احتساب کا احتساب

واصب امداد  جمعـء 2 اگست 2019
ایک بزرگ استاد اور صحافی کو آدھی رات گھر سے تقریباً گھسیٹتے ہوئے لے جایا گیا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ایک بزرگ استاد اور صحافی کو آدھی رات گھر سے تقریباً گھسیٹتے ہوئے لے جایا گیا۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

عرفان صدیقی پر بہت کچھ لکھا جاچکا۔ سب نے دیکھا کہ کس انداز سے ان کی گرفتاری عمل میں آئی اور کس انداز سے ان کی مین اسٹریم اور سوشل میڈیا پر تصاویر اور بعد ازاں شدید عوامی ردِعمل آنے کے بعد اتوار کو انہیں رہا کیا گیا۔ وہ جج صاحب، جنہوں نے عرفان صدیقی کے جرم کو ناقابلِ ضمانت قرار دے کر انہیں 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجا تھا، خلافِ معمول اگلے ہی دن سائل کے وکلا کی عدم موجودگی میں فیصلے پر نظرثانی کرکے رہائی کا پروانہ جاری کیا۔

ذہن میں کئی طرح کے سوال ابھرے۔ ضابطہ کرائے داری پر آج تک کتنی گرفتاریاں ہوئیں؟ ایسی کیا افتاد آن پڑی تھی کہ ایک بزرگ استاد اور صحافی کو آدھی رات گھر سے تقریباً گھسیٹتے ہوئے لے جایا گیا؟ جج صاحب نے ایک دن کیا سوچ کر پابندِ سلاسل کیا اور اگلے دن کس نے عرفان صدیقی کی رہائی کےلیے دباؤ ڈالا؟ کیا ایک دن میں عرفان صدیقی کا جرم چھوٹا ہوگیا؟ کیا فیصلے ان پر آنے والے ردِعمل سے تبدیل بھی ہوسکتے ہیں؟ ان سوالوں کے جوابات پھر کبھی سہی۔ عمران سیریز کی اس تازہ قسط پر لوگوں کی رائے دیکھ کر یہ بات واضح ہوگئی کہ عوام حقیقی معنوں میں احتساب چاہتے ہیں، انتقام نہیں۔ اس بوڑھے استاد کی تضحیک ہر پاکستانی نے محسوس کی۔

یہ تو عرفان صدیقی تھے جن کے ساتھ ہونے والے سلوک پر پورا پاکستان بول اٹھا۔ اس پولیس گردی کے نجانے کتنے بے گناہ لوگ روزانہ کی بنیاد پر شکار ہوتے ہوں گے، جن کی نہ خبر آتی ہے نہ سوشل میڈیا پر ان کی تصاویر وائرل ہوتی ہیں۔ اس وقت بھی وہ کسی کال کوٹھڑی میں بیٹھے اپنی غلط وقت میں غلط جگہ لانے والی قسمت کو کوس رہے ہوں گے۔

خان صاحب کہا کرتے تھے کہ اس ملک کی پولیس ٹھیک کردو تو یہ ملک خودبخود ٹھیک ہوجائے گا۔ ویسے خان صاحب کہا تو بہت کچھ کرتے تھے اور بہت سے کمزور دل حضرات نے اب ان کی بہت سی باتوں کو سنجیدہ لینا چھوڑ دیا ہے۔ ہر وقت چور ڈاکو کی رٹ لگانے والے وزرا کیا یہ بتائیں گے کہ وہ پولیس اصلاحات جو کبھی آنی تھیں، ان کی حالیہ پوزیشن کیا ہے؟ کون سی کمیٹی یا ٹاسک فورس اس پر کام کررہی ہے اور کب تک کرتی رہے گی؟ کمیٹی حتمی سفارشات مرتب کرکے کابینہ کے سامنے کب پیش کرے گی اور ان پر عمل کب ہوگا؟

کہا گیا تھا کہ جس دن حلف اٹھاؤں گا اگلے لمحے پولیس کو سیاسی دباؤ سے آزاد کیا جائے گا۔ کوئی بتائے کہ کیا رات کے ایک بجے 75 سالہ بزرگ، ساری زندگی قلم اور کتاب سے تعلق رکھنے والے شخص کو ایک ایسے مضحکہ خیز کیس میں اٹھانا، جِس کی مثال برصغیر پاک و ہند میں نہیں ملتی، سیاسی دباؤ کی بدترین مثال نہیں؟ ضابطہ فوجداری کے تحت کسی بھی ایسے شخص کو جو مزاحمت نہ کرے اور اپنے قول و فعل سے گرفتاری دینے کےلیے آمادہ ہو اس کے جسم کو چھونے تک کی اجازت نہیں ہے، ہتھکڑی لگانا تو پھر دور کی بات ہے۔ کسی زمانے میں ناصر درانی، جن کا نام خان صاحب نے انتخابی مہم میں سب سے زیادہ بیچا تھا، انہیں پولیس ریفارمز کمیٹی کا چیئرمین لگایا گیا، جو کہ اچانک مستعفی ہوگئے اور اپنے ساتھ شاید پولیس ریفارمز کی کنجی بھی لے گئے۔

ملک میں کبھی حقیقی معنوں میں احتساب نہیں ہوا۔ ہمیشہ احتساب سے ذاتی عناد کا رنگ چھلکتا رہا۔ آپ چاہے پروڈا کی تلوار دیکھیں یا ایبڈو کے نشتر، نشانہ ہمیشہ سیاسی مخالفین رہے۔ ولی خان کو لگام ڈالنے کےلیے حیدرآباد سازش کیس ہو یا بھٹو کا نام مٹانے کےلیے ایک پرانی ایف آئی آر پر بنے عدالتی بینچ، بینظیر کے خلاف اے آر وائی گولڈ اور ایس جی ایس کوٹیکنا کے کیسز ہوں یا پھر نواز شریف پر طیارہ سازش کیس کا قیام ہو، زیرِ غضب ہمیشہ سیاسی حریف ہی آئے۔

عمران خان کو عوام نے مینڈیٹ ’کسی چور ڈاکو کو نہیں چھوڑوں گا‘ کے نعرے پر تو دیا، مگر اس بار کا احتساب خود خان صاحب کے اپنے ووٹر بھی انتقام سے آزاد دیکھنا چاہتے ہیں۔

قوم کو ابھی رانا ثناء اللہ کی گرفتاری بھی ہضم نہیں ہوئی۔ اے این ایف کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق جو چالان انہوں نے انسداد منشیات کی عدالت میں جمع کرایا، اس میں کہا گیا کہ رانا صاحب نے اقرارِ جرم کرلیا ہے۔ رانا صاحب کہتے ہیں کہ یہ بے بنیاد اور مضحکہ خیز دعویٰ ہے اور انہوں نے ہرگز ایسا نہیں کیا۔ ڈی جی اے این ایف اور شہریار آفریدی نے مہینہ قبل ایک پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ ہم نے جسمانی ریمانڈ کی نہیں بلکہ جوڈیشل ریمانڈ کی استدعا اس لیے کی کیونکہ تمام ثبوت بشمول ویڈیوز موجود ہیں، جنہیں بس عدالت میں پیش کرنا ہے۔ آج اس ریمانڈ میں توسیع پر توسیع ہورہی ہے، مگر 31 دن گزرنے کے باوجود کوئی ثبوت نہ تو جوڈیشل میجسٹریٹ، نہ ہی انسدادِ منشیات کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ ویڈیوز کہاں ہیں؟ کب سامنے آئیں گی؟ سونے پر سہاگہ یہ کہ پیش کردہ چالان بھی ابھی نامکمل ہے اور نامعلوم وجوہات کی بنا پر حکومت انسدادِ منشیات کی عدالت کے جج کو بھی سماعت سے پہلے تبدیل کرنا چاہتی تھی، جس کےلیے لاہور ہائی کورٹ کو خط لکھا گیا۔

حاصل بزنجو صاحب بھی اچانک نیب کے ریڈار پر آگئے ہیں اور ان کے خلاف نیب اور انسداد بدعنوانی کے ادارے نے تحقیقات تیز کردی ہیں۔ ذرائع کے مطابق ان کی ماربل فیکٹریوں اور خاندان کے افراد کی جائیدادوں کے حوالے سے تحقیقات ہورہی ہیں۔ کچھ ایسا ہی حال مولانا فضل الرحمان کا ہے، جنہیں حال ہی میں نیب کی جانب سے ایک نوٹس جاری ہوا ہے۔

سیاست میں ٹائمنگ سے اہم شاید ہی کوئی چیز ہو۔ احتساب میں انتقام کا کتنا عمل دخل ہے، یہ جاننے کےلیے کیسز کی ٹائمنگ کو دیکھنا ہوتا ہے۔ کس کے خلاف کب کیس بنا اور کب اس شخص کو سلاخوں کے پیچھے پھینکا گیا۔ حاصل بزنجو کے خلاف تحقیقات اچانک تیز تب ہوجاتی ہیں جب چیئرمین سینیٹ بننے کےلیے ان کا نام سامنے آتا ہے اور وہ حکومتی مخالفین کو ایک صفحے پر لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ رانا ثناء￿ اللہ بھی اچانک تب اٹھا لیے جاتے ہیں جب وہ انتہائی سرگرم انداز میں نواز شریف، مریم نواز اور شہباز شریف کے درمیان پل کا کردار ادا کررہے ہوتے ہیں۔ مولانا بھی ابھی ملین مارچ کےلیے مدارس کے بچوں کی گنتی کر ہی رہے ہیں کہ اچانک نیب کا نوٹس ان کے نام ارسال کردیا گیا۔ اسی طرح شاہد خاقان کے بارے میں بھی وزیرِاعظم کا یہ کہنا ’’بہت کہہ رہا تھا مجھے جیل میں ڈالو۔ لو ڈال دیا جیل میں‘‘ غور طلب ہے۔

ہاں دوسری طرف خسرو بختیار ہوں یا فیصل واوڈا، زلفی بخاری ہوں یا پرویز خٹک، نیب کی حکومتی کیسز میں اپنائی گئی خود ساختہ ’گو سلو‘ کی پالیسی کئی ماتھوں پر شکن کا باعث ہیں۔ زرتاج گل پر ایک اینکر کی جانب سے ایف آئی اے میں دائر کیا گیا مقدمہ راتوں رات اچانک ختم ہوجاتا ہے۔ بی آر ٹی پر بھی میڈیا اور شہری چیخ چیخ کر ہلکان ہوجاتے ہیں مگر کوئی ٹھوس حل نہیں نکلتا۔ یقیناً خان صاحب کو بھی کسی نے کہا ہوگا ’’خان صاحب فکر نہ کریں، لوگ بھول جائیں گے‘‘۔

خان صاحب سے التماس ہے، آپ احتساب کیجئے اور ضرور کیجئے۔ لیکن احتساب اور انتقام میں ایک ہلکی سی لکیر ہے، بس اسے پار نہ کرنے کا دھیان رکھا جائے۔ نہیں تو ملک کی تاریخ انتقام پر مبنی مقدمات سے بھری پڑی ہے۔ پھر آپ بھی باقیوں سے مختلف نہیں ہیں۔ ویسے بھی سیانے کہتے ہیں کہ جس مقدمے کی بنیاد ذاتی عناد ہو اس کا فیصلہ وقت کی عدالت کرتی ہے۔ اور پھر جب وقت کی عدالت اس احتساب کا احتساب کرتی ہے تو فیصلہ عموماً ’انتقامی‘ ہوتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

واصب امداد

واصب امداد

بلاگر میڈیا کے طالب علم ہونے کے ساتھ ریڈیو براڈ کاسٹر ہیں۔ ملکی سیاست اور انٹرنیشنل افیئرز میں دلچسپی کے ساتھ لکھنے کا بھی شوق ہے۔ ان سے ٹویٹر آئی ڈی wasib25@ پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔