خان کیلئے دوسرا بڑا دھچکا ان کے بانی ساتھی حامد خان کا ایک ٹی وی چینل کو دیا گیا انٹرویو ہے جس میں حامد خان نے کہا ہے کہ تحریک انصاف تبدیلی کی جماعت کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کی جماعت بن چکی ہے اور ہم پر اسٹیبشلمنٹ کا مکمل کنٹرول ہو چکا ہے۔ حکومت بنانے کیلئے ہم نے ہر قسم کے لوگ قبول کر لیئے،تحریک انصاف میں شامل ہو کر کرپشن کرنے والوں کو درگزر کردیا جاتا ہے۔

حامد زمان نے مسلم لیگ کی قیادت کے خلاف کرپشن کیسز ہونے کے باوجود کارروائی نہ ہونے پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔حامد خان نئے آنے والوں کیلئے سخت رویہ رکھتے ہیں اور انہیں فصلی بٹیرے بھی قرار دیتے ہیں لیکن تحریک انصاف کا گزشتہ چند سالوں کا ماضی گواہ ہے کہ نئے آنے والے بعض رہنماوں نے پرانے رہنماوں سے کہیں زیادہ جدوجہد کی ہے۔ جہانگیر ترین اور عبدالعلیم خان سے کسی کے جتنے بھی اختلافات ہوں لیکن کوئی بھی فرد اس حقیقت کو مسترد نہیں کر سکتا کہ ان دونوں رہنماوں نے پارٹی کیلئے نہ صرف جسمانی طور پر محنت کی بلکہ پارٹی کیلئے بے پناہ مالی وسائل ایسے حالات میں خرچ کئے جب پرانے رہنماوں کی اکثریت جیب کو تالا لگا لیتی تھی۔

حامد خان نے پہلے انٹرا پارٹی الیکشن میں جہانگیر ترین کے سیکرٹری جنرل بننے کی راہ میں رکاوٹ پیدا کی، فوزیہ قصوری کو آوٹ کیا لیکن جہانگیر ترین تو کچھ عرصہ بعد ایک طاقتور سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے سامنے آئے جبکہ فوزیہ قصوری دلبرداشتہ ہو کر پارٹی چھوڑ کر چلی گئیں۔2013 ء کے الیکشن میں ڈیفنس کے علاقہ سے قومی اسمبلی کی ٹکٹ کے معاملے پر بھی حامد خان اور علیم خان کے درمیان تنازعہ پیدا ہوا، ٹکٹ تو حامد خان کو مل گئی لیکن الیکشن خواجہ سعد رفیق نے جیت لیا۔ تحریک انصاف کے دیگر ناراض رہنماوں میں جسٹس(ر) وجیہہ الدین، تسنیم نورانی جیسے نام بھی شامل ہیں جنہیں عمران خان سے کافی شکایات رہی ہیں۔

تحریک انصاف کی تنظیم سازی کے پہلے مرحلے میں صوبائی تنظیموں کا اعلان کیا جا چکا ہے لیکن یہ تنظیم سازی متنازعہ ہونے کی وجہ سے مزید ناراضگیوں کا باعث بن رہی ہے، پنجاب تنظیم میں ڈپٹی سیکرٹری جنرل گوجرانوالہ ڈویژن بنائے جانے والے عمر ڈار نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ عمرڈار کو شکوہ ہے کہ وہ مرکزی تنظیم میں ڈپٹی سیکرٹری جنرل رہ چکے ہیں اس کے بعد سنٹرل پنجاب کے صدر رہے ہیں لیکن اب انہیں ایک ڈویژن کی حد تک عہدہ دینا نا انصافی ہے۔ بادی النظر میں تو عمر ڈار کا شکوہ درست معلوم ہوتا ہے کہ جن عہدوں پر وہ رہ چکے ہیں۔

ان سے کمتر عہدہ دینا مناسب معلوم نہیں ہوتا لیکن تحریک انصاف کی تنظیم سازی کرنے والے رہنماوں کا موقف ہے کہ عمر ڈار کے بھائی عثمان ڈار کو وزیر اعظم کا معاون خصوصی بنایا جا چکا ہے لہذا عمر ڈار کو اپنے لئے بڑے عہدے کی ضد نہیں کرنا چاہئے۔ عمر ڈار کے استعفی کی اصل وجہ عمر مائر ہیں جن کا تعلق بھی سیالکوٹ سے ہے اور ان کی ڈار برادران سے زیادہ بنتی نہیں ہے، عمر مائر کو مرکزی تنظیم میں ڈپٹی سیکرٹری جنرل بنایا گیا ہے جس کی وجہ سے عمر ڈار ناراض ہوئے ہیں۔تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو اپنی جماعت میں بڑھتی ہوئی ناراضگیوں کو روکنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ جب تحریک انصاف کا ناراض رہنما حکومت پر تنقید کرتا ہے تو اس کاا ثر اپوزیشن کی تنقید سے زیادہ ہوتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔