اپنے اندر کی ایک اور بیماری

سعد اللہ جان برق  جمعـء 2 اگست 2019
barq@email.com

[email protected]

یہ بات تو ہم اپنے پڑھنے والوں کو کئی بار بتا چکے ہیں کہ ہم نہ تو نمک حرام ہیں اور نہ شکر حرام بلکہ اگر آسانی سے دستیاب ہو تو ’’حرام حرام‘‘ بھی نہیں ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہمیں اس پر کوئی فخر یا غرور ہے بلکہ اکثر دانا دانشوروں یا انٹیلکچول لوگوں کی مجلسوں میں شرمندہ بھی ہونا پڑتا ہے کیونکہ اس کا ایک مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ ہمارے آباء و اجداد نہایت فلاکت زدہ، بھوکے ننگے اور غریب یا چھوٹے لوگ تھے جو ساری عمر زمین الٹ پلٹ کرتے رہے، بوتے کاٹتے رہے اور ایک دن خود اپنے آپ کو بھی زمین میں ’’بو‘‘ گئے اور وہ بھی نہایت نکمے پن سے ورنہ وہ بھی تو اجداد تھے جو زمین میں دانے کی طرح گل و گلزار ہوئے اور نہایت ہی ثمربار مالدار صاحبان مزار ہوئے۔

خیر اپنے آباء و اجداد سے ہماری شکایت اپنی جگہ۔ کہ اپنے خون کی سرخی اور پسینے کی سفیدی سے کچھ بھی سرخ و سفید نہ کر سکے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہمارے اندر کوئی بیماری نہیں۔ ایک بہت بڑی بیماری ہے اور یہ خود ہماری اپنی کمائی ہوئی ہے، یہ بیماری کسی بھی بیماری کے بارے میں ’’سن یا پڑھ کر‘‘ اسے اپنے اندر دریافت کرنے کی بیماری ہے۔ چنانچہ اب تک ہم اپنے اندر کم از کم نو ہزار نو سو بیماریاں اخباروں، رسالوں، کتابوں اور ٹی وی اشتہاروں میں پڑھ پڑھ کر دریافت یا اپنے اندر ڈال چکے ہیں۔ لیکن اچھی بات یہ ہے کہ ان تمام بیماریوں کے علاج معالجے پر ہمارا کچھ خرچہ نہیں ہوتا کیونکہ اگلے دن کسی اور بیماری کے بارے میں پڑھنے کے بعد پچھلی بیماری خود بخود ٹھیک ہو کر نئی بیماری کے لیے جگہ خالی کر دیتی ہے۔

اس سلسلے کی تازہ ترین بیماری ابھی کل پرسوں ہی اس کے بارے میں پڑھ کر اپنے اندر دریافت کی ہے۔ اخبار میں لکھا تھا کہ کچھ لوگوں کو ’’چہرے نہ پہچاننے‘‘ کا عارضہ لاحق ہو جاتا ہے اور وہ اپنے قریبی رشتے داروں تک کے چہرے یاد رکھ نہیں پاتے حالانکہ پہلے ہم اسے صرف بڑے لوگوں  اچانک مالدار ہونے یا وزیر یا ممبر کونسلر یا افسر بننے والوں کی بیماری سمجھتے رہے تھے۔ لیکن اخبار میں لکھا تھا کہ وہ بڑے لوگوں کی بیماری سے یہ بیماری بالکل الگ قسم کی ہے۔

یہ بالکل کلربلائینڈ نس جیسی بیماری نہیں ہے یعنی ہم اسے چہرہ ناشاسی یا فیس بلائنیڈنس کا عارضہ کہہ سکتے ہیں۔ آپ یقین کریں کہ مضمون ختم ہونے سے پہلے پہلے ہی ہم اس بیماری کو تمام علامات سمیت اپنے اندر دریافت کر چکے تھے، پھر اچانک ہمیں ادراک ہوا کہ… اچھا تو یہ بات ہے؟ اس لیے ہم اکثر لوگوں کو نہیں پہچانتے کہ ہمیں چہرہ شناسی کی بیماری لاحق ہے جسے ہم لوگوں کے چہرے بدلنے سے محمول کرتے تھے یعنی ہم الزام ان کو دیتے تھے قصور اپنا نکل آیا۔ ہم خواہ مخواہ اور انتہائی ناسمجھی سے یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ لوگوں نے طرح طرح کے چہرے پہننا شروع کر دیا ہے اور لباس کی طرح چہرہ بھی نیا نیا پہن کر آتے ہیں بلکہ آپ سے کیا پردہ۔ یہ سوچ کر بڑی شرمندگی ہوئی کہ ہم کتنے اچھے اچھے لوگوں کو کتنا برا برا سوچتے تھے۔ ہم نے محض اپنی بے خبری یعنی اپنی بیماری سے ناآگاہی کا سارا الزام وقت، زمانے اور لوگوں پر دھرا تھا۔ اگرچہ اس میں قصور کچھ شاعروں، صورت گروں اور بکواسی لوگوں کا بھی تھا۔

دیکھتے دیکھتے کتنے بدل جاتے ہیں لوگ

ہر قدم پر اک نیا چہرہ پہن آتے ہیں لوگ

اب خیال آتاہے کہ صرف ہم ہی اس عارضے میں مبتلا نہ تھے بلکہ اور بھی بہت سارے لوگ اس کم بخت مرض کا شکار تھے اور ہیں جو خواہ مخواہ بچارے شریف لیڈروں رہنماوں خادمان ملک و ملت اور رہبران کرام اور رہنمایان عظام کے بارے میں برا برا بولتے ہیں کہ ان کے گھروں میں وارڈ روب کے ساتھ ساتھ ایک اور  الماری چہروں کی  بھی ہوتی  ہے جس میں مواقعے کی مناسبت سے بے شمار چہرے لٹکے ہوئے ہوتے ہیں اور وہ لباس اور جوتوں کے ساتھ ہر موقع کے لیے نیا چہرہ پہن کر آتے ہیں۔ افسوس ہوتا ہے کہ ہم نے کتنے اچھے اچھے لوگوں پر کتنے بھیڑے بھیڑے شک کیے اور ان کے چہروں کے بارے میں برا برا سوچا ، ان میں خدا معاف فرمایے قوم کے بڑے بڑے ’’خادم‘‘ اور علمائے کرام، مشائخ عظام شامل تھے جنھیں ہم جب بھی دیکھتے تھے، نئے نئے چہرے پہنے ہوئے دیکھے، پرانے زمانے کے چہروں کو تو چھوڑیے کہ اپنے چہروں  سمیت پردہ کر چکے ہیں۔

شرم رسوائی سے جا چھپنا نقاب خاک میں

ختم ہے الفت کی تم پر پردہ داری ہائے ہائے

موجودہ وقت میں جو سکے رائج الوقت بلکہ اخباروں اور چینلوں میں بیسٹ سیلر ہیں کیا بتائیں کہتے ہوئے شرم آتی ہے کہ اکثر کے چہرے تو۔۔ رہنے دیجیے کہ بعض جانوروں کا نام لینے لکھنے سے بھی قلم کی نوک نجس ہو جاتی ہے۔ لیکن اب جب سے اس مضمون کی وجہ سے ہم نے اپنے اندر یہ کم بخت چہرہ شناس بیماری دریافت کر لی ہے، سمجھ میں نہیں  آتاکہ اس کا علاج کیسے کریں کیونکہ اخبار میں یہ بھی لکھا ہے کہ اس کا علاج ابھی تک دریافت نہیں ہوا ہے اور جن لوگوں کو یہ نامراد عارضہ لاحق ہو جاتا ہے، وہ آئینے میں دیکھ کر اکثر چلا اٹھتے ہیں اور شیو وغیرہ کرتے ہوئے یوں محسوس کرتے ہیں جیسے کوئی بندر یا کوئی اور جانور ان کی نقل کر رہا ہو۔

جب تک ہمیں یہ عارضہ لاحق ہے تب تک یہی بہتر ہے کہ ہم لوگوں سے ملنا جلنا بھی چھوڑ دیں، اخبارات اور چینلز دیکھنا بھی ترک کر دیں اور خاص طور پر آئینہ دیکھنا بھی۔ کیا پتہ آئینہ دیکھ کر ہارٹ  فیلیور ہی نہ ہو جائے۔ حرف آخر یہ ہے کہ ہمارے اب تک لکھے ہوئے وہ تمام کالم منسوخ سمجھ لیجیے جن میں ہم نے لوگوں اور پھر خاص طور پر وزیروں لیڈروں اور اس سے بھی زیادہ خاص طور کچھ ’’صحافیوں‘‘ اور اینکروں کے چہروں پر بھیڑے بھیڑے شک کیے تھے کہ قصور ان کے چہروں کا نہیں ہماری اس نامراد بیماری کا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔