اسلام آباد کی طرف

ظہیر اختر بیدری  جمعـء 2 اگست 2019
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

مولانا فضل الرحمن کا ارشاد ہے کہ اگر حکومت مستعفی نہ ہوئی تو اکتوبر میں اسلام آباد مارچ کریں گے۔ یہ ہمارا آخری ملین مارچ ہے، اس کے بعد اگلا قدم اسلام آباد میں ہو گا ، انھوں نے مزید کہا کہ وفاقی حکومت نے اگر اگست میں استعفیٰ نہ دیا تو پورا ملک اسلام آباد کی طرف مارچ کرے گا۔ مولانا ہر کام بڑے سلیقے سے کرتے ہیں، بس ایک مسئلہ یہ ہے کہ انھیں مقتدر لوگوں کو اقتدار میں آنے کی جلدی بلکہ بہت جلدی ہے۔

اس تناظر میں حیرت ہے کہ مولانا مذکور نے اگست، ستمبرکو کیوں چھوڑ دیا ہے۔ اگست ستمبر تک حکومت گرانے کے انتظار میں ایسا نہ ہو کہ مولانا سمیت سارے بزرگ نواز شریف کی رہائش گاہ کو اپنا ٹھکانہ نہ بنا لیں ۔ اس یوم سیاہ کو کامیاب بنانے کے لیے حضرت مولانا ہزاروں معصوم بچوں کو دینی مدارس سے نکال کر کے یوم سیاہ کو کامیاب بنانے کی شاندار کوشش کی تھی۔ لیکن برا ہو میڈیا کا کہ اس نے  بچوں  میں ایسی روح پھونک دی تھی کہ بچے یوم سیاہ پر ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنس رہے تھے۔

اصل میں ہماری اشرافیہ سے اب صبر نہیں ہو رہا ہے، ایک سال اقتدار کے بغیر اور جیل میں گزارنے والے اشرافیہ حکومت کو ایک دن بھی دینے کے لیے تیار نہیں، ادھر مولانا  حکومت کو اکتوبر تک مہلت دے کر اپنے خیر خواہوں کی دل شکنی کر رہے ہیں، ادھر صورت حال یہ ہے کہ عمران حکومت کامیابی پر کامیابی حاصل کرتی جا رہی ہے۔ عمران اینڈ کمپنی کا کہنا یہ ہے کہ وہ مشکل حالات سے نکل آئے ہیں، اب عوام کے مسائل حل کرنے کے دن آ رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ گزرا ہوا ایک سال  حکومت پر بہت بھاری تھا، اگر اس دوران مدرسوں سے تیس چالیس ہزار بچوں کو سڑکوں پر لاتے تو بچے عمران حکومت کو گرانے کی مشق یا ریہرسل کر لیتے۔

ہماری اشرافیہ کو بہرحال اندازہ ہو گیا ہے کہ موقع ہاتھ سے نکل گیا ہے، اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اس نازک وقت میں عوام نے یہ کہہ کر اشرافیہ اور ان کے خیرخواہوں کو بہت مایوس کر دیا ہے کہ عمران خان کا دور مشکل ضرور رہا ہے لیکن  وہ اور ان کے ساتھی ایمانداری سے کام کر رہے ہیں، اس لیے عوام انھیں وقت دینا چاہتے ہیں۔ عوام کی یہ خواہش اشرافیہ کے لیے ایک بہت بڑی آزمائش بن گئی ہے۔ عوام یہ سوال کر رہے ہیں کہ بلاشبہ مہنگائی نے عوام کو ادھ موا بنا دیا ہے لیکن یہ مہنگائی ہوئی کس طرح؟ عمران حکومت آتے ہی مہنگائی کا طوفان اٹھ گیا تھا، کیا یہ مہنگائی عمران حکومت کی کرپشن کا نتیجہ ہے؟ یا نااہلی کا نتیجہ ہے؟

یہ بات تو عمران حکومت کے دشمن بھی کہہ رہے ہیں کہ عمران حکومت نے کرپشن نہیں کی، پھر مہنگائی ٹیکسوں میں اضافہ وغیرہ کس کی دین ہے۔ اس سوال کے جواب میں عمران خان کہتے ہیں، یہ 24 ہزار ارب قرض کی دین ہے، کیا مولانا صاحب بتا سکتے ہیں کہ 24 ہزار ارب کا قرض کس نے لیا تھا؟

احتجاج جمہوری ملکوں میں ایک عام سی بات ہے لیکن احتجاج میں اور حکومت گرانے میں فرق ہوتا ہے ۔ ہماری اشرافیہ ایک نکاتی ایجنڈے پر کام کر رہی ہے اور وہ ایک نکاتی ایجنڈا ہے، ہر حال میں اقتدار حاصل کرو۔ ہماری اشرافیہ جمہوریت کی بڑی رسیا ہے، لیکن جمہوریت کے یہ چیمپئن یہ سمجھنے یا سمجھانے میں ناکام رہے ہیں کہ جمہوریت انتخابات سے ہوتی ہے۔ ہمارے نواز شریف نے تو یہ بات بڑے واضح طور پر کہہ دی ہے کہ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ووٹ کو عزت کیوں دو۔ ووٹ کو عزت اس لیے دو کہ ووٹ اقتدار دلاتا ہے۔ ووٹ کو بلاشبہ عزت دینی چاہیے لیکن جب ووٹ دینے والے کی زندگی جھاڑ جھنکار سے عبارت ہو تو ووٹر ووٹ کیوں دے؟ ہمارا خیال ہے کہ نواز شریف نے اپنا بیانیہ عجلت میں دے دیا ہے ورنہ ووٹ کے ساتھ ووٹر کی عزت کا ذکر ضرور ہوتا۔

ہم کہہ رہے تھے کہ ووٹ کو عزت دو کے بیانیے کا خیال رکھنا اس لیے ضروری ہے کہ اقتدار میں آنے کا راستہ ہی یہی ہے۔ اس حقیقت کے پیش نظر یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ اقتدار الیکشن کے ذریعے حاصل کرنے کے بجائے یوم سیاہ اور انارکی پھیلا کر حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ عمران خان جن مسائل میں گھرے ہوئے ہیں اگر دوسرا کوئی وزیر اعظم ہوتا تو وزارت عظمیٰ کو دس سلام کر کے چلا جاتا لیکن یہ ضدی شخص بہ ضد ہے کہ میں اس بکھرے ہوئے پاکستان کو سنوار کر رہوں گا اور ہمیں یقین ہے کہ اگر دخل در معقولات نہ کی جائیں تو بھائی عمران اپنا مشن مکمل کر کے رہیں گے۔

آج کل ہماری اپوزیشن کے رہنما وزیر اعظم کے بارے میں جس گھٹیا زبان کا استعمال کر رہے ہیں، وہ اشرافیائی جمہوریت کے بالکل شایان شان ہے۔ ہمارے مرکزی رہنما اپنے کارکنوں کی زبان سے وزیر اعظم کو جب نالائق، بے وقوف وغیرہ کے نام سے یاد کرتے ہیں تو ہماری اشرافیہ کو یقینا دلی خوشی ہوتی ہو گی، یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ 71 سال میں ایک وزیر اعظم ملک و قوم کی بہتری کے لیے پورے عزم کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا ہے تو اس کو کام کرنے دینے کے بجائے اس کی تضحیک کر رہے ہیں۔ اس کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ غالباً اشرافیہ کی انھی حرکتوں کو دیکھ کر عوام نے ان  سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔ لیکن ہمارے ملک میں قیام پاکستان کے بعد سے غربت کا عالم یہ ہے کہ وہ جلسوں جلوسوں میں بھی حاضری لگواتے ہیں اور جلسے جلوسوں کو کامیاب بناتے ہیں۔

قارئین کرام!

ہماری طبیعت بہت خراب ہے ۔کالم لکھا نہیں جا رہا ہے۔ میں بہت بے چین ہوں کہ ایسے وقت جب کہ ملک عوام کے خلاف سازشیں زوروں پر ہیں، میں کالم لکھنے سے قاصر ہو گیا ہوں۔ دعا کریں کہ کم ازکم ہمارے لکھنے کی قوت واپس آ جائے۔ کراچی کے معروف ڈاکٹروں سے علاج کروا رہا ہوں ،کوئی فائدہ نظر نہیں آتا۔ اس کی وجہ یہ نظر آتی ہے کہ ہر شخص منی ریس میں لگا ہوا ہے اور کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ دولت حاصل کرنا چاہتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔