انتہا پسندی کا خاتمہ، ترک تعاون خوش آیند

ایڈیٹوریل  بدھ 18 ستمبر 2013
پاکستان ترکی کے تعاون سے انسداد دہشتگردی کی موثر حکمت عملی پر عمل درآمد کرے گا،وزیراعظم نوازشریف۔فوٹو:اے ایف پی

پاکستان ترکی کے تعاون سے انسداد دہشتگردی کی موثر حکمت عملی پر عمل درآمد کرے گا،وزیراعظم نوازشریف۔فوٹو:اے ایف پی

وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان سائبر کرائمز اور انتہاپسندی کی لعنت کے موثر خاتمے کے لیے ترکی سے مدد اور رہنمائی حاصل کرے گا تا کہ پاکستان میں معیشت ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔ ترکی ہمارا با اعتماد برادر ملک ہے۔ پاکستان اور ترکی میں باہمی تعاون کے 12 معاہدوں پر دستخط ہوئے جب کہ وزیر اعظم نواز شریف کو ترکی کا سب سے بڑا سول اعزاز تمغہ جمہوریت دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم نواز شریف اور ترک وزیر داخلہ معمر گُولر کے درمیان ملاقات ہوئی۔

پاک ترکی دو طرفہ تعلقات کی ٹھوس اور خوش گوار اساس دونوں ملکوں کی ایک دوسرے کے دکھ درد میں شرکت، امن کے قیام اور خطے میں معاشی ترقی، دہشت گردی، غربت، پسماندگی اور ناخواندگی کے خاتمے کی جدوجہد میں اصولی تعاون اور اشتراک عمل کی مضبوط بنیاد ہے دوسرا بڑا رشتہ اور ضرورت مسلم تاریخ، تہذیب اور آمریت سے گلو خلاصی، دونوں ملکوں کے درمیان چشم کشا تجربات، موثر حکمت عملی اور نتیجہ خیز اقدامات سے استفادہ کرنا ہے۔ یورپ کے اس ’’مرد بیمار‘‘ نے ترک معاشرے میں سماجی، اقتصادی، نظریاتی، سیاسی، عسکری اور سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبوں میںقلب ماہیت اور جرأت مندانہ اقدامات کے جو نمونے پیش کیے ہیں ان ہی میں بلاشبہ آمریت سے جمہوری نظام کی طرف مراجعت اور معاشی استحکام کی خاطر ایک طویل عوامی جنگ ترکی کے عوام کا طرہ امتیاز ہے۔

پاکستان کی جمہوری تاریخ بھی آمریت کی خونچکاں داستاں سے الگ نہیں اسی طرح کمال اتاترک کی بصیرت افروز قیادت میں ترکی نے مذہبی انتہا پسندی اور قدامت پسندی کے قبیح اثرات سے نجات پائی جب کہ اسلامی اقدار اور مسلم شناخت کو برقرار رکھتے ہوئے یورپ سے وابستگی کے عمل میں جو امتحانی مراحل طے کیے ان سے پاکستان سبق اور شعور حاصل کر سکتا ہے۔ پاک ترکی تعاون استنبول کانفرنس کی روشنی میں اپنی اقتصادی، سیاسی، تکنیکی مشاورت و معاونت جاری رکھتے ہوئے دو طرفہ تعلقات کی بنیادوں کے مزید استحکام کا باعث بن سکتا ہے۔ آج ٹھوس اور مثبت حکومتی اقدامات، بدعنوانی سے پاک ماحول، تعلیم یافتہ آبادی اور تربیت یافتہ افرادی قوت کے نتیجے میں ترکی میں ریاستی ادارے مستحکم ہوئے ہیں۔ یہی سبب ہے وزیر اعظم نواز شریف کی خواہش ہے کہ پاکستان ترکی کی پولیس کی کامیاب کارکردگی سے استفادہ کرے۔

انھوں نے توقع ظاہر کی کہ پاکستان ترکی کے تعاون سے انسداد دہشتگردی کی موثر حکمت عملی پر عمل درآمد کرے گا۔ یوں بھی دہشتگردی کے خلاف تنہا کوئی ملک لڑ نہیں سکتا۔ وزیر اعظم کے مطابق ترکی ہمارا بااعتماد دوست ہے جس نے اس مسئلہ پر قابو پایا ہے جو ہمیں آج درپیش ہے۔ ترک وزیر داخلہ نے بے حد اہم بات کہی ہے کہ انتہا پسندی کو صرف طاقت کے استعمال سے ختم نہیں کیا جا سکتا اس سلسلہ میںسماجی اصلاحات اور تعلیم سے بڑی مدد ملے گی، اس ضمن میں ترک وزیر داخلہ اور سیکیورٹی حکام کے ساتھ ملاقات میں وزیراعظم میاں نواز شریف نے تُرک حکام سے سیکیورٹی معاملات اور صورتحال سمیت پاکستان میں ترکی طرز کی پولیس فورس کی تربیت سے متعلق جن امور پر تبادلہ خیال کیا ہے ان پر بھرپور طریقے سے عمل ہونا چاہیے۔ وزیر اعظم نے پاکستانی پولیس اہلکاروں کو تُرکی میں تربیت دلانے کی جو بات کی ہے وہ بھی داخلی امن کے قیام کی کوشش کا ایک حصہ ہے۔ پاکستان کو دہشتگردی کے عفریت کا سامنا ہے۔

شہری و قبائلی علاقوں میں امن و امان کا مسئلہ درپیش ہے، اس لیے ترکی کے دہشت گردی مخالف میکانزم، قانون پر عملدرآمد اور پولیس کی موثرکارکردگی ہمارے ارباب اختیار کے لیے ایک مثال بن سکتی ہے۔ پاکستان پولیس کو سیکیورٹی معاملات سنبھالنے کی غرض سے جدید تربیت اور ہتھیاروں سے لیس کرنے کا عزم وقت کی پکار ہے۔ تُرک وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ ترکی سائبر کرائم اور نظریاتی اختلافات کے مسائل کے تدارک کے لیے پاکستان کے ساتھ تعاون میں مزید اضافہ کرے گا۔ یہ انداز نظر پاکستان کی داخلی شورش زدہ صورتحال کے تناظر میں نہایت فکر انگیز ہے، ترک وزیر داخلہ نے اپنے سماجی اور سیاسی معاملات کے تصفیہ کے لیے جو اقدامات کیے ہیں ان پر پاکستان کو غور و فکر کرنا چاہیے۔ ترک صدر عبداﷲ گُل کے ہاتھوں تمغۂ جمہوریت ملنا وزیر اعظم نواز شریف اور اہل پاکستان کے لیے ایک بڑا اور باعث فخر اعزاز ہے۔ دو طرفہ برادرانہ تعلقات کو مزید تقویت دینے کے لیے ان کی خدمات کے اعتراف میں ترکی کا اعلیٰ ترین اعزاز دیے جانے پر وہ بے حد متاثر ہوئے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ یہ دونوں ممالک کے درمیان تعاون کی نئی راہیں تلاش کرنے کے لیے مسلسل کاوشیں جاری رکھنے کے پائیدار عزم کی تجدید کا موقع بھی ہے۔

وزیر اعظم نواز شریف نے کہا کہ یہ باوقار تقریب ان خصوصی اور منفرد نوعیت کے تعلقات کی بھی عکاس ہے جو دونوں ممالک کے عوام کے دلوں میں ہیں جو ہمالیہ کی بلندیوں سے لے کر  اناطولیہ کے میدانوں تک پھیلی ہوئی ہے۔ نواز شریف نے کہا کہ یہ تعلقات ماضی اور حال کے غماز ہونے کے ساتھ ساتھ دونوں جمہوریتوں کے لیے یکساں خیالات پر مبنی عظیم مستقبل کے عہد کے بھی حامل ہیں۔ وزیر اعظم نے کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اعلیٰ سطح کی تعاون کونسل کے تیسرے اجلاس کے انعقاد کے ذریعے ہم اس مقصد کے حصول کی جانب ٹھوس اقدامات کر رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ترکی اور پاکستان مخلص بھائی اور شراکت دار ہیں جو پاک ترک تعلقات کے فروغ کے لیے یکساں جذبے سے سرشار اور پر عزم ہیں۔ وزیر اعظم نواز شریف اور ترکی کے وزیر اعظم رجب طیب اردگان کی موجودگی میں پاکستان اور ترکی کے مابین بارہ معاہدوں پر دستخط ہوئے۔

ان معاہدوں میں جوائنٹ ڈیکلریشن آف دی تھرڈ ہائی لیول کوآپریشن کونسل(ایچ ایل سی سی)، کوآپریشن اینڈ انفارمیشن ایکسچینج، ترکی اور ایس سی سی پی، کوآپریشن آف ٹیکس میٹرز، کوآپریشن ان فیلڈ آف ایجوکیشن، کلچرل ایکسچینج پروگرام، کلچرل سینٹرز، ٹیکنیکل اینڈ ووکیشنل ٹریننگ، پروٹوکول اینڈ سیکیورٹی، سول ایوی ایشن ، ایگریمنٹ ان ٹرانسفر آف اوفینڈرز، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی شامل ہیں۔ وزیر اعظم نے درست کہا کہ پاکستان اور ترکی کی جمہوریت کی بحالی کے لیے جدوجہد کی مشترکہ تاریخ ہے۔ یہ بہتر راستہ ہے جس پر ہم گامزن ہیں اور ہمیں فخر ہے کہ ترکی نے ووٹ کا تقدس برقرار رکھا اور پاکستان نے بھی اسے سربلند رکھا۔ انھوں نے کہا کہ وہ ایک بڑے ایجنڈا کے ساتھ ترکی آئے ہیں جو مختلف شعبوں میں تعلقات کو مزید فروغ دینے پر مبنی ہے۔ ترک تاجروں کو پاکستان کے دورہ اور مختلف شعبوں بالخصوص توانائی اور مکانات کے شعبوں میں سرمایہ کاری کی دعوت دے کر اس بات کو ریاستی اور حکومتی سطح پرتقویت دی گئی ہے کہ دو طرفہ اقتصادی تعاون میں ترک سرمایہ کاروں کو خوش آمدید کہا جائے گا۔

وزیر اعظم نے کہا کہ پاکستان ترکی کے تجربہ سے استفادہ چاہتا ہے جس نے غریب، متوسط آسودہ طبقات کے لیے مکانات تعمیر کیے۔ انھوں نے پاکستان میں ترکی کے مکانات کے شعبہ کے سرمایہ کاروں کے ساتھ اپنی تین ملاقاتوں کا حوالہ دیا اور کہا کہ پاکستان کی 18 کروڑ آبادی کے ساتھ یہ شعبہ سرمایہ کاری کے لیے بڑی صلاحیت رکھتا ہے۔اب ضرورت اس امر کی ہے کہ خطے میں دہشت گردی کی روک تھام کے لیے پاکستان اور ترکی بریک تھرو جیسے اشتراک عمل سے کام لیں اور دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں ایک دوسرے کی مدد کریں جب کہ اقتصادی شعبوں میں تعاون اور سرمایہ کاری کو یقینی بنانے کے لیے پاک ترکی دو طرفہ تعلقات میں مزید پیش رفت اور امن کے قیام میں اشتراک عمل کو ریاستی کمٹمنٹ کا مکمل مظہر بنایا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔