بارش کے بعد کراچی کی سڑکوں کا حال

حرا نثار  جمعرات 1 اگست 2019
بارش کے بعد کراچی کی سڑکیں ندی نالوں کا منظر پیش کررہی ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

بارش کے بعد کراچی کی سڑکیں ندی نالوں کا منظر پیش کررہی ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

آج کل ملک میں مون سون بارشوں کا سلسلہ جاری ہے۔ خلیج بنگال کی طرف سے بارش برسانے والے سسٹم نے جب سندھ کا رخ کیا تو کراچی میں بھی موسلادھار بارشوں کا سلسلہ شروع ہوگیا اور دو دن شہر بھر میں موسلادھار بارشیں ہوتی رہیں۔

ان بارشوں کے متعلق محکمہ موسمیات کی جانب سے گزشتہ دنوں کراچی میں طوفانی بارشوں کا الرٹ بھی جاری کردیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود انتظامیہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔

کراچی جو کہ پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے جہاں کی آبادی تقریباً دو کروڑ ہے اور حیران کن بات یہ ہے کہ دو کروڑ کی آبادی والے اس شہر میں انتظامی معاملات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ کراچی میں چند ملی میٹر بارش ہوتی ہے اور شہر دریا کا منظر پیش کرنے لگتا ہے، تاحدِ نگاہ پانی ہی پانی نظر آتا ہے۔ سنا ہے بارش رحمت ہوتی ہے لیکن کراچی والوں کےلیے یہ ہمیشہ زحمت کیوں بن جاتی ہے؟

صرف دو دن کی بارش نے کراچی میں نظامِ زندگی درہم برہم کرکے رکھ دیا۔ شہر کی سڑکیں تالاب کا منظر پیش کررہی ہیں۔ روڈ پر گاڑی چلانا مشکل ہے۔ وہ گاڑیاں جو لوگ محنت سے پیسے کما کر خریدتے ہیں، پانی میں ڈوب کر ناکارہ ہورہی ہیں۔ کئی علاقوں میں بجلی کی فراہمی دو دو، تین تین دن سے معطل ہے۔ شہر میں سیلاب کے باعث ٹریفک کا نظام بھی شدید متاثر ہے۔ اور یہ ساری صورتحال کراچی میں صرف دو دن جاری رہنے والی بارش کے باعث پیش آئی۔

موسلادھار بارشوں کے نتیجے میں شہر کی پہلے سے ٹوٹی پھوٹی سڑکیں مزید ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئی ہیں۔ بارش کا پانی جمع ہونے کے باعث بیشتر علاقوں میں سڑکیں اور سیوریج کی لائنیں دھنس گئی ہیں۔ شہر کے قبرستانوں میں بھی نالوں کا گندا پانی داخل ہوگیا۔ مسجدوں کے اندر بھی نالوں کا گندا اور ناپاک پانی پہنچ گیا، اس سب کے باوجود انتظامیہ کا کچھ اتا پتہ نہیں ہے۔

حکومت کی جانب سے کراچی میں اربن فلڈ وارننگ تو جاری کردی گئی، لیکن سیلابی صورتحال سے نمٹنے کےلیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے اور بارشوں کے بعد ہونے والی تباہی نے شہری حکومت کی کارکردگی کا پول کھول دیا۔ حکومت کے سارے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومتی ادارے جو برسوں سے کام کر رہے ہیں، انھوں نے آخر اب تک قدرتی آفات سے نمٹنے کےلیے کوئی بنیادی ڈھانچہ کیوں تیار نہیں کیا؟ اگر شہر میں چند ملی میٹر بارش ہوجائے تو اس کو کس طرح سنبھالنا ہے؟ کیوں ہر بار انتظامیہ کی جانب سے بے بسی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے؟

بارش کے بعد کراچی کی سڑکیں وینس کا منظر پیش کرنے لگیں، جہاں گاڑیاں تو نہیں کشتیاں چلائی جانی چاہئیں۔

کراچی وہ شہر ہے جو وفاق کو 60 فیصد سے زائد آمدنی دیتا ہے۔ صرف سندھ کی بات کی جائے تو سندھ حکومت کو چار سو ارب روپے دینے والا یہ شہر جس کا کوئی پرسان حال نہیں۔ اس شہر کے مقدر میں صرف یہ رہ گیا ہے کہ نہ تو پینے کو پانی ملتا ہے اور نہ جینے کو زندگی۔ اگر پینے کو پانی نہیں ملتا تو جو پانی بارش سے آرہا ہے وہ زندگی چھین لیتا ہے۔

حالیہ بارشوں کے بعد شہر میں تقریباً بیس افراد مختلف واقعات میں اپنی جانیں گنوا بیٹھے، جن میں چار بچے بھی شامل ہیں۔ ہلاک ہونے والوں میں نو سال بعد منتوں و مرادوں کے بعد پیدا ہونے والا عمر بھی شامل ہے۔ حکومت کی کاہلی اور سستی نے کتنے گھروں میں صف ماتم بچھادی۔

کراچی میں نکاسی آب کے بارے میں بات کی جائے تو کراچی میں سیلابی پانی کی نکاسی کا نظام سرے سے موجود ہی نہیں ہے، جو برساتی نالے موجود بھی تھے وہ بھی تجاوزات کی زد میں آگیے۔ اس کے علاوہ پانی کے بہاؤ کا ایک قدرتی نظام بھی ہوتا ہے لیکن انسانی سرگرمیوں کے باعث وہ قدرتی نظام بھی درہم برہم ہوچکا ہے۔

کراچی کو زمینی ساکھ کے لحاظ سے دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ جس میں کراچی کا شمال اور مغربی حصہ پہاڑی علاقوں اور جنوب اور مشرقی حصہ ساحلی علاقوں پر مشتمل ہے۔ سیلابی پانی کو سمندر تک لے جانے کےلیے کراچی میں ملیر اور لیاری ندی بہتی ہیں، جن میں پانچ سو قدرتی اور انسان کے بنائے گئے ندی نالے گرتے ہیں۔ لیکن پھر ایک وقت آیا جب اس قدرتی نظام کے راستے میں کراچی کی بڑھتی ہوئی آبادی نے رکاوٹ کھڑی کردی۔ ایک اندازے کے مطابق کراچی کی آبادی کا ساٹھ فیصد حصہ کچی آبادی پر مشتمل ہے اور شہر کا ساٹھ فیصد گند، جس میں زیادہ تر حصہ کچرے کا ہے، ان ندی نالوں میں جاتا ہے، جو پانی کی روانی میں رکاوٹ پیدا کرتا ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ ان ندی نالوں کی صفائی پر شہری اور صوبائی حکومتوں کی کوئی توجہ نہیں ہے۔ ان اداروں سے ہمیں صرف وہی روایتی الزام تراشیاں سننے کو ملتی ہیں کہ ’یہ اس کا کام نہیں یا اُس کا کام ہے، اس کے پاس فنڈز نہیں ہیں وغیرہ‘۔

شہر کے ان ندی نالوں پر حکومتی اختیارات کو دیکھا جائے تو شہر کے تقریباً 35 نالے، جن میں گُجر نالہ، نہر خیام، اورنگی نالہ اور سٹی نالہ وغیرہ شہری حکومت، یعنی کے ایم سی کے تحت ہیں، جبکہ باقی چار سو سے زائد نالے ڈی ایم سی کے اختیار میں آتے ہیں۔

کراچی میں بارش کے دوران جب میئر کراچی کو تلاش کیا جانے لگا تو وہ بارش انجوائے کرتے اور ہوٹل پر چائے پیتے ہوئے دکھائی دئیے۔ وزیر بلدیات کراچی سے جب رابطہ کیا گیا تو ان کے مطابق کراچی میں ندی نالوں کی صفائی ان کی ذمے داری نہیں ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے باوجود انھوں نے کے ایم سی اور ڈی ایم سی کے ساتھ ندی نالوں کی صفائی میں ان کی مدد کی ہے۔

کراچی میں اختیارات کا یہ جھگڑا تو پتہ نہیں کب سے جاری ہے اور کب تک چلتا رہے گا لیکن ابھی جو کراچی کی صورتحال ہے اس پر صرف اتنا کہا جاسکتا ہے کہ کراچی میں صرف آسمان سے پانی نہیں برسا بلکہ لوگوں کی آنکھوں سے بھی پانی برس رہا ہے۔

کراچی میں بارش تو تھم گئی لیکن بارش کا پانی سیلاب کی صورت میں اب تک سڑکوں پر موجود ہے۔ شہر کے بیشتر علاقوں میں پانی لوگوں کے گھروں میں بھی داخل ہوگیا۔ کچھ علاقوں میں گھروں میں چھ چھ فٹ تک پانی جمع ہے۔ سپرہائی وے پر سیلاب کا پانی مویشی منڈیوں کو بری طرح سے متاثر کررہا ہے۔ اس کے علاوہ کئی علاقوں میں بجلی کی فراہمی اب تک بحال نہ ہوسکی۔

مون سون کی پہلی بارش نے کراچی میں تباہی مچادی، حکومت نے اس کا نوٹس اس طرح لیا کہ سندھ کے تمام تعلیمی اداروں کو بارش کے پیشِ نظر منگل 30 جولائی کو بند رکھنے کا فیصلہ کیا اور منگل کو ہونے والے تمام پرچے بھی ملتوی کر دیئے۔ جو کہ ایک اچھا فیصلہ تھا، کیونکہ کراچی کی سڑکوں کی جو صورتحال ہے اس میں طلبا تعلیمی اداروں تک پہنچنے کےلیے کشتیاں کہاں سے لاتے؟

دو دن گزرنے کے بعد حکومت کو تھوڑا بہت ہوش آیا تو نالوں کی صفائی کا کام شروع کیا گیا۔ شہر میں سیلابی صورتحال سے نمٹنے کےلیے پاک فوج کا سہارا بھی لینا پڑا۔ محکمہ موسمیات کی جانب سے کراچی میں مون سون سیزن کی مزید بارشوں کی پیشگوئی کی جارہی ہے۔

اگر حکومت اجازت دے تو کیا اب تھوڑا گھبرا لیا جائے؟ شہری حکومت اور صوبائی اور وفاقی حکومت کو ہنگامی طور پر کراچی میں مزید بارشوں سے پہلے اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ آئندہ اس طرح کی صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔